بشر بن عبد اللہ بیان کرتے ہیں: کہ ابو بکر نہشلی رحمہ اللہ جب وفات کے بالکل قریب تھے ہم ان کے پاس گئے، وہ اپنے سر کو اشارے سے اوپر نیچے کر رہے تھے جیسے نماز ادا کر رہے ہوں، ان کے ساتھیوں میں سے کسی نے کہا : اللہ آپ پر رحم کرے! اس حالت میں بھی؟ تو انہوں نے جواب دیا : میں اپنے نامۂ اعمال کے بند ہونے سے پہلے جلدی (جلدی مزید نیک عمل) کرنا چاہ رہا ہوں ۔ (الزهد لابن أبي الدنيا : ٦١
ابو محمد جریری بیان کرتے ہیں: کہ میں جنید رحمہ اللہ کی وفات کے وقت ان کے سر کے قریب کھڑا تھا، جمعہ کا دن تھا اور وہ قرآن کی تلاوت کیے جا رہے تھے، میں نے کہا : ابو القاسم! اپنی جان کو کچھ سکون دیجیے ۔ تو فرمانے لگے : ’’میرے خیال میں اس وقت مجھ سے زیادہ اس (نیک عمل) کا محتاج کوئی نہیں ہے، کیوں کہ وہاں میرا نامۂ اعمال لپیٹا جا رہا ہے۔‘‘ (شعب الإيمان للبيهقي : ٤/ ٥٤٢)
بعض روایات کے مطابق آپ نے اسی حالت میں قرآن مجید ختم کر کے سورہ البقرہ شروع کی تھی، ابھی ستر آیات ہوئیں تھیں کہ روح پرواز کر گئی۔ (شذرات الذهب لابن العماد : ٣/ ٤١٨)
غور کیجئے! سلف صالحین کس طرح آخری سانس تک اپنے نامہ اعمال میں مزید سے مزید اعمالِ صالحہ کا اضافہ کرنے کی کوشش میں لگے رہتے تھے، جبکہ ہم دن رات فضولیات، غیر مفید اور بے مقصد کاموں میں گھنٹوں ضائع کر رہے ہوتے ہیں اور ہمیں کسی قسم کی کوئی فکر یا ندامت بھی نہیں ہوتی، یوں لگتا جیسے ہم نے بہت نیک عمل کر لیے ہیں کہ جن میں اب مزید کی گنجائش ہی نہیں۔
ابو محمد، حبیب بن محمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’فارغ نہ بیٹھو، موت آپ کی تلاش میں پیچھے آ رہی ہے۔‘‘ (ذم الدنيا لابن أبي الدنيا : ٥٤ وسنده جيد)
عبد الواحد بن صفوان بیان کرتے ہیں: کہ ہم امام حسن بصری رحمہ اللہ کے ساتھ ایک جنازے میں تھے، وہ فرمانے لگے : ’’اللہ تعالی اس بندے پر رحم کرے جو اس جیسے دن کے لیے عمل کرلے، دیکھو! آج آپ وہ کام کرنے کی طاقت رکھتے ہیں جس کی آپ کے قبروں والے یہ بھائی نہیں رکھتے، اس لیے گھبراہٹ اور حساب والے دن سے پہلے پہلے اپنی صحت اور فارغ وقت کو غنیمت جان لو۔‘‘ (قصر الأمل لابن أبي الدنيا : ١٤١ وسنده جيد)
اللہ تعالی ہمارے دلوں میں فکرِ آخرت پیدا فرما دے ۔ آمین ۔
📝
حافظ محمد طاھر
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں