دیوالی کی مٹھائی
سوال: کیا دیوالی کی مبارک باد دینا اور اس کی مٹھائیاں کھانا صحیح ہے ؟
جواب : اگر دیوالی منانا صحیح ہے تو اس کی مبارک باد دینا بھی صحیح ہے اور اس کی مٹھائیاں کھانا بھی درست اور اگر منانا ہی غلط ہے تو غلط کام پر مبارک باد دینا اور مٹھائیاں کھانا صحیح کیسے ہوسکتا ہے ؟
ایک بندہ شرک کررہا ہے ۔ آپ کی ذمہ داری ہے کہ اس کو اس کے شرک سے روکیں. آپ بجائے روکنے کے الٹا مبارک باد دے رہے ہیں اور خوشی میں مٹھائیاں کھارہے ۔ یہ کیا بات ہوئی؟
ذرا غور کریں یہود تو اہل کتاب میں سے تھے ۔ دو تین نبیوں کو چھوڑ کر وہ ان سارے انبیاء کو ماننے والے تھے جن کو مسلمان مانتے تھے ۔ دوسرے مشرکین کی بنسبت مسلمانوں سے ان کی قربت ایک درجہ زیادہ تھی۔ پھر وہ عاشورہ کا روزہ بھی کوئی دیوی دیوتاؤں سے کی عبادت یا عقیدت کی وجہ سے نہیں رکھتے تھے ۔ ان کا روزہ ایک نبی کی فتح اور طاغوت کی شکست پر اللہ کے لیے شکرانہ تھا۔ مسلمانوں کے لیے یہود سے "بھائی چارگی " "محبت" " تالیف قلب" اور "تقارب" کے لیے اس بہتر موقع کیا ہوسکتا تھا۔ لیکن شریعت نے یہاں اس "نیکی" میں بھی یہود سے مسلمانوں کی مشابہت قبول نہیں کی ۔ قوم رسول ہاشمی کی ترکیب خاص کی حدیں ہمیشہ کفار سے ، ان کے "کفر" سے ،ان کی "تہذیب" ، "ثقافت" اور ان کی "عیدوں" اور "تہواروں" سے صاف صاف الگ ہونی چاہیے ۔ تو حکم دیا گیا کہ اس امر میں یہود سے مشابہت نہیں ہونی چاہیے اس لیے ایک دن پہلے بھی روزہ رکھو کہ ان کہ مخالفت ہو۔
اب آئیے دیوالی کی طرف!!!
دیوالی کیا ہے؟ ایک ایسی مشرک قوم کا تہوار جس کے معبودوں کی گنتی شمار سے باہر ہے ۔
منائی کس لیے جاتی ہے یہ دیوالی ؟ لکشمی دیوی کی تعظیم اور عبادت میں جو ان کفّار کے عقیدہ کے مطابق مالداری اور خوشحالی بانٹنے والی دیوی ہے ۔ دیوالی میں ہوتا کیا ہے؟ لکشمی کی پوچا ۔ یعنی اللہ کے ساتھ کھلم کھلا کا شرک۔ ربوبیت کا بھی الوہیت کا بھی۔
اب شرک کے مقابلہ میں مسلمان کا ردّ عمل کیا ہونا چاہیے؟
پہلا ردّ عمل تو یہ ہونا چاہیے کہ اللہ نے طاقت دی ہو تو اس شرک کو اس کی بنیادوں سے اکھاڑ کر پھینک دو۔ لیکن وہ ہم کرنہیں سکتے کیونکہ موجودہ صورت حال میں اس کی نہ گنجائش ہے نہ اجازت۔ اس کے بعد "دوسرا مرحلہ" ہے کہ زبان سے اس کا ردّ کرو اور حجّت قائم کردو۔ وہ بھی نہیں کرسکتے تو کم سے کم دل میں اس عمل سے گھن کھاؤ ، برا جانوں اور تکلیف محسوس کرو۔ یہ ایمان کا آخری درجہ ہے ۔
اب جب اس شرک کی خوشی میں بنٹنے والی مٹھائی چٹخارے لے لے کر کھائیں گے تو یہ ایمان کا آخری درجہ بھی بچا؟
مالکم کیف تحکمون!
مغلوب قوم کے تحفّظات
ایک بات یہ بھی یاد رکھیں! مغلوب قوموں کے احکام غالب قوموں سے بہت مختلف ہوتے ہیں ۔اس وقت مسلمانوں کو اگر دنیا کے کسی مذہب سے خطرہ ہے تو اسی الحادی سیکولرازم سے ہے ۔
اپنے اردگرد نظر دوڑائیں اور دیکھیں۔ مسئلہ محض " مٹھائیوں" کا نہیں رہ گیا۔ بات دیوالی منانے اور گنپتی بٹھانے تک پہنچ گئی ہے ۔
اس کھلے شرک اور کفر تک پہنچنے کے راستے اسی "مٹھائی" سے کھلتے ہیں ۔ لہذا ضروری ہے کہ یہ "پہلا دروازہ" ہی بند کردیا جائے ۔ لہذا سدّ ذریعہ بھی ایک بڑی وجہ ان "تحائف" کی حرمت کی ہیں ۔
"خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی"
تہوار کسی بھی ملّت کی ثقافت و تہذیب کے نمائندہ اور اس کی اقدار اور روایات کے ترجمان اور اس قوم کا شعار ہوتے ہیں ۔ اسلام کیونکہ ایک مستقل دین ہے لہذا اس کی اپنے تہوار ہیں ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلّم کی بعثت کے بعد جب اسلام نے جاہلیت کو ختم کیا تو اس کے تہواروں پر بھی خط تنسیخ کھینچ دی ۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ دورِ جاہلیت میں مدینہ کے لوگ سال میں دو تہوار منایا کرتے تھے۔جب آنحضرت ﷺ مدینہ تشریف لائے تو (صحابہ کرام سے) فرمایا: (وقد أبدلکم الله بهما خيرا منهما: يوم الفطر و يوم الأضحی) (صحیح سنن نسائی؛ ۱۴۶۵)
”اللہ تعالیٰ نے تمہیں ان دونوں تہواروں کے بدلہ میں دو اور تہوار عطاکردیئے ہیں جو ان سے بہتر ہیں اور وہ ہیں: عیدالفطر اور عیدالاضحی۔“
اسلام کا مزاج اس بات کو قبول ہی نہیں کرتا کہ اس کے ماننے والے کسی دوسری قوم کے ساتھ ان کے تہواروں میں کسی بھی طور پر شریک ہوں. کفّار کے ان تہواروں میں کسی بھی طرح کی شرکت ان کی مشابہت ہے جس سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلّم نے سختی سے منع فرمایا ہے. ارشاد ہے: " جس نے بھى كسى قوم سے مشابہت اختيار كى وہ انہي ميں سے ہے "
(سنن ابو داود كتاب اللباس حديث نمبر ( 3512 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود حديث نمبر ( 3401 ) ميں اسے حسن صحيح قرار ديا ہے.)
سعودی عرب کی دائمی فتویٰ کمیٹی کا فتویٰ
ہندؤوں کے تہوار کے موقع پر دکان سے خرید کردی جانے والی مٹھائیوں کا حکم
سوال : ہندستان میں ہندؤں ( بت پرستوں) کے بہت سارے تہوار ہوتے ہیں ۔ جن میں وہ اپنے پڑوس میں مٹھائیاں تقسیم کرتے ہیں جیسے ہمارے یہاں عیدالفطر میں تقسیم کی جاتی ہیں ۔ اس مسئلہ میں وہاں اختلاف ہے ۔ بعض حضرات اس کو حلال بتاتے ہیں کیونکہ وہ ذبیحہ نہیں ہے ۔ اور بعض حضرات اسے حرام قرار دیتے ہیں کیونکہ یہ غیراللہ کے نام کا ہے ۔ یہ واضح رہے کہ یہ مٹھائیاں گھر میں نہیں بنائی جاتی بلکہ دکان سے خرید کر دی جاتی ہیں ۔ اس مسئلہ میں شرعی حکم کیا ہے بتائیں !
جواب :بت پرست اور دیگر کفّار اپنے تہواروں میں دینی مناسبت سے جو تحفے دیتے ہیں ان کا قبول کرنا اور ان سے فائدہ اٹھانا جائز نہیں ہے ۔ کیونکہ *ان تحفوں کے قبول کرنے کا مطلب ان کے باطل کو تسلیم کرلینا اور ان کے اعمال سے راضی ہوجانا ہے۔
لہذا مسلمان کو ان سے بچنا چاہیے اور اپنے دین کے معاملہ میں محتاط رہنا چاہیے ۔
اللہ ہی توفیق دینے والا ہے ۔ درود ہو ہمارے نبی محمّد صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلّم
اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والافتاء فتویٰ نمبر: 20400
الرئیس: عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز
نائب الرئیس :عبدالعزیز آل الشیخ
عضو :عبداللہ بن الغدیان ، عضو : صالح الفوزان عضو :بکر ابوزید
بعض آثار کی تحقیق
کفّار کے تہوار کے مواقع پر ان کے تحائف قبول کرنے سے متعلق صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ملنے والی بعض روایات سے ان تحائف کے قبول کرنے کے جواز پر استدلال کیا جاتا ہے. اس حوالہ سے جو بھی روایات صحابہ سے ملتی ہیں ان میں سے کوئی بھی صحیح سند سے ثابت نہیں ہے. ان آثار کی تحقیق محترم دوست فاضل محقق *شیخ کفایت اللہ سنابلی کے قلم سے ملاحظہ فرمائیں:
(۱)اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کا اثر :
امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى235)نے کہا:
حدثنا جرير ، عن قابوس ، عن أبيه ؛ أن امرأة سألت عائشة قالت : إن لنا أظآرا من المجوس ، وإنه يكون لهم العيد فيهدون لنا ؟ فقالت : أما ما ذبح لذلك اليوم فلا تأكلوا ، ولكن كلوا من أشجارهم
قابوس بن ابی ظبیان اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ ایک عورت نے اماں عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھتے ہوئے کہا: ہماری کچھ مجوسی پڑوسن ہیں ، اوران کے تیوہار کے دن ہوتے ہیں جن میں وہ ہمیں ہدیہ دیتے ہیں ، اس کا کیا حکم ہے؟ تو اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا: اس دن جو چیز ذبح کی جائے اسے نہ کھاؤ ، لیکن ان کی طرف سے سزی اور پھل کی شکل میں جو ملے اسے کھالو۔[مصنف ابن أبي شيبة. سلفية: 8/ 87]
یہ روایت ضعیف ہے اس کی سند میں موجود ”قابوس بن أبي ظبيان الجنبي“ضعیف راوی ہے۔
امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241)نے کہا:
ليس هو بذاك وقال سئل جرير عن شيء من أحاديث قابوس فقال نفق قابوس نفق[العلل ومعرفة الرجال لأحمد، ت وصي: 1/ 389]
امام أبو حاتم الرازي رحمه الله (المتوفى277)نے کہا:
ضعيف الحَديث لين، يكتب حَديثه، ولا يحتج به[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم، ت المعلمي: 7/ 145]
امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354)نے کہا:
كان رديء الحفظ يتفرد عن أبيه بما لا أصل له [المجروحين لابن حبان: 2/ 216]
امام دارقطني رحمه الله (المتوفى385)نے کہا:
ضعيف، ولكن لا يترك[سؤالات البرقاني للدارقطني، ت الأزهري: ص: 121]
بعض ائمہ نے اس کی توثیق کی ہے لیکن اس کی تضعیف ہی راجح ہے ۔
نیزاس اثر کے راوی جریربن عبدالحمید کہتے ہیں:
أتينا قابوس بعد فساده[التاريخ الكبير للبخاري: 7/ 193 واسنادہ صحیح]
اس سے معلوم ہواکہ جریر نے جس حالت میں اس سے روایت لی ہے اس حالت میں یہ ضعیف تھے ۔
لہٰذا یہ اثر ہر حال میں ضعیف وغیرمقبول ہے۔
(۲) ابوبرزہ رضی اللہ عنہ کا اثر:
امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى235)نے کہا:
حدثنا وكيع ، عن الحسن بن حكيم ، عن أمه ، عن أبي برزة ؛ أنه كان له سكان مجوس ، فكانوا يهدون له في النيروز والمهرجان ، فكان يقول لأهله : ما كان من فاكهة فكلوه ، وما كان من غير ذلك فردوه
ابوبرزہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ان کے کچھ مجوسی پڑوسی تھے جو انہیں نیروز اور مہرجان کے تیوہاروں میں ہدیہ دیتے تھے ، تو آپ اپنے گھروالوں سے کہتے تھے کہ : میوے کی شکل میں جوچیز ہو اسے کھالو اور اس کے علاوہ جو ہو اسے لوٹادو[مصنف ابن أبي شيبة. سلفية: 8/ 88]
یہ روایت بھی ضعیف ہے کیونکہ ”الحسن بن حکیم“ کی ”والدہ“ کا تعارف اور ان کی توثیق کہیں نہیں ملتی لہذا یہ مجہولہ ہیں۔
(۳) علی رضی اللہ عنہ کا اثر:
امام بيهقي رحمه الله (المتوفى458)نے کہا:
أخبرنا أبو عبد الله الحافظ، ثنا أبو العباس محمد بن يعقوب , ثنا الحسن بن علي بن عفان، ثنا أبو أسامة، عن حماد بن زيد، عن هشام، عن محمد بن سيرين، قال: أتي علي رضي الله عنه بهدية النيروز فقال: ما هذه؟ قالوا: يا أمير المؤمنين هذا يوم النيروز , قال: فاصنعوا كل يوم فيروز. قال أبو أسامة: كره أن يقول نيروز. قال الشيخ: وفي هذا كالكراهة لتخصيص يوم بذلك لم يجعله الشرع مخصوصا به
محمدبن سیرین کہتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ کے پاس نیروز کا ہدیہ لایا گیا تو آپ نے کہا: یہ کیا ہے ؟ لوگوں نے کہا: اے امیر المؤمنین! یہ نیروز کا دن ہے ۔ علی رضی اللہ عنہ نے کہا: تو پھر ہردن ”فیروز“ مناؤ ۔ راوی ابواسامہ کہتے ہیں کہ : علی رضی اللہ عنہ نے اس بات کو ناپسند کیا کہ ”نیزوز“ کہیں ۔ امام بیہقی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اس میں گویا کہ کراہت ہے کہ کسی ایک دن کو اس کام کے لئے مخصوص کرلیا جائے جسے شریعت نے مخصوص نہیں کیا ہے۔[السنن الكبرى للبيهقي: 9/ 392]
یہ روایت بھی ضعیف ہے کیونکہ اس کی سند میں انقطاع ہے محمدبن سیرین کا علی رضی اللہ عنہ سے سماع ثابت نہیں ہے۔
مزید یہ کہ اس روایت میں اس بات کی وضاحت نہیں ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے یوم نیروز کا ہدیہ قبول کیا تھا ۔بلکہ ظاہری الفاظ سے تو یہی لگتا ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے اسے ناپسند کیا ۔
امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)نے کہا:
قاله لنا موسى بن إسماعيل، عن حماد بن سلمة، عن علي بن زيد، عن سعر.وحدثنا آدم، حدثنا حماد بن سلمة، عن علي بن زيد، عن السعر التميمي؛ أتي علي بفالوذج، قال: ما هذا؟ قالوا: اليوم النيروز، قال: فنيروزا كل يوم.
سعرتمیمی کہتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ کے پاس فالوذج لایاگیا تو انہوں نے پوچھا: یہ کیاہے؟ تو لوگوں نے کہا: آج نیزوز کادن ہے۔ تو علی رضی اللہ عنہ نے کہا:پھر نیروز ہردن ہوناچاہئے[التاريخ الكبير للبخاري: 4/ 200]
یہ روایت بھی ضعیف ہے ۔
”سعرالتمیمی“ کو ابن حبان کے علاوہ کسی نے ثقہ نہیں کہا ہے۔
اور ”علی بن زیدبن جدعان“ ضعیف ہے. دیکھئے ہماری کتاب یزیدبن معاویہ پرالزامات کا تحقیقی جائزہ :ص 571۔
علاوہ بریں اس سے قوی تر سند سے علی رضی اللہ عنہ ہی سے منقول ہے کہ کہ وہ غیرمسلموں کے تیوہار پر ان کی ہدیہ قبول نہیں کرتے تھے چنانچہ :
امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)نے کہا:
أيوب بن دينار.عن أبيه؛ أن عليا كان لا يقبل هدية النيروز.حدثني إبراهيم بن موسى، عن حفص بن غياث.وقال أبو نعيم: حدثنا أيوب بن دينار، أبو سليمان المكتب، سمع أباه، سمع عليا بهذا
ایوب بن دینار اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے بیان کیا کہ علی رضی اللہ عنہ نیروز کا ہدیہ قبول نہیں کرتے تھے۔[التاريخ الكبير للبخاري: 1/ 414]
اس کی سند کا کوئی راوی مجروح نہیں ہے اور سب کی توثیق موجود ہے لیکن ایوب بن دینار اوران کے والد کے توثیق میں ابن حبان منفرد ہیں ، اگر ان کی تائید مل جائے تو یہ اثر صحیح ثابت ہوگا۔
----
📝
سرفراز فیضی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں