بعض حضرات کہتے ہیں کہ تراویح اور تہجد میں زمین وآسمان کا فرق ہے، تراویح عشاء کی نماز کے فورا بعد ادا کی جاتی ہے جبکہ تہجد نیند سے اٹھ کر رات کے کسی حصے میں ادا کی جاتی ہے.
1- یہ تفریق بالکلیہ صحیح نہیں، یہ تمام نام ایک ہی نماز کا ہے جسے ہم رمضان میں تراویح کے نام سے جانتے ہیں، اور یہی تہجد یا قیام اللیل ہے۔
2- اگر کوئی یہ کہے کہ مختلف اور متعدد نام متعدد نماز پر دلالت کرتے ہیں، تو یہ منطق سرے سے بےکار ہے، کیوں کہ فجر کی نماز کو صلاۃ الفجر، صلاۃ الصبح، صلاۃ الغداۃ اور قرآن الفجر کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، اس کا مطلب یہ نہیں کہ فجر کے وقت چار نمازیں ہیں۔
3- اگر یہ نمازیں مختلف ہیں تو ضروری ہے کہ ان نمازوں کی رکعات، ہیئات اور اوقات کی تفصیل کتاب وسنت میں موجود ہوگی، آپ تلاش بسیار کے باوجود رات میں 11 رکعت سے زیادہ نہیں پائیں گے، کیوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس سے زیادہ نہیں پڑھا کرتے تھے، چنانچہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ تراویح بیس رکعت ہے اور تہجد آٹھ رکعت تو ان کے اوپر یہ لازم ہوتا ہے کہ وہ یہ ثابت کریں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک رات میں 20 رکعت تراویح ، 8 رکعت تہجد، اور 3 رکعت وتر ادا کرتے تھے، جو کہ کل ملا کر 31 رکعات ہوتی ہیں۔
4- اور اگر یہ کہا جائے کہ رمضان میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیس پڑھتے تھے اور دیگر مہینوں میں آٹھ پڑھتے تو یہ بھی صحیح نہیں، کیوں کہ اگر تراویح تہجد سے منفرد اور الگ نماز ہے جیسا کہ کچھ حضرات کہتے ہیں، تو پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے تہجد کا پڑھنا بھی ضروری تھا کیوں کہ نبی پر تہجد فرض تھی، تراویح کافی نہیں ہوتی، تو اس طرح ایک رات میں مع وتر 31 رکعت ہوتی ہے جسے آج تک کوئی بھی ثابت نہیں کر پائے۔
5- کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ حرم میں تراویح الگ ہوتی ہے جبکہ قیام اللیل یا تہجد آخری رات میں ہوتی ہے۔
سب سے پہلی : بات یہ کہ اللہ رب العالمین نے ہماری ہدایت کیلئے کتاب وسنت کو نازل کیا ہے نہ کہ حرمین کو، اس لئے کسی جگہ، یاشخص کی دلیل کسی شرعی عمل کو ثابت کرنے کیلئے ناکافی ہے، بلکہ کتاب وسنت کے دلائل سے ہی کوئی شرعی عمل ثابت ہوگا۔
دوسری بات : یہ کہ حرم میں تراویح کے ساتھ قیام اللیل کا اہتمام صرف رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں کیا جاتا ہے، اور یہ بات کسی پر مخفی نہیں کہ قیام اللیل سال کے بارہ مہینے کی ہر رات میں بلا استثناء مسنون ہے، تو پھر رمضان کی بقیہ پچیس راتوں میں حرمین میں تراویح کے ساتھ قیام اللیل کا اہتمام کیوں نہیں ہوتا؟
تیسری بات : یہ کہ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم ماہ رمضان میں تراویح کے ساتھ قیام اللیل کا بھی اہتمام کرتے تھے؟
یا اگر پورے مہینہ نہیں کرتے تھے تو کم از کم آخری عشرہ کی طاق راتوں میں کرنے کی دلیل موجود ہوگی؟
جب دونوں صورتوں کی دلیل رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے موجود نہیں ہے تو پھر کس بنیاد پر دونوں کے درمیان تفریق روا ہو سکتی ہے۔
اس لئے اس قسم کے مغالطے میں پڑنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے، کیوں کہ کچھ لوگ تراویح کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیس رکعات ثابت کرنے کیلئے اس قسم کی رکیک اور بے کار تاویل کرتے ہیں، جن کی ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ہوتی، بس عوام کو دھوکے میں رکھنا مقصود ہوتا ہے ۔
اللہ ہم سبھوں کو ہدایت عطا فرمائے، اور صراط مستقیم پر قائم ودائم رکھے۔
📝
ابو احمد کلیم الدین یوسف
جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں