منگل، 27 اپریل، 2021

ویلنٹائن ڈے اور اسلام

  بے حیائی اور فحاشی کے فروغ میں اہل مغرب کا اچھوتا حربہ ایک ویلنٹائن ڈے بھی ہے جس میں عفت و پاکدامنی اور شرم وحیا کی دھجیاں اڑائی جاتی ہے، افسوس تو یہ ہے کہ مسلمان مرد و عورت بھی اس نامراد تہوار میں پیش پیش ہیں، راقم نے اسی عنوان پر چند سطور لکھنے کی جرات کی ہے

ویلن ٹائن ڈے کی حقیقت

                  اس سلسلے میں کوئی مستند و معتبر اور حتمی رائے نہیں پائی جاتی کہ جس کے بارے میں کہا جائے کہ یہی ویلنٹائن ڈے کی حقیقت ہے، ھاں!  کچھ واقعات اور داستانیں ہیں جسے اس دن کی طرف منسوب کیا جاتا ہے، تو آئیے! ان واقعات کا جائزہ لیتے ہیں کہ ویلنٹائن ڈے کیا ہے؟ 

پہلا واقعہ

                ' انسائیکلوپیڈیا دی بک آف نالج' کے مطابق 14 فروری کو ویلنٹائن ڈے کے نام سے منایا جانے والا تہوار عاشقوں اور محبوبوں کے لیے ایک خاص دن ہے 'بک آف نالج' میں اس واقعہ کی تاریخ یوں بیان کی گئی ہے کہ: اسکا آغاز 1700 سال پہلے ایک رومی تہوار لوپر کالیا (Luper Calia) کی صورت میں ہوا، اس تہوار کے موقع پر قدیم رومی حضرات اپنی دوست لڑکیوں (Girl friend) کے نام اپنے کرتوں اور قمیصوں کی آستینوں پر لگا کر چلتے تھے بعض اوقات یہ جوڑے تحائف کی صورت میں تبادلہ بھی کرتے تھے، بعد کے لوگوں نے اس تہوار کو سینٹ ویلنٹائن (Saint Valentine) کے نام سے منانے لگے اور اِس میں اُس کے بعض رسم و رواج کو باقی رکھا گیا، اب اسے ہر اس فرد کے لیے خاص اور اہم دن سمجھا جانے لگا جسے اپنے لئے رفیق یا رفیقہ حیات کی تلاش تھی، سترہویں صدی عیسوی کی ایک معشوقہ نے ویلنٹائن ڈے کی شام کو سونے سے قبل اپنے تکیہ میں پانچ پتّے ٹانک دیے یہ گمان کرتے ہوئے کہ ایسا کرنے سے خواب میں اسے اپنے عاشق کا دیدار ہوگا، بعد کے لوگوں نے تحائف کی جگہ ویلنٹائن کارڈ کا رواج شروع کر دیا ۔

دوسرا واقعہ

             اس کے علاوہ اور ایک معروف ومشہور واقعہ ہے جو سینٹ ویلنٹائن نامی شخص کی طرف منسوب ہے جو کہ ایک عیسائی راہب تھا، اس کے بارے میں محمد عطاءاللہ صدیقی رقم طراز ہیں: اس کے متعلق کوئی قابل اعتبار حوالہ تو موجود نہیں ہے لیکن ایک غیر مستند و غیر معتبر خیالی داستان ملتی ہے کہ تیسری صدی عیسوی میں ویلنٹائن نام کا ایک پادری تھا جو ایک راہبہ(Nun) کی زلف گرہ گیر کے اسیر ہوگئے، چونکہ عیسائی مذہب میں راہبوں اور راہبات کے لئے نکاح کرنا ممنوع تھا اس لیے ایک دن ویلن ٹائن صاحب نے اپنی معشوقہ کو تسلی پہنچانے کے خاطر ایک حیلہ اپنائی اور اپنی معشوقہ سے کہا کہ اسے خواب میں بتایا گیا کہ 14 فروری کا دن ایسا ہے کہ اس دن میں اگر کوئی راہب یا راہبہ جنسی ملاپ بھی کر لیں تو اسے گناہ تصور نہیں کیا جائے گا، راہبہ نے ان کی باتوں پر یقین کر لیا اور دونوں جوشِ عشق  میں وہ سب کچھ کر گزرے جس کی انہیں تڑپ تھی، پھر کیا؟ کلیسا کی روایت کے یوں دھجیاں اڑانے کی وجہ سے ان کا انجام وہی ہوا جو عموما ہوا کرتا ہے، یعنی انہیں قتل کر دیا گیا، بعد میں کچھ منچلوں اور بے حیائی پسندوں نے ویلن ٹائن کو شہید محبت کا درجہ دے دیا اور اس کی یاد میں اس دن تہوار منانا شروع کر دیا، 
        حالانکہ چرچ نے ہمیشہ اس کی مخالفت کی ہے اور اس خرافات کی مذمت کرتے ہوئے اسے جنسی بے راہ روی کی تبلیغ پر مبنی فعل قرار دیا، یہی وجہ ہے کہ ایک دفعہ بینکاک میں ایک عیسائی پادری نے بعض افراد کو لے کر ایک ایسے دکان کو نذر آتش کر دیا جہاں ویلنٹائن کارڈ فروخت ہوتے تھے۔

تیسرا واقعہ

             ویلنٹائن ڈے کی تاریخ عیسائی راہب ولٹینس یا ویلنٹائن سے جڑی ہوئی ہے اس طرح سے کہ جب روم کا بادشاہ کلا دیوس کو جنگ کے لئے لشکر تیار کرنے میں پریشانی ہوئی، تو اس نے وجہ تلاش کی، تو پتہ چلا کے شادی شدہ لوگ اپنے بال بچوں اور گھر بار چھوڑ کر جنگ میں چلنے کو آمادہ نہیں ہیں، تو بادشاہ نے شادی پر پابندی عائد کر دی، تب ویلنٹائن نے شاہی فرمان کی حکم عدولی کرتے ہوئے نہ صرف خود شادی کی بلکہ اور بھی لوگوں کی شادیاں کروائی، جب بادشاہ کو خبر ملی تو اس نے ویلنٹائن کی گرفتاری کا حکم صادر کیا اور اسے 14 فروری کو پھانسی دے دی گئی۔
          یہ تھے وہ واقعات و افسانے جو ویلنٹائن ڈے کے حوالے سے مشہور و معروف ہیں۔

اسلام کا نقطہ نظر

                مذکورہ بالا واقعات سے بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک غیر مسلموں کا رائج کردہ تہوار ہے جس میں فحاشی، عریانی اور بے حیائی کو فروغ دیا جاتا ہے، جبکہ مذہب اسلام ہمیں اس کی قطعا اجازت نہیں دیتا، 
ویلنٹائن ڈے منانا غیر اسلامی طریقہ ہے اور اسلام ہمیں اس طرح کی خوشیاں منانے کی اجازت نہیں دیتا جس میں بے حیائی کو فروغ حاصل ہو،  اسلام میں حیا کی بہت اہمیت ہے حتی کہ حیا کو ایمان کا ایک حصہ قرار دیا گیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:{ الحیاء شعبۃ من الایمان} [ متفق علیہ]  ویلنٹائن ڈے میں لڑکوں اور غیر محرم لڑکیوں کا اختلاط ہوتا ہے اور یہی اختلاط اپنے اندر کئی قسم کے شرعی اور معاشرتی جرائم سمیٹے ہوئے ہے، کیونکہ فحاشی کی ابتدا اختلاطِ مرد و زن سے ہی ہوتی ہے۔

لمحئہ فکریہ

             افسوس کہ اب مسلمان لڑکے اور لڑکیاں بھی اس قبیح فعل میں مبتلا ہیں، اور اسلامی اقدار کو پامال کر رہے ہیں، جبکہ مسلمان ہونے کے ناطے ان کی ذمہ داری تو یہ بنتی ہے کہ وہ معاشرے سے اس برائی کا خاتمہ کرے، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :{ من راى منكم منكرا فليغيره بيده فان لم يستطع فبلسانه وان لم يستطع فبقلبه وذلك اضعف الإيمان} [مجموع الفتاوى: ٣٦٧/٨]
لیکن آج ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو بالائے طاق رکھ کر اس گندے تہوار کے شیدائی ہو چکے ہیں۔
            درحقیقت اس میں الکٹرانک میڈیا  نے اہم کردار نبھایا ہے، اس تہوار کو منانے کے لئے طرح طرح کی دلیلیں پیش کرتے ہیں، ہو سکتا ہے !  آزاد خیال انسان کو اس سے کوئی فرق نہ پڑتا ہو لیکن ایک باعزت شخص، ایک باعزت باپ، ایک باعزت شوہر کے لیے یہ بہت ہی قبیح وغلیظ چیز ہے کیونکہ عریانیت، فحاشی اور بے حیائی کو ہر مذہب نے حرام قرار دیا ہے، اور دین اسلام نے تو اس پر بہت ہی سخت قدغن لگایا ہے۔ اللہ رب العالمین کا ارشاد ہے{ قل انما حرم ربي الفواحش ما ظهر منها وما بطن والاثم والبغي بغير الحق}   [ آل عمران :110] 
            لہذا مسلم قوم کو اس کی حقیقت سمجھنی چاہیے اور قرآن و سنت کا پاکیزہ پیغام عام کرنا چاہیے تاکہ اس غلاظت و قباحت سے پاک و صاف ہو. شاعر کہتا ہے:
        ' سکھائے  ہیں  محبت کے  نئے  انداز  مغرب  نے
        حیائیں سر پیٹتی ہیں عصمتیں فریاد کرتی ہیں' 

         🖊
        راضی
             





کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں