بدھ، 17 اپریل، 2024

روزے کی فضیلت اور نہ رکھنے پر وعید



 روزے کی فضیلت اور نہ رکھنے پر وعید


پچھلی گفتگو میں ہم نے اخلاص سلامت صدر توبہ دعا کا تذکرہ کیا رمضان المبارک سے پہلے ان کاموں کو مضبوطی سے اختیار کرنا چاہئے جوں ہی رمضان المبارک کا مہینہ شروع ہو ایک مسلمان کو مزید نیک کام کرنے چاہئے 

اب آئیے ہم  رمضان المبارک کے مہینے اور روزے کی فضیلت کو جانتے ہیں 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو جو سکھایا اور سمجھایا اور اس کی روشنی میں انہوں نے اپنی زندگی گزاری


 من صام رمضان وقامه إيمانًا واحتسابًا غفر له ما تقدم من ذنبه

 وفی روایة اخری

 من قام رمضان إيمانًا واحتسابًا غُفر له ما تقدَّم من ذنبه

 (متفق علیہ)


جو شخص روزہ رکھتا ہے اور پھر قیام کرتا ہے اس کا مقصد یہ ہو کہ وہ اللہ پر ایمان لاتے ہوئے اس نیت سے روزہ رکھے کہ یہ اسلام کے ارکان میں سے ہے عبادت ہے اور اللہ نے مجھ پر فرض کیا ہے اور اجر کی امید سے یہ کام کرتا ہو خواہ وہ روزہ رکھے یا قیام کرے اللہ تعالی اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیتے ہیں مگر نیت شرط ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی لئے فرمایا تھا حضرت ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں 


 ربَّ صائمٍ ليسَ لَه من صيامِه إلَّا الجوعُ وربَّ قائمٍ ليسَ لَه من قيامِه إلَّا السَّهرُ


کچھ روزے دار ایسے ہوتے ہیں جن کے حصے میں صرف یہی چیز آتی ہے کہ وہ بھوکا تھا اسے کچھ نہیں ملتا اجر و ثواب سے دور رہتا ہے کتنے تہجد پڑھنے والے کتنے تراویح پڑھنے والے ان کے حصوں میں اجر و ثواب نہیں آتا بس انہوں نے اپنی رات خراب کی سوئے نہیں کیوں ایسا ہوتا ہے اگر اللہ کی رضا کے لئے روزہ نہیں قیام نہیں تو قبول نہیں سنت کے مطابق نہیں پھر بھی قبول نہیں بھوکا رہنا کوئی کمال نہیں رات کو بیدار رہنا کمال نہیں ہے کمال اس وقت ہے جب اللہ کے لئے کیا جائے سنت کے مطابق کیا جائے


 إِنَّ اللّٰہَ لَا یَقْبَلُ مِنَ الْعَمَلِ إِلَّا مَا کَانَ لَہٗ خَالِصًا وَابْتُغِیَ بِہِ وَجْہُہٗ 

 (نسائی)


عبادت اتنی حساس ہے کہ اگر 99 فیصد اللہ کے لئے عبادت کی ہو اور ایک فیصد لوگوں کے لئے کہ لوگ بھی واہ واہ کریں تو اللہ رب العالمین قیامت کو فرمائیں گے  ترکتہ وشرکہ  میں نے اپنی 99 فیصد بھی چھوڑے جس کے لئے تم نے ایک فیصد عبادت کی تھی  فلیطلب ثوابہ من عندی

آج بدلہ اسی سے جا کر لے لو اخلاص یہ ہے کیا 

 ان لا تطلب لعملک شاھدا غیر اللہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا 

 قَدْ جَاءَ کُمْ رَمَضَانُ ،شَھْرٌ مُّبَارَکٌ، اِفْتَرَضَ اللّٰہُ عَلَیْکُمْ صِیَامَہُ، تُفْتَحُ فِیْہِ اَبْوَابُ الْجَنَّۃِ وَ تُغْلَقُ فِیْہِ اَبْوَابُ الْجَحِیْمِ وَ تُغَلُّ فِیْہِ الشَّیَاطِیْنِ فیْہِ لَیْلَۃٌ خَیْرٌ مِّن اَلْفِ شَھْرٍ،مَنْ حُرِمَ خَیْرَھَا فَقَدْ حُرِمَ (مسند احمد


رمضان المبارک کا مہینہ آگیا ہے اور یہ بہت برکتوں والا مہینہ ہے اللہ تعالی نے تم پر اس مہینے کے روزے کو فرض قرار دیا ہے اس مہینے میں جنت کے دروازوں کو کھول دیا جاتا ہے اور جہنم کے دروازوں کو بند کر دیا جاتا ہے اور شیطانوں کو قید کر دیا جاتا ہے اس مہینے میں ایک ایسی برکتوں والی رات ہے جو ہزار مہینے سے افضل ہے لیلۃ القدر کی برکتوں سے جو محروم کر دیا گیا اس سے بڑا کوئی محروم نہیں روزے کا صرف یہ مطلب نہیں کہ انسان بھوک پیاس برداشت کرے 


 قال جابر بن عبد الله -رضي الله عنه-: "إذا صمت فليصم سمعك وبصرك ولسانك عن الكذب والمحارم

 أخرجه ابن أبي شيبة في "المصنف"، والحاكم في "معرفة علوم الحديث"، والبيهقي في "شعب الإيمان"، وابن المبارك في "الزهد والرقائق".


حضرت جابر بن عبد اللہ سے روایت ہے جب تم روزہ رکھو تو تمہارے کانوں کا بھی روزہ ہونا چاہئے گانے نہ سنو بری باتیں نہ سنو آنکھ کا بھی روزہ رکھو حلال چیز دیکھو حرام سے بچو یہ مبارک مہینہ ہے اپنے آپ کو اللہ کے حوالے کرو زبان کا بھی روزہ رکھو گالی نہ دو غیبت نہ کرو اس سے اچھی باتیں کہو اس لئے کہ 

 مَنْ لَمْ يَدَعْ قَوْلَ الزُّورِ وَالعَمَلَ بِهِ، فَلَيْسَ لِلَّهِ حَاجَةٌ فِي أَنْ يَدَعَ طَعَامَهُ وَشَرَابَهُ 

أخرجه الإمام البخاری

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اگر کوئی شخص جھوٹ بولنا اور دغا بازی کرنا (روزے رکھ کر بھی) نہ چھوڑے تو اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے

 وعن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وسلم قال:

 من صام رمضان وعرف حدوده، وتحفظ مما كان ينبغي أن يتحفظ منه كفر ما قبله

 رواه أحمد، والبيهقي، بسند جيد.


جو رمضان المبارک کے روزے رکھتا ہے اور اس کے حدود و قیود کو جانتا ہے اور حسب توفیق اس کی حفاظت کرتا ہے اس بندے کے سارے گناہ کو معاف کر دیا جاتا ہے.


اور جو روزہ نہیں رکھتا اس کے بارے میں کہا گیا ہے وہ یہ نہ سمجھے مجھے کسی اجر کی کسی مفتی کے فتوے کا فائدہ ملے گا 


قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم

 بینا انا نائم اتانی رجلان فاخذا بضبعی فاتیا بى جبلا وعرا فقالا اصعد فقلت انی لا اطیقه فقال انا سنسھله لک فصعدت حتی اذا کنت فی سواء الجبل اذا باصوات شدیدۃ فقلت ما ھذہ الاصوات قالوا عواہ اہل النار ثم انطلق بی فاذا انا بقوم معلقین بعراقیھم مشققة اشداقھم تسیل اشداقھم دما قال قلت من ھؤلاء قال الذین یفطرون قبل تحلة صومھم

(صحیح الترغیب)


نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں سو رہا تھا اچانک دو آدمی میرے پاس آئے اور میرے بازوؤں کو پکڑ کر اٹھایا اور اک پہاڑ کے پاس لے گئے جس پر چڑھنا میرے لئے دشوار تھا  اور مجھے اس پر چڑھنے کے لئے کہا میں نے کہا میں چڑھ نہیں سکتا انھوں نے کہا آپکے لئے ہم آسان بنا دینگے چنانچہ میں نے اس پہاڑ پر چڑھنا شروع کیا یہاں تک کہ پہاڑ کی چوٹی تک پہنچ گیا وہاں میں نے چیخنے چلانے کی آوازیں سنی میں نے کہا یہ کس کی چیخیں ہیں انھوں نے کہا یہ جہنمیوں کی چیخ وپکار ہیں پھر مجھے اور آگے لے جایا گیا تو میں نے وہاں کچھ لوگوں کو اُلٹا لٹکا ہوا دیکھا جنکی بانچھیں چیر دی گئی تھی اور اس سے خون بہہ رہا تھا میں نے پوچھا یہ کون سے لوگ ہیں جواب ملا یہ وہ لوگ ہیں جو اذان سے پہلے روزہ افطار کرلیا کرتے تھے جو اذان سے پہلے افطار کرتا ہے اسکی سزا یہ ہے تو جو روزہ ہی نہیں رکھتا اسکا کیا ہوگا ؟ ذرا سوچو! 


اور خدا نخواستہ اگر کوئی یہ کہہ دے میں روزہ نہیں رکھوں گا مجھے روزے کی ضرورت نہیں تو ایسا شخص کافر ہو جاتا ہے


مذکورہ بالاحدیث میں روزہ نہ رکھنے والے کو کافر بتایا گیا ہے ، علماء کرام نے اگرچہ اس کافر ہونے کو انکار کرنے کے ساتھ مقید کیا ہے کہ جو روزہ کا انکار کرے وہ مسلمان نہیں رہتا، اور جوشخص بلاعذر اس کو چھوڑ دے وہ کافر نہیں مگر سخت گنہگار اور فاسق ہے ۔لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسے لوگوں کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات بہت سخت ہیں ۔اس لئے فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ سے بہت ڈرنا چاہیے ۔

البتہ اگر شرعی عذر ہو تو مجبوری کی صورت میں رمضان کا روزہ چھوڑنے کی اجازت ہے ، ایسی صورت میں بعد میں قضاء کرنی ہوگی ۔


 اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو روزہ کے فضائل وبرکات حاصل کرنے اور روزہ رکھنے کی توفیق عطا فرمائے اور بغیر عذر روزہ چھوڑنے سے تمام لوگوں بچائے ۔ آمین .




                  📝

   فہمیدہ رحمانی بنت ولی اللہ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں