بخاری شریف میں باب العض فی الزکوٰۃ میں ہے:
((قال معاذ لاھل الیمن ایتونی بعرض ثیاب خمیص أو لبیس فی الصدقة مکان الشعیر والذرة اھون علیکم وخیر لا صحاب النبی ﷺ))
’’حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اہل یمن کو کہا کہ بجائے جو اور جوار کے باریک کپڑے اور عام پہننے کے کپڑے صدقہ میں ادا کرو یہ تمہارے لیے آسان ہے اور اصحاب رسول کے لے زیادہ فائدہ مند ہے۔‘‘
جائزہ
پہلی بات: یہ اثر ضعیف ہے.
دوسری بات: اس میں ایک بہت بڑا علمی مغالطہ ہے، وہ یہ کہ بعض نقدی فطرہ کے قائلین نے اس اثر کی نسبت مطلقاً بخاری شریف کی طرف کی ہے، جس سے تدلیس کی بو آتی ہے، کیوں کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس اثر کو ترجمۃ الباب میں ذکر کیا ہے، صحیح سند کے ساتھ اصل کتاب میں ذکر نہیں کیا ہے، اور امام بخاری رحمہ اللہ عنوان کے طور پر بلا سند جو احادیث ذکر کرتے ان میں صحیح اور ضعیف دونوں قسم کی حدیث ہوتی ہیں.
تیسری بات: یہ ایک صحابی معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کا اثر ہے، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مقابلے میں آثار صحابہ کو ترجیح نہیں مل سکتی.
چوتھی بات: امام بخاری رحمہ اللہ نے اس اثر کو کتاب الزکاۃ میں ذکر کیا ہے، صدقہ فطر کے باب میں نہیں، اور جیسا کہ معاذ رضی اللہ عنہ کے اثر سے واضح ہے، کیونکہ اس باب میں یا اس سے قبل یا اس کے بعد امام بخاری رحمہ اللہ نے صدقہ فطر کی حدیث ذکر ہی نہیں کی.
پانچویں بات: نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن میں زکات کی وصولی کیلئے بھیجا تھا نہ کہ صدقہ فطر کی وصولی کیلئے.
چھٹی بات: امام بخاری رحمہ اللہ نے صدقہ فطر کیلئے الگ سے باب قائم کیا ہے، چنانچہ فرماتے ہیں: "باب فرض صدقہ الفطر" اور اس باب کے تحت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی صدقہ فطر والی مشہور حدیث ذکر کرتے ہیں.
ساتویں بات: امام بخاری رحمہ اللہ نے صدقہ فطر کے متعلق صحیح بخاری میں نو ابواب قائم کیا ہے:
"باب فرض صدقة الفطر".
"باب صدقة الفطر على العبد وغيره من المسلمين".
" باب صاع من شعير".
"باب صدقة الفطر صاعا من طعام".
"باب صدقة الفطر صاعا من تمر".
"باب صاع من زبيب".
"باب الصدقة قبل العيد".
"باب صدقة الفطر على الحر والمملوك".
"باب صدقة الفطر على الصغير والكبير".
اور کسی ایک باب میں بھی غلہ کے بدلے قیمت نکالنے کا تذکرہ نہیں کیا ہے.
خلاصہ کلام یہ کہ نقدی صدقہ فطر نکالنے کے جواز کی نسبت امام بخاری رحمہ اللہ کی طرف کرنا ایک علمی غلطی ہے، اور مغالطہ و تدلیس بھی ہے.
آٹھویں بات: شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کے مذکورہ بالا اثر کے بارے میں کہا ہےکہ معاذ رضی اللہ عنہ نے یہ بات زکات کے مال کے متعلق کہی تھی، اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ جزیہ کے متعلق کہی تھی.
یعنی مال کے بدلے قیمت نکالنے کی بات یا تو زکات کے سلسلے میں کہی تھی یا پھر جزیہ کے سلسلہ میں.
اس اثر کا تعلق صدقہ فطر سے بالکل بھی نہیں.
اب رہی بات شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے قول کی، تو بعض لوگ بڑے دعوے سے لکھتے ہیں کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ صدقہ فطر میں نقدی نکالنے کے جواز کے قائل تھے، لیکن شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے کسی بھی کتاب میں ایسی صراحت نہیں کی ہے جس سے یہ پتہ چلتا ہو کہ وہ صدقہ فطر میں نقدی نکالنے کے جواز کے قائل تھے.
یہ لوگ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے جس قول کا حوالہ دیتے ہیں در اصل وہ قول زکات المال کے بارے میں، صدقہ فطر کے بارے میں نہیں، اور دونوں کے درمیان زمین و آسمان کا فرق ہے، آئیے سب سے پہلے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا وہ کلام ملاحظہ فرماتے ہیں جس سے نقدی فطرہ کے جواز کے قائلین استدلال کرتے ہیں، تاکہ آپ پر ان کے استدلال کی حقیقت آشکارہ ہو سکے.
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا: زکات میں جو لوگ قیمت نکالتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ قیمت فقیروں کیلئے زیادہ مفید ہے، کیا زکات جس مال میں فرض ہوئی ہے اس کے بدلے قیمت نکالنا جائز ہے؟
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا جواب اختصار کے ساتھ ملاحظہ فرمائیں:
بلا ضرورت اور بغیر کسی شرعی مصلحت کے زکات کے مال کے بدلے قیمت نکالنا جائز نہیں، یہی وجہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اونٹ کی زکات میں اگر مطلوبہ اونٹ یا بکری نہ ملے تو اس کی جگہ دو بکریاں یا اس کے مساوی قیمت بیس درہم نکالنے کا حکم دیا، مطلقا قیمت نکالنے کو جائز قرار نہیں دیا.... تاہم حاجت اور شرعی مصلحت کی بنا پر زکات کے مال کی جگہ اس کی قیمت نکالنے میں کوئی حرج نہیں، مثال کے طور پر زکات نکالنے والا اپنے باغ کا پھل یا کھیت کا غلہ درہم کے عوض بیچ دے، تو ایسی صورت میں اس کیلئے درہم نکالنا جائز ہوگا، اسی طرح اگر کسی کے پاس پانچ اونٹ ہیں اور اس میں ایک بکری زکات کے طور پر نکالی جاتی ہے، لیکن نہ اس کے پاس کوئی بکریبہے اور نہ ہی کوئی بکری بیچنے والا مل رہا ہے تو ایسی صورت میں بکری کے بدلے درہم نکالنا جائز ہوگا.
[مجموع الفتاوى (25/ 83)].
سطور بالا سے معلوم یہ ہوا کہ کہ ضرورت و مصلحت کے پیش نظر قیمت نکالنے کی بات شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے زکات میں کی ہے نہ صدقہ فطر میں، چنانچہ جو لوگ اس قول کو صدقہ فطر پر لاگو کرتے ہیں وہ علمی غلطی کے شکار ہیں اور لوگوں کو مغالطہ دے رہے ہیں.
اب صدقہ فطر کے متعلق شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا موقف ملاحظہ فرمائیں:
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "صدقہ فطر کی ادائیگی اسی طرح کی جائےگی جیسے قسم، ظہار، قتل، رمضان میں روزے کی حالت میں جماع، اور حج کے کفارات کی ادائیگی کی جاتی ہے، ان چیزوں میں کفارہ واجب ہونے کا سبب بدن ہے، اسی طرح صدقہ فطر کے وجوب کا سبب بھی بدن ہے، لہذا ان کفارات کو قیمت کے طور پر ادا کرنا جائز نہی، کیوں کہ اللہ رب العالمین نے فطرہ میں غلہ ہی فرض کیا ہے جیسے کفارہ میں غلہ فرض کیا ہے...... یہ قول دلیل کے اعتبار سے زیادہ قوی ہے.
[مجموع الفتاوى (25/ 73).
نیز شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے صدقہ فطر کے متعلق سوال کیا گیا: کیا کھجور، کشمش، جو، گیہوں اور آٹا صدقہ فطر میں نکالا جا سکتا ہے؟ اور جن قرابت داروں کا نفقہ واجب نہیں کیا انہیں صدقہ فطر دیا جا سکتا ہے؟ اور کیا صدقہ فطر میں غلہ کے بدلے قیمت دینا جائز ہے؟
مذکورہ سوالوں کے جواب میں شیخ الاسلام بن تیمیہ رحمہ اللہ نے غلہ کی کسی بھی قسم سے صدقہ الفطر نکالنے کو جائز قرار دیا، اسی طرح رشتہ دار اگر ضرورت مند ہو تو اسے بھی دیا جا سکتا ہے، لیکن شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے قیمت کے جواز و عدم جواز پر گفتگو ہی نہیں کی.
[مجموع الفتاوى (25/ 69)].
خلاصہ کلام یہ کہ: امام بخاری اور اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہما اللہ سے نقدی نکالنے کا جواز ثابت ہی نہیں، نقدی نکالنے کی جواز کی نسبت ان دونوں علما کی طرف کرنا ایک علمی غلطی ہے.
واللہ اعلم
📝
ابو احمد کلیم الدین یوسف
جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں