جمعہ، 12 اپریل، 2024

صدقۃ الفطر میں غلہ یا قیمت؟ ایک تحقیقی جائزہ




صدقۂ فطر کو اصطلاح شرع میں زکوۃ فطر سے بھی تعبیر کیا گیا ہے نیز اسے زکوۃ رمضان زکوۃ صوم اور فطرہ بھی کہتے ہیں۔
 صیام رمضان کے خاتمے پر صدقہ فطر فرض کیا گیا ہے۔ جس کے دو بنیادی مقصد بتائے گئے ہیں۔
1️⃣ *اول* : یہ کہ روزہ کی حالت میں بتقاضائے بشریت اگر غلطی اور گناہ کا ارتکاب ہو گیا ہو تو اس سے ان کی تلافی ہو جائے۔
2️⃣ *دوم* :  یہ کی جو لوگ اپنی ناداری اور مفلسی کی وجہ سے اس عمومی تہوار کی خوشیوں میں شریک ہونے کی طاقت نہیں رکھتے اس صدقہ فطر کے ذریعہ ان کا تعاون کر کے ان کو اس قابل بنا دیا جائے کہ وہ عید کے دن کمانے اور رزق کی جستجو سے بے نیاز ہو کر عید کی خوشی میں شامل ہو سکیں ۔
صدقہ فطر قرآن و سنت اجماع امت کی دلیل سے واجب ہے۔ نیز اس کی مقدار صحیح حدیث کی روشنی میں ایک صاع غلہ بتائی گئی ہے۔ جیسا کہ ابو سعید خدری اور  عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کی روایت سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے روایت ملاحظہ ہو : 
⏺️ عن أبي سعيدٍ الخدريِّ قالَ كنّا نخرجُ إذ كانَ فينا رسولُ اللَّهِ ﷺ زَكاةَ الفطرِ عن كلِّ صغيرٍ وَكبيرٍ حرٍّ أو مملوكٍ صاعًا من طعامٍ أو صاعًا من أقطٍ أو صاعًا من شعيرٍ أو صاعًا من تمرٍ أو صاعًا من زبيبٍ فلم نزل نخرجُهُ حتّى قدمَ معاويةُ حاجًّا أو معتمرًا فَكلَّمَ النّاسَ على المنبرِ فَكانَ فيما كلَّمَ بِهِ النّاسَ أن قالَ إنِّي أرى أنَّ مدَّينِ من سمراءِ الشّامِ تعدلُ صاعًا من تمرٍ فأخذَ النّاسُ بذلِك. فقالَ أبو سعيدٍ فأمّا أنا فلاَ أزالُ أخرجُهُ أبدًا ما عشت.
• الألباني، صحيح أبي داود (١٦١٦) • صحيح • أخرجه أبو داود (١٦١٦) واللفظ له، وأخرجه مسلم (٩٨٥)۔
⏺️عن سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ : كُنَّا نُخْرِجُ زَكَاةَ الْفِطْرِ صَاعًا مِنْ طَعَامٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ أَقِطٍ ، أَوْ صَاعًا مِنْ زَبِيبٍ. ( صحیح بخاری [1506] صحیح مسلم [985])
⏺️عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ : فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَكَاةَ الْفِطْرِ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ عَلَى الْعَبْدِ وَالْحُرِّ، وَالذَّكَرِ وَالْأُنْثَى، وَالصَّغِيرِ وَالْكَبِيرِ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، وَأَمَرَ بِهَا أَنْ تُؤَدَّى قَبْلَ خُرُوجِ النَّاسِ إِلَى الصَّلَاةِ.
( بخاری [1503])
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی دونوں حدیثوں کا خلاصہ یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہر قسم کے غلہ، جو، کھجور، کشمش اور پنیر سے ایک صاع نکالتے تھے۔
 اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صاع غلہ ، جو اور کھجور زکوۃ فطر میں فرض قرار دیا ہے ۔

  صدقۂ فطر میں قیمت دینا
مندرجہ بالا حدیثوں سے واضح طور سے معلوم ہوا کہ صدقۂ فطر میں اصل غلہ ہے، قیمت نہیں ۔لیکن اگر کوئی غلہ کے عوض قیمت نکالنا چاہے تو کیا صدقۂ فطر ادا ہوگا یا نہیں اس سلسلے میں علماء کرام کا اختلاف ہے ۔
 پہلا قول: 
           زکوۃ فطر میں قیمت دینا جائز ہے یہ قول امام ابو حنیفہ ان کے اصحاب، سفیان  ثوری ،حسن بصری اور عمر بن العزیز کا ہے ۔(المغنی [294/4]،المجموع [71/6]،المحلی [130/6]،مصنف ابن ابی شیبہ [398/2]، فقہ الزکاۃ [948/2])

 دلائل درج ذیل ہیں :
1️⃣ حدیث میں صدقہ فطر کا جو مقصد بیان کیا گیا ہے وہ یہ کہ" طهرة للصائم من اللغو والرفث وطعمة للمساكين" ( ابو داود [1609] باسناد حسن ، الارواء [ 843]) 
 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر روزہ دار کی لغو بات اور فحش گوئی سے روزہ کو پاک کرنے کے لیے اور مساکین کو کھانا کھلانے کے لیے مقرر کیا ہے .
 وجہ استدلال:   یہ ہے صدقہ فطر میں مساکین کو کھانا کھلانا مقصود ہے تو قیمت سے بھی ادائیگی ممکن ہے نیز اپ کا فرمان "اغنوهم عن السؤال هذا اليوم " ( ضعيف ، الارواء 334/3 )  انہیں آج مانگنے سے بے نیاز کر دو یہ بے نیاز کرنا قیمت اور غلہ  دونوں سے حاصل ہو سکتا ہے بلکہ بسا اوقات قیمت غلہ سے افضل بھی ہو جاتی ہے جب فقیر کے پاس غلہ زیادہ اور دیگر سامان کم ہوں ۔( فقہ الزکاۃ 949/2)
اس کا جواب یہ ہے کہ فقیروں اور مسکینوں کو سب سے زیادہ خوراک کی ضرورت پڑتی ہے نیز"أغنوھم ..."والی روایت ضعیف ہے اگر مان بھی لیں تو دونوں حدیثوں "أغنوھم ..."اور " طعمۃ للمساکین "  کو ملانے کے بعد خوراک والا مفہوم قریب تر ہے ۔
2️⃣  ابو اسحاق السبیعی کا قول "أدركتهم وهم يؤدون في صدقة رمضان الدراهم بقيمة الطعام " ( مصنف ابن ابي شيبة [398/2]  میں نے انہیں پایا کہ وہ رمضان کے صدقہ میں غلہ کی قیمت سے دراہم دیتے تھے.
 
اس کا جواب یہ کہ :
⬅️ ابو اسحاق السبیعی مختلط اور مدلس راوی ہیں ( المختلطین ,  [93] جامع التحصیل للعلائی 108/1).
⬅️ ابو اسحاق السبیعی سے روایت کرنے والے زہیر بن معاویہ ہیں جنہوں نے ان سے اختلاط کے بعد سنا ہے ( المختلطین 93)
⬅️ ابو اسحاق السبیعی کا قول" ادرکتہم" سے مراد کون ہیں ؟معلوم نہیں، اگر صحابہ کو مراد لیا جائے تو صحابہ کرام غلہ ہی دیا کرتے تھے جیسا کہ بخاری میں ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی روایت "کنا نخرج"  سے معلوم ہوتا ہے . 

3️⃣عطاء کے بارے میں منقول ہے " أنه كان يعطي في صدقة الفطر ورقا " ( مصنف ابن ابي شيبة [37-4/38]  بحوالة فقه الزكاة [ 949/2] )
* عطاء بن ابی رباح صدقہ فطر میں چاندی دیتے تھے ۔ 
 
اس کا جواب یہ کہ : 
               جب حدیث رسول کے مقابلہ میں صحابی کا قول و فعل حجت نہیں ہے تو پھر تابعی کا قول و فعل کیسے حجت ہو سکتا ہے؟
دوسری بات یہ ہے کہ مصنف ابن ابی شیبہ کا وہ نسخہ جو مکتبۃ الرشد ریاض سے  کمال یوسف کی تحقیق سے [ 398/2 (10372) ] 1409ھ ،نیز دار التاج ، بیروت ، لبنان ط : اول 1409ھ اور ( باب 69 باب في إعطاء الدراهم في زكاة الفكر { حديث 5} 64/3) دارالفکر بیروت لبنان 1414 ہجری میں چھپا ہے اس میں عبارت اس طرح ہے( " عن عطاء أنه كره أن يعطى في صدقة الفطر ورقا " ) یعنی عطاء صدقہ فطر میں چاندی دیے جانے کو ناپسند کرتے تھے ۔
اس سے تو مفہوم بالکل الٹ جائے گا اور یہ عبارت قیمت کے قائلین کے خلاف دلیل بن جائے گی اس لیے قیمت کے قائلین کے لیے ان کا چنداں  مفید نہیں ۔

ان دلائل کے علاوہ قیمت کے قائلین کے مزید کچھ شبہات ہیں مثلا : 
1️⃣ ایک صاع غلہ یا کھجور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بطور کرنسی استعمال ہوتی تھی ۔
جواباً عرض ہے کہ نبی کریمﷺ کے زمانے میں بھی کرنسی تھی، مگر آپ ﷺنے صدقہ فطر کو غلہ کے ساتھ مقید کیا، کرنسی کے ساتھ نہیں۔ معلوم ہوا کہ غلہ و خوراک ہی اصل ہے۔ اگر کرنسی اصل ہوتی تو آپ ﷺ کرنسی کے ساتھ مقید کرتے جیسا کہ بہت ساری چیزوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا اور اگر آپ غلہ کو بھی کرنسی مانتے ہیں تو مانیں، مگر اس کرنسی کو کسی دوسری کرنسی میں تبدیل نہ کریں کیونکہ اسے شریعت نے متعین کیا ہے ۔
2️⃣ ابو سعید خدری اور معاویہ رضی اللہ عنہما کا اختلاف ایک صاع  یا نصف صاع گیہوں دینے کے بارے میں ۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ صحابہ کرام نے قیمت کا اعتبار کیا ۔
اس کا جواب یہ ہے کہ ایک صاع یا نصف صاع گیہوں دینے کے بارے میں اختلاف کے باوجود ان کا غلہ دینے پر اتفاق تھا نہ کہ کرنسی دینے پر۔

 دوسرا قول :  
           جمہور ائمہ امام مالک و شافعی اور امام احمد رحمہ اللہ کا قول ہے کہ صدقہ فطر میں غلہ ہی دیا جائے گا ۔ ( المغنی [295/4]، المجموع [71/6] 
امام احمد رحمہ اللہ نے فرمایا مجھے اندیشہ ہے کہ قیمت دینا کافی نہ ہوگا اور جب ان سے کہا گیا کہ عمر بن عبدالعزیز قیمت قبول کرتے تھے تو انہوں نے فرمایا کہ" *لوگ نبی کا قول چھوڑ دیتے ہیں* " اور" فلاں نے کہا "کہتے ہیں جبکہ ابن عمر کی حدیث میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے غلہ فرض کیا ہے اور اللہ تعالی کا ارشاد ہے{ اطیعوا  اللہ و الرسول}(آل عمران : 32)  مزید فرمایا کہ لوگ فلاں نے کہا ، فلاں نے کہا ، کہہ کر نبی کریم ﷺ کے طریقے کو چھوڑ دیتے ہیں ۔( المغنی 295/4)
امام ابن قدامہ نے فرمایا: کہ جس نے قیمت دی تو کافی نہ ہوگا ( حوالہ مذکور 👆) 
امام نووی نے کہا: ہمارے نزدیک قیمت دینا کافی نہ ہوگا ( المجموع [ 71/6]
امام ابن حزم نے فرمایا : قیمت کفایت نہیں کرے گی ( المحلی 259/4) 
یہاں پر شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ کا قول ذکر کرنا فائدہ سے خالی نہیں ہوگا انہوں نے فرمایا: " ہمارے زمانے میں کچھ لوگ عبادات کو اس کی شرعی حالت سے بدلنے کی کوشش کرتے ہیں جس کی بہت ساری مثالیں ہیں جیسے صدقۂ فطر کو نبی کریمﷺ نے رمضان کے اختتام پر غلہ سے نکالنے کا حکم دیا تو کچھ لوگ غلہ کے بدلے قیمت نکالنے کا فتوی دیتے ہیں ۔یہ عبادت کو اس کی شرعی حالت سے پھیرنا ہے، کیونکہ صدقہ فطر کا ایک خاص وقت ہے اور وہ ہے لیلۃ العید خاص جگہ ہے جہاں پر نکالنے والا موجود ہو ،خاص مصرف ہے اس جگہ کے مساکین ہیں، ایک خاص نوعیت و صفت ہے ،وہ ہے غلہ ۔ تو اس عبادت کو ان تمام شرعی  اعتبارات سے مقید کرنا ضروری ہے ورنہ وہ عبادت نہ تو صحیح ہوگی اور نہ ہی انسان اس سے برئ الذمہ  ہوگا ۔
اسی طرح ظہار، قسم، نہار رمضان میں جماع کے کفارہ اور صدقہ فطر میں غلہ ہی  ہے تو قیمت نکالنے سے وہ ادا نہ ہوگا کیونکہ یہ منصوص عبادت کو اس کی شرعی کیفیت سے بدلنا ہے جو کہ جائز نہیں ہے۔
 اس بات کو علامہ نے مزید مثالوں اور دلیلوں سے واضح کیا مثلا ہدی، قربانی اور عقیقہ کے بدلے صدقہ کرنا یا ہدی و اضاحی  میں سے غریبوں اور مسکینوں کو نہ کھلا کر اس کی قیمت دینا یہ سب درست نہیں ہے۔ 
رہی بات غریبوں اور مسکینوں کے تعاون کی ،تو ان کی مدد کی جائے نقود کپڑوں اور خوراک کے ذریعہ ،مگر شرعی عبادات کو اس کے وقت اور مکان سے بدلنا جائز نہیں ۔ ( تلخیص: الخطب المنبریہ [ 495-2/496] ۔
 
راجح قول:  صدقۂ فطر میں وہی غلہ دیا جائے جو عام طور پر لوگوں کی خوراک ہو یہی راجح ہے ترجیح کے اسباب مندرجہ زیل ہیں : 
1️⃣ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے زکوۃ فطر میں غلہ ہی فرض کیا ہے جیسا کہ بخاری مسلم اور دیگر کتب حدیث میں ابو سعید خدری اور عبداللہ بن عمر کی روایتیں موجود ہیں ۔
2️⃣ دراہم و دنانیر  عہد نبوی میں بھی موجود تھے پھر بھی آپ ﷺ نے صدقہ فطر کو ایک صاع غلہ  کے ساتھ مقید کیا جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ غلہ ہی صدقہ فطر میں اصل ہے ۔ 
3️⃣ صدقہ فطر متعینہ جنس کی شکل میں فرض شدہ عبادت ہے تو دوسری جنس (نقود وغیرہ) سے نکالنا کافی نہ ہوگا . ( مجالس شہر رمضان 28) 
4️⃣ صدقۂ فطر میں خوراک کے بدلے قیمت نکالنے سے ظاہری شعار کے بجائے پوشیدہ صدقہ بن جاتا ہے (مجالس شہر رمضان 28)
5️⃣ صدقۂ فطر کو مسکینوں کی خوراک بتایا گیا ہے تو خوراک ہی دیا جائے اگر خوراک کے بجائے قیمت دی گئی تو ممکن ہے کہ لینے والا کوئی اور سامان خرید لے جس سے امر تعبدی حاصل نہ ہو ۔
6️⃣ صدقۂ فطر میں اگر قیمت دی جائے تو کس جنس کی ؟کھجور کی ؟یا جو کی؟ کشمش کی یا پنیر کی ؟
اگر جو کی قیمت دی گئی اور لینے والے نے پنیر یا کھجور خرید لیا تو ظاہر سی بات ہے ایک صاع سے کم پائے گا اور صدقہ فطر ایک صاع متعین ہے۔ جب ایک صاع سے کم ہوا تو صدقہ فطر ادا نہ ہوگا ۔کیونکہ عہد رسالت میں بھی مذکورہ اجناس کی قیمت یکساں نہیں تھی جیسا کہ آج بھی یکساں نہیں ہے۔ خود کھجور کی مختلف قسمیں ہیں جن کی قیمتوں میں بہت فرق ہے تو کون سی کھجور کی قیمت دی جائے ؟یا دیگر سامان مثلا کپڑا وغیرہ خرید لیا اور تو غلہ نہ ہوا اور صدقہ فطر میں غلہ ہی مطلوب ہے۔
علامہ البانی رحمہ اللہ کا قول بھی یہی ہے کہ صدقہ فطر میں غلہ ہی دیا جائے چنانچہ انہوں نے قیمت دینے والوں پر نقد کرتے ہوئے فرمایا کہ قیمت دینا شارع  پر تہمت لگانا ہے اور یہ بتانا ہے کہ ان کی شریعت نبی ﷺکی شریعت سے زیادہ بہتر اور فقیر و مسکین کے لیے زیادہ سود مند ہے۔ اگر یہ مقصد ہو تو کفر ہے۔ جبکہ ان کا یہ مقصد ہرگز نہیں ہے۔ لیکن غفلت کی وجہ سے اس طرح کی غلط باتیں کرتے ہیں ۔بہرحال صدقہ فطر میں وہی چیزیں نکالنا جائز ہیں جو شارع نے نصا  بیان کیا ہے اور وہ غلہ ہی ہے ۔ ( مستفاد : جامع تراث العلامہ الالبانی فی الفقہ [ 595/10] 
ان تمام وجوہات کی بنا پر شبہات سے احتراز  کرتے ہوئے صدقہ فطر میں غلہ ہی نکالا جائے کیونکہ حکم رسول بھی وہی ہے اور یقینی بھی وہی ۔ قیمت دینا  کم از کم شک و شبہ سے خالی نہیں ہے ۔۔ واللہ اعلم




   
                                  📝
 فضیلۃ الشیخ رفیع الدین نجم الدین الریاضی حفظہ اللہ
استاذ : جامعہ اسلامیہ دریاباد

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں