اکیسویں صدی عیسوی کے ٹیکنالوجی انقلاب نے دنیا پر بہت سے اثرات مرتب کئے، ان مثبت و منفی اثرات سے روئے زمین کی آبادی کا ایک بہت بڑا طبقہ متاثر ہوا، سیاسی، سماجی، اصلاحی، اقتصادی اور معاشی سطح کے ہر ایک شعبہ پر یہ اثرات اس قدر ھمہ گیر ہیں کہ کوئی بھی شخص اس سے مستثنی و بے نیاز نہیں ہے، ٹیکنالوجی کے اس عظیم انقلاب کا ایک بڑا پہلو سوشل میڈیا ہے، راقم نے اسی موضوع پر چند سطور لکھنے کی ھمت کی ہے۔
سوشل میڈیا کیا ہے؟
سوشل میڈیا انٹرنیٹ سے منسلک ایک ایسا نیٹ ورک ہے جو افراد کو اور ساتھ ہی اداروں کو ایک دوسرے کے ساتھ رابطہ کرنے، فکر و خیالات کا تبادلہ کرنے،اپنے پیغامات کی تبلیغ و ترسیل کرنے نیز اس کے علاوہ انٹرنیٹ کی اور بھی دیگر چیزیں ( جیسے گرافکس، ویڈیوز، آڈیوز، پوسٹرس، اور مختلف قسم کی چیزیں وغیرہ) کو ایک دوسرے کے ساتھ شئیر کرنے کا بہترین موقع فراہم کرتا ہے، سوشل میڈیا میں جس ویب سائٹ کا زیادہ تر لوگ استعمال کرتے ہیں وہ ٹیلی ویژن، یوٹیوب، فیس بک، ٹویٹر، گوگل پلس، واٹس ایپ، ٹیلی گرام،اور انسٹاگرام وغیرہ ہیں، ان سوشل ویب سائٹس کی بدولت دور دور تک کا فاصلہ بالکل سمٹ کر رہ گیا، ہزاروں اور لاکھوں میل دور سے انسان اپنے عزیز و اقارب، دوست و احباب، رفقاء و رشتہ دار اور اسی طرح دیگر حضرات سے رابطہ قائم کر سکتا ہے، ٹیکنالوجی اور ذرائع ابلاغ کی اس ترقی کو دیکھ کر ہی دور جدید کے الیکٹرانک مسیحا مارشل میکلوھان نے آج کی دنیا کو گلوبل ویلیج ( یعنی عالمی گاؤں) کے نام سے موسوم کیا ہے۔
ٹیکنالوجی کے اس انقلاب نے ترقی کے راستے پر اتنی طویل اور اونچی چھلانگ لگائی ہے کہ انسانی جذبات و احساسات اور خیالات کو بھی اس نے متاثر کرنا شروع کر دیا ہے، اس صدی کے آغاز میں کتب و جرائد کی طباعت اور نشر واشاعت کی وجہ سے کتابوں اور مراجع و مصادر کی جو اہمیت تھی سوشل میڈیا کی وجہ سے انسانی زندگی سے وہ اہمیت ختم ہو کر رہ گئی، علمی اور تحقیقی معلومات کے قابل اعتماد سرچشموں کی طرف رجوع کرنے اور براہ راست ان سے استفادہ کرنے کے بجائے لوگ میڈیا کے ذریعہ پیش کی جانے والی معمولی اور ہلکی پھلکی معلومات پر زیادہ اعتماد اور بھروسہ کرنے لگے ہیں ۔
سوشل میڈیا کی اہمیت و فوائد
موجودہ ترقی یافتہ دور میں سوشل میڈیا کی اہمیت مُسَلَّم ہے جس نے اس وسیع روئے زمین کو گلوبل ویلیج میں بدل کر رکھ دیا اور پوری دنیا کا فاصلہ صرف ایک کلک کے درمیان سمٹ کر رہ گیا، بس ایک کلک سے کسی بھی طرح کی علمی، دینی، ثقافتی، تہذیبی، تربیتی، سماجی، سیاسی اور اقتصادی معلومات حاصل کی جا سکتی ہے، سوشل میڈیا نے پوری دنیا کے انسانوں کے درمیان سے رنگ و نسل، دین و مذہب اور اونچ نیچ کے تفاوت کو نیست و نابود کرکے سب کو ایک ہی ڈرائنگ روم میں جمع کر دیا، اس کے ذریعہ ہر شخص ایک دوسرے سے متعارف ہو کر تبادلہ خیال اور تبلیغی کام انجام دے سکتا ہے نیز اس کے اور بھی بے شمار فوائد ہیں جن میں سب سے اہم اور عظیم فائدہ یہ ہے کہ اللہ عزوجل کا فرمان { أُدْعُ إِلٰى سَبِيْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِيْ هِيَ أَحْسَنْ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِيْلِه وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِيْنَ} [ النحل: ١٢٥] اسی طرح { وَلْتَكُنْ مِّنْكُمْ أُمَّةُ يَّدْعُوْنَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَاُولٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ} [ اٰل عمران: ١٠٤] کے مطابق دین اسلام کی تبلیغ وترسیل کا فریضہ ( جو کہ تمام مسلمانوں کے لئے ایک عظیم اور اہم فریضہ ہے) سوشل میڈیا کی مدد سے دنیا کے کسی بھی گوشے میں بیٹھ کر اور کسی بھی طرح کے بودوباش اختیار کئے ہوئے شخص تک اسلام کا پیغام پہنچا کر انتہائی آسانی کے ساتھ انجام دے سکتے ہیں، نیز جو لوگ مذہب اسلام سے اس قدر متنفر ہیں کہ اسلام کے متعلق کچھ سننا بھی گوارا نہیں کرتے اور نہ ہی کسی مسلمان کا سامنا کرنا پسند کرتے ہیں، انہیں بھی ان جدید ذرائع ابلاغ کے ذریعہ دین اسلام کی طرف دعوت دے کر دائرہ اسلام میں داخل کر سکتے ہیں۔
اسی طرح دشمنان اسلام کی جانب سے مذہب اسلام کے خلاف جو ریشہ دوانیاں اور زہرافشانیاں کی جا رہی ہیں، ان ذرائع ابلاغ کا استعمال کرکے مذہب اسلام کا دفاع کرتے ہوئے دشمنان اسلام کا منہ توڑ جواب دے سکتے ہیں اور عوامی اعداءِ اسلام کی جانب سے جو بد گمانیاں اور غلط فہمیاں پیدا ہوئی ہیں ان کو دور کر سکتے ہیں نیز اللہ رب العالمین کا فرمان { الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر} کے تحت نیکی کے فروغ اور معصیت پر روک کے لئے ان ذرائع کا استعمال کر کے ہم اللہ عزوجل کی قربت اور اجر عظیم کے حقدار بن سکتے ہیں،
الحمدللہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ آج بہت سے لوگ فیس بک اور واٹس ایپ کے ذریعہ علمائے کرام اور داعیان اسلام کی تعلیمات کو بڑی تیز رفتاری کے ساتھ نشر و اشاعت کر رہے ہیں نیز لوگوں کی ذہن سازی اور معاشرہ میں پھیلی ہوئی بدعات و سیئات پر قدغن لگانے کا کام انجام دے رہے ہیں۔
سوشل میڈیا کے نقصانات
سوشل میڈیا کے استعمال میں جہاں ہمارے لئے بے شمار فوائد مضمر ہے وہیں اس کے نقصانات بھی کچھ کم نہیں، جہاں اس کا استعمال خیر و بھلائی کے لئے کیا جاتا ہے وہیں اس کا استعمال شر و برائی کے لئے بھی کیا جارہا ہے اور نوجوان نسل کی فکر و نظر، سوچ اور ذہن کو اس کے ذریعہ مغربی تہذیب و ثقافت میں مسخر کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے آج معاشرے میں فحاشی و عریانیت اور رقص و سرور بالکل عام ہو چکی ہے، ہمارا مسلم معاشرہ بے شمار ذنوب ومعصیت میں غرق ہوتا چلا جا رہا ہے اور ہماری تہذیبی و ثقافتی روایات دم توڑ چکی ہے ۔
آج بالخصوص ہماری نوجوان نسل کی ایک بڑی تعداد سوشل میڈیا کا استعمال غلط مقاصد کے لئےکر رہی ہے، ہمارے معاشرے کے وہ بچے جن کو کتب خانوں اور لائبریریوں میں ہونا چاہیے وہ موبائل فون ہاتھوں میں لئے گلی کوچوں کی زینت بنے پھر رہے ہیں، موبائل اور انٹرنیٹ کے زیادہ استعمال اور تعلیم پر کم توجہ نیز اسلامی تعلیمات سے کنارہ کشی کی وجہ سے ہمارے سوسائٹی میں مختلف قسم کے ناقابل ذکر اور حرام و ناجائز واقعات سامنے آتے رہتے ہیں اور روز بروز ان میں اضافہ بھی ہو رہا ہے ۔
خلاصۂ کلام
آج کی ٹیکنالوجی انقلاب اور سوشل میڈیا نے انسان کی ترقی کے منازل کو تو آسان ضرور کر دیا اور انسانی زندگی میں اس کے فوائد بھی کچھ کم نہیں، مگر انسان کی منفی سوچ، انداز فکر اور ان ذرائع کا غلط استعمال کی وجہ سے سماج و معاشرہ بڑی تیزی کے ساتھ تباہی اور ہلاکت خیزی کی طرف بڑھ رہا ہے اور ہمارا سماجی، معاشرتی اور دینی اقتدار آہستہ آہستہ ختم ہوتا جا رہا ہے، اگر کہا جائے تو معاشرہ وسماج موت و حیات کی کشمکش سے دوچار ہے
اس بگاڑ کا سبب کوئی اور نہیں خود انسان ہی ہے اس لئے کہ سوشل میڈیا کے دو پہلو ہیں مثبت اور منفی جو شخص اس کا استعمال مثبت طریقے سے صرف اس کے فوائد کو مدنظر رکھتے ہوئے سیئات اور گناہوں سے بچتے ہوئے نیک اور بہترین مقصد کے لئے کرے گا تو اللہ رب العالمین اس کے اس عمل خیر کی بدولت اسے اجر عظیم سے نوازے گا، سوشل میڈیا کا استعمال مطلق طور پر برا اور نقصان دہ ہرگز نہیں اگر ہم اسے برے استعمال میں نہ لائیں .
🖋
راضی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں