بر صغیر کے بہت سارے مسلمان غیر مسلموں کے ساتھ تعامل میں افراط وتفریط کے شکار ہیں۔ بعض رواداری میں اتنے آگے بڑھے ہوئے ہیں کہ ان کے مذہبی تہواروں مثلا ہولی، دیوالی، کرسمس وغیرہ پر انھیں مبارکباد دینے، بلکہ ان میں شرکت کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں، اور اسے اپنی روشن خیالی تصور کرتے ہیں۔ جب کہ بعض ان کے ساتھ تعامل میں اتنی شدت برتتے ہیں کہ ان کے برتنوں میں کھانے پینے سے پرہیز تو کرتے ہی ہیں، اپنے برتنوں کو بھی انھیں استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ اگر کسی کے گھر میں کوئی غیر مسلم مزدور ہے اور اسے کھانا پیش کرنا اس کی مجبوری ہے تو اس کا برتن اور مجلس الگ کر دیتے ہیں۔
یقینا یہ تعامل شرعی تعلیمات سے دور اور افراط وتفریط پر مبنی ہے۔ اس میں راہ اعتدال وہی ہے جس کی شریعت نے ہمیں تعلیم دی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام نے اپنی پوری زندگی غیر مسلموں کے درمیان رہتے ہوئے گزاری ہے۔ اور ان سے بڑھ کر نہ کوئی روادار اور روشن خیال ہوسکتا ہے، اور نہ شعائر اسلام پر غیرت مند۔ بلا شبہ ان کا طریقہ سب سے بہتر طریقہ ہے، اور لائق اتباع وذریعہ نجات بھی۔
اسلام ہمیں ہر ایک کے ساتھ حسن سلوک کی تعلیم دیتا ہے۔ چاہے وہ مسلم ہو یا غیر مسلم۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
وَإِنْ جَاهَدَاكَ عَلَى أَنْ تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلا تُطِعْهُمَا وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا۔ [سورہ لقمان: 15]
(اگر وہ دونوں تمھیں میرے ساتھ شرک کرنے کا حکم دیں جس کا تمھیں علم نہیں تو ان کی اطاعت نہ کرو، اور دنیاوی معاملات میں ان دونوں کے ساتھ حسن سلوک کرو)
یہاں اللہ رب العزت نے والدین کے غیر مسلم ہونے کے باوجود ان کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہے۔
ایک دوسری آیت میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
لا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ أَن تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ۔ [سورہ الممتحنہ:8]
(جو لوگ تم سے دین کے معاملے میں جنگ نہیں کرتے، اور نہ تمھیں گھروں سے باہر نکالتے ہیں اللہ تعالی تمھیں ان کے ساتھ حسن سلوک اور عدل وانصاف کرنے سے منع نہیں کرتا۔ اللہ تعالی انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے)
امام المفسرین امام طبری رحمہ اللہ اس آیت میں مفسرین کے مختلف اقوال ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
“أَوْلَى الْأَقْوَالِ فِي ذَلِكَ بِالصَّوَابِ قَوْلُ مَنْ قَالَ: عُنِيَ بِذَلِكَ {لَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ} مِنْ جَمِيعِ أَصْنَافِ الْمِلَلِ وَالْأَدْيَانِ أَنْ تَبَرُّوهُمْ وَتَصِلُوهُمْ، وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ، إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ عَمَّ بِقَوْلِهِ: الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ جَمِيعَ مَنْ كَانَ ذَلِكَ صِفَتَهُ، فَلَمْ يُخَصِّصْ بِهِ بَعْضًا دُونَ بَعْضٍ، وَلَا مَعْنَى لِقَوْلِ مَنْ قَالَ: ذَلِكَ مَنْسُوخٌ، لِأَنَّ بِرَّ الْمُؤْمِنِ مِنْ أَهْلِ الْحَرْبِ مِمَّنْ بَيْنَهُ وَبَيْنَهُ قَرَابَةُ نَسَبٍ، أَوْ مِمَّنْ لَا قَرَابَةَ بَيْنَهُ وَبَيْنَهُ وَلَا نَسَبٌ غَيْرُ مُحَرَّمٍ وَلَا مَنْهِيٌّ عَنْهُ إِذَا لَمْ يَكُنْ فِي ذَلِكَ دَلَالَةٌ لَهُ، أَوْ لِأَهْلِ الْحَرْبِ عَلَى عَوْرَةٍ لِأَهْلِ الْإِسْلَامِ، أَوْ تَقْوِيَةٌ لَهُمْ بِكُرَاعٍ أَوْ سِلَاحٍ”. [تفسیر طبری: 22/574]
(اس میں تمام اقوال میں سے سب سے زیادہ صحیح قول یہ ہے کہ تمام ادیان وملل میں سے جو بھی تمھارے ساتھ دین کو لے کر جنگ نہیں کرتے بلکہ اللہ تعالی ان کے ساتھ حسن سلوک، صلہ رحمی اور عدل وانصاف کرنے سے تمھیں منع نہیں کرتا۔ اللہ تعالی کا یہ قول ”جو لوگ تم سے دین کے معاملے میں جنگ نہیں کرتے، اور نہ تمھیں گھروں سے باہر نکالتے ہیں“ ہر اس شخص کو عام ہے جن کی بھی یہ صفت ہو۔ ان میں سے بعض کو چھوڑ کر بعض کو اللہ نے خاص نہیں کیا ہے۔ اسی طرح اس قول کی بھی کوئی اہمیت نہیں جو کہتے ہیں کہ ” یہ منسوخ ہے“، کیونکہ کسی مؤمن کا کسی حربی خاندانی رشتے دار کے ساتھ حسن سلوک کرنا، یا کسی اجنبی حربی کے ساتھ حسن سلوک کرنا نہ حرام ہے اور نہ ممنوع، اگر وہ کسی حربی کو اسلام کےخفیہ امور کا انفارمیشن نہ دے، یا ہتھیار کے ذریعہ تقویت نہ پہنچائے)
ان کے ساتھ حسن سلوک کا تقاضا یہ ہے کہ ان کے ساتھ ایسا تعامل نہ کیا جائے جس سے اسلام اور مسلمانوں کے تئیں ان کے دلوں میں نفرت وعداوت پیدا ہو۔ بلکہ ہمارا تعامل ایسا ہو جس سے وہ اسلام کے قریب آئیں۔ اسی کا ایک مظہر یہ ہے کہ ان کے برتنوں میں نجاست نہ لگی ہو تو استعمال کرنے سے گریز نہ کیا جائے۔ اور اگر انھیں کھانا پیش کرنا ہو تو ان کا برتن الگ نہ کیا جائے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت میں ہمیں کہیں یہ نہیں ملتا کہ آپ نے برتنوں کے معاملہ میں کبھی مسلم وغیر مسلم کے درمیان کوئی تفریق کی ہو۔ جو صحابہ کرام اسلام قبول کرتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم انھیں ہر طرح کی تعلیم دیتے۔ اگر ان نو مسلم صحابہ کرام کے لیے کفار ومشرکین کے برتنوں کا استعمال کرنا نا جائز ہوتا تو ضرور آپ انھیں اس کی تعلیم دیتے، کیونکہ اس کا تعلق عموم بلوی سے تھا۔ تقریبا ہر گھر کا یہ معاملہ تھا کہ صحابہ کرام کے بعض رشتے دار غیر مسلم تھے۔ لیکن ایک بھی ایسا واقعہ نہیں ملتا کہ کسی صحابی نے برتنوں کے معاملے میں اس طرح کی کوئی تفریق کی ہو۔
اس کے بر عکس اس بات کے متعدد شواہد ملتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے غیر مسلموں کا برتن استعمال کیا ہے۔ ذیل میں اس کے چند نمونے پیش کیے جا رہے ہیں:
(1) آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ ایک سفر میں تھے۔ راستے میں پانی ختم ہوگیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دو ساتھیوں کو کہا کہ جاؤ پانی تلاش کرو، ان میں سے ایک علی رضی اللہ عنہ تھے۔ یہ دونوں نکلے۔ راستہ میں ایک عورت ملی جو پانی کے دو مشکیزے اپنے اونٹ پر لٹکائے ہوئے بیچ میں سوار ہو کر جا رہی تھی۔ انھوں نے اس سے پوچھا کہ پانی کہاں ملتا ہے؟ اس نے جواب دیا کہ کل اسی وقت میں پانی پر موجود تھی۔ (یعنی پانی اتنی دور ہے کہ کل میں اسی وقت وہاں سے پانی لے کر چلی تھی، آج یہاں پہنچی ہوں) اور ہمارے قبیلہ کے مرد لوگ پیچھے رہ گئے ہیں۔ انھوں نے اس سے کہا: اچھا ہمارے ساتھ چلو۔ اس نے پوچھا: کہاں؟ انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں۔ اس نے کہا: اچھا وہی جن کو لوگ صابی کہتے ہیں۔ انھوں نے کہا: ہاں یہ وہی ہیں، جو تم کہہ رہی ہو، اچھا اب چلو۔ آخر یہ دونوں حضرات اس عورت کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے کر حاضر ہوئے، اور سارا واقعہ بیان کیا۔ لوگوں نے اسے اونٹ سے اتارا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک برتن طلب فرمایا۔ اور دونوں مشکیزوں کے منہ اس برتن میں کھول دیے۔ پھر ان کا اوپر کا منہ بند کر دیا۔ اس کے بعد نیچے کا منہ کھول دیا اور تمام لشکریوں میں منادی کر دی گئی کہ خود بھی سیر ہو کر پانی پئیں اور دوسروں کو بھی پلائیں۔ پس جس نے چاہا پانی پیا اور پلایا، یہاں تک کہ سب سیر ہوگئے۔ آخر میں اس شخص کو بھی ایک برتن میں پانی دیا جسے غسل کی ضرورت تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لے جا اور غسل کر لے۔ وہ عورت کھڑی دیکھ رہی تھی کہ اس کے پانی سے کیا کیا کام لیے جا رہے ہیں۔ اللہ کی قسم! جب ان مشکیزوں سے پانی لیا جانا بند ہوا، تو ہمیں لگ رہا تھا کہ اب مشکیزوں میں پانی پہلے سے بھی زیادہ موجود ہے۔
یہ روایت بہت طویل ہے۔ آگے اس روایت میں ہے کہ وہ عورت اور اس کا قبیلہ بعد میں مسلمان ہو گیا تھا۔ (متفق علیہ: صحیح بخاری، حدیث نمبر 344، وصحیح مسلم، حدیث نمبر 682)
(2) جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
“كُنَّا نَغْزُو مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَنُصِيبُ مِنْ آنِيَةِ الْمُشْرِكِينَ وَأَسْقِيَتِهِمْ، فَنَسْتَمْتِعُ بِهَا، فَلَا يُعَابُ عَلَيْنَا”۔ [مسند احمد: 23/292، حدیث نمبر 15053]
(ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ میں شریک ہوتے، جہاں مال غنیمت کے طور پر مشرکین کے برتن اور مشکیزے پاتے، تو ان سے ہم فائدہ اٹھاتے، اور ہم پر کوئی نکیر نہیں کی جاتی)
علامہ البانی رحمہ اللہ نے ”ارواء الغلیل“ (1/76) میں اس کی سند کو حسن کہا ہے۔
(3) عبد اللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
“أَصَبْتُ جِرَابًا مِنْ شَحْمٍ يَوْمَ خَيْبَرَ، قَالَ: فَالْتَزَمْتُهُ، فَقُلْتُ: لَا أُعْطِي الْيَوْمَ أَحَدًا مِنْ هَذَا شَيْئًا، قَالَ: فَالْتَفَتُّ، فَإِذَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَبَسِّمًا”۔ [صحيح مسلم: 3/1393، حدیث نمبر 1772]
(میں نے خیبر کے دن چمڑے کی ایک تھیلی میں چربی پایا، تو اسے اپنے پاس رکھ لیا، اور کہا کہ آج کسی کو اس سے حصہ نہیں دوں گا، جب میں پیچھے مڑا تو دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا رہے تھے)
اس میں محل شاہد چمڑے کی تھیلی جس میں چربی تھی اسے عبد اللہ بن مغفل کا لینا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انھیں منع نہ کرنا ہے۔ اگر یہود کے برتنوں کا استعمال ناجائز ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم انھیں منع فرماتے، یا کم از کم چربی پھینک دینے اور تھیلی کو دھو کر استعمال کرنے کے لیے کہتے۔ لیکن آپ نے ایسا کچھ نہیں فرمایا جو اس بات کی دلیل ہے کہ یہود کے برتنوں کو استعمال کرنا جائز ہے۔
(4) صحیح بخاری (حدیث نمبر3169) میں ہے:
جب خیبر فتح ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کھانے کے لیے ایک بکری پیش کی گئی جو زہر آلود تھی۔
دیگر کتب حدیث میں اس کی مزید تفصیلات وارد ہیں لیکن اسنادی اعتبار سے ان میں سے بعض پر کلام ہے۔ سنن ابی داود(حدیث نمبر 4511) میں ہے کہ آپ کے ساتھی بشر بن براء بن معرور رضی اللہ عنہ کی اس زہر آلود بکری کو کھانے کی وجہ سے وفات بھی ہو گئی تھی۔ شیخ شعیب ارنؤوط نے اس روایت کو ثابت مانا ہے، اور اسے صحیح لغیرہ قرار دیا ہے۔ [سنن ابی داود، بتحقیق الشیخ شعیب ارنؤوط: 6/565-568]
اس میں محل شاہد آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں کا یہود کے برتنوں کو استعمال کرنے سے پرہیز نہ کرنا ہے۔ ظاہر سی بات ہے ایک بکری کو کھانے کے لائق تیار کرنے، اور اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کرنے کے لیے برتن کا استعمال کرنا ناگزیر ہے۔ اگر یہود کے برتنوں کو استعمال کرنا نا جائز ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے بشر بن براء رضی اللہ عنہ کو ضرور روکتے۔ اور اس مسئلہ کی ضرور وضاحت فرماتے۔
کتب الفقہ میں علما نے اس مسئلہ کو بیان کیا ہے، اور اس میں علما کا اختلاف بھی نقل کیا ہے۔ بعض علما نے جہاں کفار ومشرکین کے برتنوں کے استعمال کو جائز کہا ہے، وہیں بعض نے مکروہ تو بعض نے حرام بھی کہا ہے۔ [دیکھیں: البحر الرائق لابن نجیم(8/232)، والمبسوط للسرخسی (1/97)، والکافی فی فقہ اہل المدینہ لابن عبد البر (ص187)، والتاج والاکلیل للمواق المالکی(1/121)، والمجموع للنووی (1/319)، والمغنی لابن قدامہ (1/62)، والانصاف للمرداوی (1/85)]
جنھوں نے بھی حرام یا مکروہ کہا ہے ان کی سب سے بڑی دو دلیلیں نظر آتی ہیں:
پہلی دلیل:
صحیح بخاری (حدیث نمبر 5478) میں ابو ثعلبہ الخشنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں: میں نے کہا: اے اللہ کے نبی ہم اہل کتاب کے ساتھ رہتے ہیں، کیا ہم ان کے برتنوں میں کھا سکتے ہیں؟ آپ نے اس سوال کے جواب میں انھیں فرمایا: اگر تم ان کے برتنوں کے علاوہ کوئی دوسرا برتن پا لو تو ان کے برتنوں میں نہ کھاؤ، لیکن اگر کوئی دوسرا برتن نہ ملے تو انھیں دُھل لو، پھر ان میں کھاؤ۔
اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے بعض علما فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل کتاب کے برتنوں میں کھانے سے منع فرمایا ہے۔ صرف مجبوری کی صورت میں دھو کر کھانے کی اجازت دی ہے۔ اس لیے ان کے برتنوں میں کھانا پینا جائز نہیں۔
لیکن ان کا یہ استدلال صحیح نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ صحیحین میں یہ حدیث مختصرا مروی ہے، جب کہ سنن ابی داود (حدیث نمبر3839)، مسند الشامیین للطبرانی (حدیث نمبر 783)، المعجم الکبیر للطبرانی (22/223)، السنن الکبری للبیہقی (حدیث نمبر 134) وغیرہ میں یہی حدیث صحیح سند سے تفصیل کے ساتھ وارد ہے۔ ان میں اس کے الفاظ اس طرح ہیں: “إنا نُجَاوِرُ أهْلَ الكتابِ وهم يَطبُخُونَ في قُدورهم الخنزير ويَشرَبونَ في آنيتِهم الخمرَ”۔ (ہم اہل کتاب کے ساتھ رہتے ہیں، وہ اپنی ہانڈیوں میں سور کا گوشت پکاتے ہیں، اور اپنے برتنوں میں شراب پیتے ہیں)
جس کے جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم ان کے برتنوں کے علاوہ کوئی دوسرا برتن پا لو تو ان برتنوں میں کھاؤ پیو، لیکن اگر کوئی دوسرا برتن نہ ملے تو انھیں پانی سے دھل لو، پھر ان میں کھاؤ پیو“۔
یعنی یہاں ان کے برتنوں سے منع کرنے کی اصل وجہ ان کا اہل کتاب ہونا نہیں تھا، بلکہ ان برتنوں میں سور کا گوشت پکانے، اور شراب پینے کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان برتنوں سے دور رہنے کا حکم دیا۔ اس لیے یہ علت اگر –نعوذ باللہ- کسی مسلمان کے برتن میں بھی پائی جائے تو اس کا یہی حکم ہے۔ اور اگر غیر مسلموں کے برتن میں نہ پائی جائے تو اس کا یہ حکم نہیں ہے۔
دوسری دلیل:
غیر مسلمین حرام اور نجس چیزوں کے استعمال سے پرہیز نہیں کرتے۔ وہ اپنے برتنوں میں سور، کتے اور دیگر حرام جانوروں کا گوشت پکاتے ہیں، اسی طرح شراب اور دیگر نجس چیزیں کھاتے پیتے ہیں۔ لہذا ان کے برتنوں کا استعمال کرنا حرام یا علی الاقل مکروہ ہے۔
حرام اور مکروہ کہنے والوں کی یہ بات کچھ حد تک قابل قبول ہے کہ وہ ان برتنوں کا استعمال نجس یا حرام چیزوں میں کرتے ہیں۔ لیکن اگر غور کریں تو واضح ہوگا کہ یہاں حرام یا مکروہ کہنے کی وجہ ان کا غیر مسلم ہونا نہیں، بلکہ ان برتنوں کو حرام اور نجس چیزوں میں استعمال کرنا ہے۔ لہذا اگر یہ علت کہیں پائی جائے تو ضرور ان کی بات قابل قبول ہے۔ لیکن اگر یہ علت موجود نہ ہو تو محض ان کے غیر مسلم ہونے کی وجہ سے ان کے برتنوں کے استعمال کو حرام یا نا جائز نہیں کہا جا سکتا۔
بلکہ اگر یہ علت کسی مسلمان کے یہاں بھی پائی جائے تو اس کا بھی عین یہی حکم ہے۔
پس پتہ چلا کہ یہاں پر برتنوں کے استعمال میں تفریق کی وجہ استعمال کرنے والے کا مسلمان اور غیر مسلم ہونا نہیں، بلکہ ان برتنوں میں حرام اور نجس چیزوں کا استعمال کرنا اور نہ کرنا ہے۔
برتنوں کا “اصل حکم” ان کا مباح ہونا ہے، چاہے ان کا مالک مسلمان ہو یا غیر مسلم۔ اس لیے جب تک ان کے نجس ہونے کا علم نہ ہو، یا قرائن ان کے نجس ہونے کی طرف اشارہ نہ کرتے ہوں ان کے استعمال میں کوئی حرج نہیں۔ نیز ہمیں اس بات کا بھی مکلف نہیں بنایا گیا ہے کہ ہم پہلے جانچ پڑتال کریں کہ وہ نجس ہے یا نہیں، اس میں شراب یا کوئی دوسری حرام چیز پی گئی ہے یا نہیں۔ بلکہ اصل ان کا مباح اور طاہر ہونا ہی ہے، جب تک نجس ہونے کا علم نہ ہو یا قرائن اس بات کی طرف غماز نہ ہوں کہ وہ نجس ہیں۔ استاد محترم شیخ سلیمان الرحیلی حفظہ اللہ نے مسجد نبوی میں ”دلیل لطالب“ کی شرح میں اس چیز کو خوب اچھی طرح واضح کرکے بیان کیا ہے جسے اس لنک سے سنا جا سکتا ہے:
ہندوستان جیسے کثیر المذاہب ملک میں جہاں کی اکثریت غیر مسلموں کی ہے وہاں چائے کی دکانوں یا دیگر کھانے پینے کے ہوٹلوں میں غیر مسلموں کے برتنوں کا استعمال کرنا، یا غیر مسلموں کی فیکٹریوں میں ان کے برتنوں سے تیار شدہ مختلف طرح کے کھانے کے پیکٹوں کا بازار سے خریدنا روز مرہ کا مسئلہ ہے۔ اگر اسے مسلمانوں کے لیے ناجائز کہا جائے تو جہاں انھیں انتہائی حرج میں مبتلا کرنا ہوگا، وہیں غیر مسلموں کو اپنے اخلاق وکردار سے اسلام اور مسلمانوں سے متنفر کرنا بھی ہوگا۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہم انھیں اسلام سے دور نہ کریں۔ ان کے صاف ستھرے برتنوں کو خود استعمال کریں، اور جب وہ ہمارے درمیان ہوں تو کھانے پینے کے لیے انھیں بھی اپنا برتن پیش کریں۔
اللہ ہمیں اسلام کی صحیح سمجھ عطا فرمائے، اور اس پر عمل کرنے کی بھی توفیق عطا فرمائے۔
✍ فاروق عبداللہ نراین پوری
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں