'ماں' ایک ایسے پاکیزہ رشتہ کا نام ہے جس کی عزت و عظمت، بزرگی و بڑائی دنیا کے ہر قوم و مذہب میں مسلّم ہے، ماں کے تعلق سے کہا جاتا ہے کہ وہ ایک ایسا سمندر ہے کہ جس میں ہر طرح کے رنج و غم چھپ جاتے ہیں، لیکن اس کی حقیقت صرف اتنی ہی نہیں بلکہ مذہب اسلام میں ماں کا ایک عظیم الشان مقام ہے،
چنانچہ: والد ین کے حقوق کے ضمن میں ماں کی خدمت کو دخول جنت کا سبب اور اس کی نافرمانی، اس کے ساتھ عدمِ مروّت کو دخولِ جہنم کا سبب قرار دیا گیا۔
ع : کسی بیٹے سے جب ماں کی محبت روٹھ جاتی ہے
جہنم اس کا گھر ہوتا ہے جنت روٹھ جاتی ہے.
تو آئیے اب ہم جستہ جستہ طور پر ان کے مقام و مرتبہ کو کتاب و سنت کی روشنی میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
ماں کا مقام و مرتبہ قرآن کی روشنی میں
اللہ رب العالمین نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:{ وَقَضَى ربُكَ أَلّا تَعبُدوا إِلا إِيّاهُ وبِالوالدَينِ إِحسانا إِمّا يَبلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما فَلا تَقُلْ لَهُما أُفٍّ وَلا تَنْهَرْهُما وَقُلْ لَهُما قَولاً كَرِيما وَاخْفِضْ لَهُما جَناحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُل رَّبِّ ارْحَمْهُما كَما رَبَّيانِيْ صَغِيْرًا} [ الإسراء :١٧ / ٢٣-٢٤] اس آیت کریمہ میں ماں باپ کے حوالے سے درجہ ذیل نکات سامنے آتے ہیں کہ : والدین کے ساتھ ہمیشہ حسن سلوک کیا جائے، ان کو ناراضگی سے 'أُف' بھی نہ کیا جائے، انہیں تادیبًا جھڑکا نہ جائے، ان سے ہمیشہ نرمی اور ادب و اخلاق سے بات کی جائے چاہے وہ زندہ ہوں یا فوت ہوچکے ہوں ان کے حق میں دعائے خیر کی جائے۔
ایک دوسری آیت مبارکہ میں اللہ رب العالمین نے ماں کے احسان کو جتلاتے ہوئے ارشاد فرمایا: { وَوَصَيْنا الْإِنْسانَ بِوالِدَيْهِ إِحْسانًا حَمَلَتْهُ أُمُّهُ كُرْهًا وَوَضَعَتْهُ كُرْهًا وَحَمْهُ وَفصَالُهُ ثَلٰثُونَ شَهْرًا} [ الأحقاف: ٤ /١٥] 'ہم نے انسان کو حکم دیا کہ وہ اپنے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرے (اب اللہ رب العالمین حسن سلوک کرنے کی وجہ بتا رہے ہیں کہ) اس کی ماں نے تکلیف جھیل کر اسے پیٹ میں رکھا، اور تکلیف برداشت کرتے ہوئے ان کو جنم دیا، اس کے حمل اور دودھ چھڑانے میں تیس مہینے لگ گئے'
اس مشقت اور تکلیف برداشت کرنے کا ذکر، والدین کے ساتھ حسن سلوک کے حکم میں مزید تاکید پیدا کرتا ہے، جس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ماں حکمِ احسان میں باپ سے مقدم ہے، کیونکہ نو ماہ تک مسلسل حمل کی تکلیف پھر وضع حمل کی تکلیف، صرف تنہا ماں ہی اٹھاتی ہے، اسی طرح رضاعت کی پریشانی بھی اکیلی ماں ہی برداشت کرتی ہے، باپ کی اس میں کوئی شرکت نہیں ہے، اسی لیے حدیث میں بھی ماں کے ساتھ حسن سلوک کو اوّلیت حاصل ہے اور باپ کا درجہ اس کے بعد بتلایا گیا ہے۔
اسی طریقے سے ماں باپ کے مقام کو اجاگر کرتے ہوئے دوسرے جگہ رب ذوالجلال کا فرمان آیا: { قُلْ تَعالَوْا أَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عََليْكُمْ أَلّا تُشْرِكوا بِهِ شَيْئًا وبِالْوالدَيْنِ إِحْسَانًا} [ انعام: ٦ /١٥١] ' اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ کہہ دیجئے کہ آؤ! میں تمہیں وہ چیزیں پڑھ کر سناؤں جن کو تمہارے رب نے تم پر لازم قرار دیا ہے، وہ یہ کہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرو'
قرآن مجید کے دوسرے مقامات پر اور اس آیت کریمہ میں بھی اللہ رب العالمین کی توحید و اطاعت کے بعد والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا گیا، جس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اطاعت رب کے بعد، والدین کے ساتھ حسن سلوک کی بڑی اہمیت ہے، اگر کسی نے والدین کی اطاعت اور ان کے ساتھ حسن سلوک کے تقاضے کو پورا نہیں کیا تو وہ رب ذوالجلال کی عبادت و اطاعت کے تقاضے کو بھی پورا کرنے میں ناکام رہے گا ۔
شاعر کہتا ہے : خدمت کرکے جو ماؤں سے دعا لیتے ہیں
گھر پہ وہ بیٹھ کے جنت کی ہوا لیتے ہیں
ماں کا مقام و مرتبہ احادیث کی روشنی میں
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { ان الله حرم عليكم عقوق الأمهات} [ صحيح البخاري: ٢٤٠٨] ' اللہ تعالی نے تم پر ماؤں کی نافرمانی کو حرام قرار دیا ہے'، ایک اور حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا { يا رسول الله من أحق بحسن صحابتي؟ قال: أمك، قال ثم من؟ قال: أمك، قال ثم من؟ قال: أمك، قال ثم من؟ قال: ثم أبوك} [ صحيح البخاري:٥٩٧١] ' اے اللہ کے رسول میری خدمت اور حسن سلوک کا سب سے زیادہ حقدار کون ہے؟ فرمایا : تمہاری ماں، اس شخص نے پھر سوال کیا پھر کون؟ فرمایا: تمہاری ماں، اس نے پھر سوال کیا پھر کون؟ فرمایا: تمہاری ماں، اس شخص نے جب چوتھی مرتبہ پوچھا پھر کون؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارا باپ '
- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: { أي العمل أحب إلى الله؟ قال: الصلاه على وقتها، قال ثم أيّ؟ قال: برّ الوالدين، قال ثم أيّ؟ قال: الجهاد في سبيل الله} [ صحيح البخاري: ٥٩٧]
معلوم ہوا کہ ماں باپ کی خدمت کر کے اور ان کے ساتھ حسن سلوک کرکے اپنے آپ کو جنت کا مستحق بنا سکتے ہیں، لیکن اگر ہم نے ان کو ناراض کردیا تو گویا کہ ہم اس طرح سے اللہ رب العالمین کو بھی ناراض کر رہے ہیں، اور جب اللہ تعالی ہم سے ناراض ہو جائے، تو ہم دنیا و آخرت دونوں جہاں میں نامراد رہیں گے، دنیا میں بھی ناکام اور آخرت میں بھی ہمارے لئے کوئی حصہ نہ ہوگا،
اسلئےکہ ماں باپ کی نافرمانی بہت بڑا گناہ ہے، ہر انسان کو ان کی نافرمانی سے بچنا چاہیے، کیونکہ اس کا انجام آخرت میں سوائے جہنم کے اور کچھ نہیں۔
لہذا : ہر شخص کو چاہئے کہ وہ ان کی خدمت بجا لا کر اپنے آپ کو جنت کا حقدار بنا لے، اللہ عزوجل اپنی مقدس کتاب میں بارہا یہ تاکید فرمائی کہ ماں باپ کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو، ان کے ساتھ صلہ رحمی کرو، سختی کے ساتھ پیش نہ آؤ۔
لمحۂ فکریہ
لیکن افسوس! کہ آج ہم اپنے معاشرے پر طائرانہ نظر ڈالتے ہیں تو بوڑھے والدین اپنے ناخلف اولاد کی وجہ سے زندگی سے موت بہتر کی صدا دیتے نظر آرہے ہیں، مغربی تہذیب و تمدن میں پروان چڑھنے والی نوجوان نسل بوڑھے اور محتاج والدین کو اپنی عیاشانہ زندگی میں رکاوٹ اور بوجھ سمجھتے ہوئے جس وقت گھروں سے نکال کر (Old house) اولڈ ہاؤس میں بھیج رہی ہوتی ہے اس وقت اسلام { وَوَصَيْنا إِلانْسانَ بِوالِدَيْهِ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ وَهْنًا عَلَى وَهْنٍ وَفِصالُهُ فِيْ عَامَيْنِ أَنِ اشْكُرْ لِيْ وَلِوالِدَيْكَ إِلَيَّ الْمَصِيْرُ} [ لقمان : ٣١/ ١٤] کا فرمان جاری کرکے ان بوڑھے اور محتاج والدین کو موقعِ غنیمت قرار دیتے ہوئے ان کی خدمت پر دنیا و آخرت کی بہتری اور جنت میں داخلے کی ضمانت لیتا ہے،
لیکن ان عیاشوں اور نافرمانوں کے کانوں میں جوں تک نہیں رینگتی، اور ایسا کیوں نہ ہو جب معاشرہ بے حیائی اور بے غیرتی کی انتہا کو پہنچ چکا ہو، اور صورت حال یہ ہو کہ شاعر کے الفاظ "وہ کتے پال سکتے ہیں مگر ماں بوجھ لگتی ہے" مختصراً یہ کہ معاشرے کے اندر ہونے والے مظالم بوڑھے اور کمزور والدین کے ساتھ ناقابل بیان ہیں،
لہذا ضرورت ہے کہ ہم اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک اور اچھا برتاؤ کریں۔
خلاصۂ کلام
ماں باپ کے ساتھ نیکی اور ان کی خدمت کے نتیجے میں اللہ رب العالمین دونوں جہان کی مصیبتوں کو ٹال دیتا ہے، جیسا کہ ان تین آدمیوں کے ایک غار میں پھنس جانے کا واقعہ جسے امام بخاری نے بروایت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ ایک مرتبہ بنی اسرائیل کے تین آدمی ایک غار میں پھنس گئے تھے، ان میں سے ایک وہ بھی تھا جس نے دودھ کا پیالہ ہاتھ میں لئے ساری رات ماں کے پہلو میں کھڑے ہو کر گزار دی، مگر اپنے ماں کو جگانا گوارہ نہ کیا، تاکہ اسے کوئی تکلیف نہ پہنچے،
اللہ رب العالمین اسی نیک عمل کی وجہ سے اسے اور اس کے ساتھیوں کو غار سے نجات دے دی۔
بجا فرمایا ہے کسی شاعر نے:
ماں کے قدموں میں کوئی خار نہ چبھنے دینا
اس کے نیچے تیری جنت ہے کھسک جائے گی
اخیر میں دعا ہے کہ ﷲ رب العالمین ہمیں والدین کا خدمت گزار بنائے. (آمین)
🖊
راضی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں