منگل، 11 مئی، 2021

تعلیم نسواں

      ہر قوم کی تعمیر و ترقی کا انحصار اس کی تعلیم پر ہوتا ہے، تعلیم ہی قوم کے احساس و شعور کو نکھارتی ہے، اور نئی نسل کو زندگی گزارنے کا سلیقہ سکھاتی ہے، اور پھر تعلیم تو ہماری بنیادی ضرورت بھی ہے، اللہ تعالی کا فرمان { إِقْرَأْ باِسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ} [ العلق: ٩٦/ ٢٩٧] اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی: { طلب العلم فريضة على كل مسلم} [ معجم الاوسط: ٢/ ٢٩٧] اسی بنیادی نکتہ اور ضرورت کی جانب اشارہ کرتا ہے، اور اسی کو بنیاد سمجھ کر معاشرے کی تعمیر کا حکم دیتا ہے۔

تعلیم نسواں کی اہمیت

              کتاب و سنت میں ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ علم انسان کو اعلی مقام پر فائز کر دیتا ہے، علم انسان کے اخلاق و کردار میں پاکیزگی، اخوت و محبت اور رحم و مروت کے جذبات پیدا کرتا ہے،
آدم علیہ السلام کو فرشتوں پر فوقیت علم ہی کی وجہ سے حاصل ہوئی، اللہ عزوجل نے موسی علیہ السلام کو خضر کی جانب ان کی علمی فضیلت کی وجہ سے بھیجا، خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلی ہی وحی میں إِقْرَأْ کے ذریعہ علم حاصل کرنے کا حکم دیا گیا، عائشہ رضی اللہ عنہا کو صحابیات کے درمیان پہلا اور صحابہ کرام کے مابین چوتھا نمبر ان کی علمی لیاقت کی وجہ سے ملا، رابعہ بصری کی شہرت و عظمت کا سبب ان کی علمی لیاقت بنی، دور حاضر میں بھی دیکھا جائے تو آپ بہت سی ایسی عورتوں کو پائیں گے جو اپنی علمی و فنی لیاقت کی وجہ سے بلند مقام و مرتبہ پر فائز ہیں،
           چنانچہ بقدرِ ضرورت تعلیم حاصل کرنا مرد و عورت دونوں پر فرض کیا گیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خواتین کو تعلیم کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا { من كان له جاريه وفعالها فأحسن إليها ثم أعتقها وتزوجها كان له أجران} [ صحيح البخاري: ٢٥٤٤] ' اگر کسی کے پاس کوئی لوڈی ہو اور وہ اس کی اچھی تعلیم و تربیت کرے، پھر اسے آزاد کر کے اس کی شادی کر دے تو اس کے لئے دوہرا اجر ہے'
لہذا تعلیم نسواں کی اہمیت کو سمجھنے کے لئے اتنی دلیلیں کافی ہے، پھر بھی اس دور میں تعلیم نسواں کا مسئلہ مختلف فیہ بنا ہوا ہے، ایک گروہ تو سرے سے ہی اس کی افادیت کا منکر ہے، تو دوسرا گروہ بغیر کسی پابندی کے عورتوں کو ہر قسم کی تعلیم دلانے کا طرفدار ہے ۔

تعلیم نسواں کے فوائد

       اس مسلمہ حقیقت کو جھٹلایا نہیں جاسکتا کہ عورتوں کی  وجہ سے ہی نسلوں کا مقدر سنورتا ہے اور قوم کی اصلاح ہوتی ہے، اور اس کام کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے تعلیم یافتہ ہونا بے حد ضروری ہے،
شاعر کہتا ہے:
               وجود زن سے ہے تصور کائنات میں رنگ
               اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزدروں
انسان کی تعلیم و تربیت میں عورت کا بڑا ہی اہم کردار ہوتا ہے، کیونکہ ماں کی گود بچے کی پہلی درسگاہ ہوتی ہے جہاں اس کی تعلیم و تربیت کی بنیاد پڑتی ہے جس پر اس کے مستقبل کی عمارت تعمیر ہوگی، اگر عورت تعلیم یافتہ ہے تو بچے شعور کی منزل تک باآسانی پہنچ جاتے ہیں اور ایک اسلامی اور پرسکون ماحول میں پرورش پاتے ہیں، انہیں ان کے والدین بالخصوص ماں کی توجہ اور رہنمائی حاصل ہوتی ہے، جو ہر قدم پر انہیں صحیح راستہ دکھاتی ہے، ان کے جائز خواہشات کا احترام کرتی ہے، انہیں صحیح اور غلط کا فرق بتاتی ہے، شوہر اور بچوں کے تئیں حقوق کی ادائیگی کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہتی ہے، ایسی صورتحال میں بچے ایک خوش کن ماحول میں پرورش پاتے ہیں اور پھر ایک مکمل انسان کے روپ میں ظاہر ہوتے ہیں،
اس کے برعکس اگر ماں کی تعلیم ہی ناقص ہو، وہ خود غیر تعلیم یافتہ، جاھل واجڈ ہو، تو آپ تصور کر سکتے ہیں کہ اس کے بچے کیسے ہوں گے؟
            اسی طرح جب تعلیم یافتہ عورتیں خاتون خانہ بن کر اپنی گھریلو ذمہ داریاں نبھاتی ہیں تو خاندان کو غیر معمولی استحکام حاصل ہوتا ہے، اس لیے کہ عورت بیوی، ماں، بیٹی اور بہن کی حیثیت سے گھر کی زینت ہوتی ہے، اسے"ربة البیت" کہا گیا ہے، اس کے کندھوں پر گھریلو امور کی ساری ذمہ داریاں ہوتی ہے،
اسی طرح تعلیم یافتہ عورتیں باظابطہ اپنے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے ملک کی معاشی و اقتصادی ترقی میں مثبت کردار ادا کر سکتی ہیں، تعلیم یافتہ والدین کی اولاد بھی تعلیم یافتہ ہوتی ہے، تعلیم عورتوں کو نہ صرف روزگار میں بہتر مواقع فراہم کرتی ہے بلکہ بہتر معیاری زندگی اور خوشحالی کا سامان بھی فراہم کرتی ہے ۔

تعلیم لڑکیوں کی ضروری تو ہے مگر...

            تعلیم نسواں کے بہت سارے فوائد ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ کچھ نقصانات بھی سامنے آتے ہیں، لیکن ھاں! اگر میں یہ کہوں تو بالکل بھی غلط نہ ہوگا کہ یہ نقصانات بھی دراصل تعلیم حاصل کر لینے کی وجہ سے نہیں ہے، کیونکہ تعلیم بذات خود کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچاتی ہے، بلکہ تعلیم کا غلط اور بے جا استعمال عورتوں کو گمراہ کر رہا ہے
           دور جدید میں عورتوں نے تعلیم حاصل کرکے اپنے اوپر فیشن کا خول چڑھا لیا ہے، تو یہ ان کی اخلاقی کمزوری ہے، تعلیم حاصل کر لینے کی وجہ سے یہ نقصان ہرگز نہیں، تعلیم کے غلط استعمال نے آج عورتوں کو اس ذلیل مقام پر پہنچا دیا ہے کہ آج کل کی عورتوں کو دیکھ کر یہ سوچنا پڑتا ہے کہ کیا یہ وہی عورت ہے جس کی کوکھ سے پیغمبروں نے جنم لیا، جسے شرم و حیا کے پیکر کا خطاب دیا گیا، تعلیم کے غلط اور بے جا استعمال نے لڑکیوں کو اس حد تک پہنچا دیا ہے کہ وہ یہاں کی صاف و شفاف اور پاکیزہ ہوا کو بھی آلودہ کر رہی ہیں، وہ یہ نہیں سوچتیں کہ وہ اپنے آپ کو ترقی کی جس راہ پر لے جا رہی ہیں وہ روشنی کا مینار نہیں بلکہ تاریکی کا عمیق گڑھا ہے،
خوب کہا ہے شاعر نے:
                وه اندھیرا ہی بھلا تھا کہ ہم راہ پہ تھے
                روشنی لائی ہے منزل سے بہت دور ہمیں
عورتوں کی تعلیم کے سلسلے میں محتاط نقطۂ نظر رکھنے والے مفکرین اور دانشوروں کا ماننا ہے کہ عورتوں کو بس واجبی تعلیم دینی چاہیے، جس سے وہ اپنے گھر، خاندان اور بچوں کی تربیت کے تئیں اپنی ذمہ داریوں کو کماحقہٗ ادا کر سکیں، اس لیے کہ لڑکیوں کو اعلی تعلیم دلانے کا ایک مہلک نقصان یہ بھی ہوتا ہے کہ Qualified ( سند یافتہ) ہو جانے کے بعد ان میں غیر ضروری خود اعتمادی، خودمختاری اور انا پرستی کے عناصر گھر کر جاتے ہیں جو آگے چل کر ان کی پرسکون ازدواجی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں، 
کیونکہ ہر معاملے میں عورت اپنی رفیق حیات سے بر تر ہونے کی کوشش کرتی ہیں، انہیں ہر لمحہ اپنی تعلیم یافتہ ہونے کا احساس ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ ہر معاملہ میں برتری کی خواہاں ہوتی ہیں اور یہ چاہتی ہیں کہ ان کی ہر بات کو تسلیم کیا جائے اور نتیجے میں معاملہ دھیرے دھیرے گمبھیر  ہوتا چلا جاتا ہے پھر آخر کار طلاق کی نوبت آجاتی ہے، 
          جب کہ ہر صاحب عقل و دانش کا اس بات پر اتفاق ہے کہ عورت کی حقیقی کامیابی اس کی پرسکون و خوشگوار ازدواجی زندگی ہے، چنانچہ اللہ رب العالمین کا ارشاد ہے { الرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ وَبِمَا أَنْفَقُوْا مِنْ أَمْوَالِهِمْ} [ النساء: ٤/ ٣٤] ' مرد عورتوں پر حاکم ہیں اس وجہ سے کہ اللہ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے کہ وہ عورتوں پر اپنا مال خرچ کرتے ہیں' ۔ 

حرف آخر

            اسلام خواتین کی تعلیم کا نہ صرف حامی و طرفدار ہے بلکہ انہیں اس معاملہ میں مردوں سے کمتر بھی نہیں دیکھنا چاہتا، لیکن ہاں! عورتوں کی تعلیم ان تمام حدود و قیود کے زیر سایہ میں رہ کر ہوگی جو اسلام نے ان کے لئے مقرر کیا ہے، انہیں شتر بے مہار کی طرح نہیں چھوڑ دیا جائے گا اور نہ ہی انہیں عضو معطل سمجھ کر تعلیم سے محروم کر دیا جائے گا، بلکہ حالات اور معاشرے کی درپیش ضروریات کو سامنے رکھ کر ان کے لئے علیحدہ تعلیمی نظام بنایا جائے، مخلوط تعلیمی نظام کی وجہ سے عورتوں میں جو اخلاقی انحطاط و گراوٹ آرہی ہے اس کے لئے تعلیم نہیں بلکہ آزادانہ تعلیمی نظام ذمہ دار ہے. 
 

                 🖋
                 راضی 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

کیا دیوالی کی مبارک باد دینا اور اس کی مٹھائیاں کھانا صحیح ہے

دیوالی کی مٹھائی سوال : کیا دیوالی کی مبارک باد دینا اور اس کی مٹھائیاں کھانا صحیح ہے ؟ جواب : اگر دیوالی منانا صحیح ہے تو اس کی مبارک باد ...