الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده، وبعد!
ازواجِ مطہرات - رضی اللہ عنھن اجمعین - کو اللہ تعالیٰ نے جن فضیلتوں، مقام عالی اور رتبۂ بلند سے نوازا ہے ان تک کوئی دوسری عورت نہیں پہنچ سکتی ہے۔
مولانا سید سلیمان سلمان منصور پوری (ت 1930م) رحمہ اللہ نے ( رحمۃ للعالمین: 2/164 ) میں اس بارے میں گفتگو فرمائی ہے جسے میں قدرے تصرف سے نقل کر رہا ہوں، فرماتے ہیں:
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿يَانِسَاءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِنَ النِّسَاءِ﴾ (الأحزاب: 32).
آیت میں ﴿ٱلنِّسَاءِ﴾ یعنی جنسِ انوثیت کا ہر ایک فرد شامل ہے، کوئی عورت اس سے باہر نہیں ہے۔ مزید دلچسپ بات یہ ہے کہ آیت میں لفظِ ( أحد ) نفی کے سیاق میں نکرہ واقع ہوا ہے، جس سے نفی بدرجۂ اتم ہوتی ہے، جیساکہ رب العالمین نے اپنے تعارف میں کہا: ﴿وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ﴾ ( الإخلاص: 4).
ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنھن اجمعین علم وعمل میں، ایمان میں، عبادات میں، حسنِ سلوک ومعاملات میں، دیگر سبھی ایمان کے شعبوں میں خصوصًا خواتینِ اسلام کے لیے نمونہ ہیں۔
امھات المؤمنین کی سادگی، قناعت اور کفایت شعاری بھی خواتینِ اسلام کے لیے ایک مثالی نمونہ ہے۔
ازواجِ مطہرات کے لیے عمومی شرف یہ تھا کہ وہ مسلم خاتون ہیں، وہ صحابیہ ہیں، اور ایک خصوصی شرف یہ بھی کہ وہ زوجۂ رسول ﷺ ہیں، یوں وہ ام المؤمنین ہیں، یہی ان کے لیے سب کچھ تھا۔
ازواجِ مطہرات کے پاس سید ولد آدم کی بیوی بننے کا معنی ومطلب؛ بنگلہ، ایک سے زائد گھر، نوکر چاکر، دنیاوی چمک دمک، مال ومتاع کی کثرت، گھر میں ہمہ وقت انواع واقسام کی مطعومات کا ہونا؛ نہیں تھا۔
قابلِ غور پہلو :
ازواجِ مطہرات گھریلو اور خاندانی اعتبار سے غریب، نادار ومفلس، یا یتیمی کی منزل طے کرکے نہیں آئی تھیں، بلکہ یہ سب اونچے گھرانوں، معزز خاندانوں، اور رؤساءِ قوم کی بیٹیاں تھیں۔
ام المؤمنین خدیجہ فی نفسہ مال دار عورت۔
عائشہ؛ رسول اللہ ﷺ کے بعد قریشِ مکہ کے سب سے عظیم، نجیب ونبیل اور نہایت مالدار انسان صدیق اکبر کی دختر تھیں۔
صفیہ اور جویریہ اپنے اپنے رئیسِ قبیلہ کی دختران تھیں۔
سودہ، ام سلمہ حفصہ، میمونہ، زینب وغیرہ کے نکاح میں متنوع فوائد بیان کی جاتی ہیں، ان سب فوائد کے علاوہ یہ سب محترم، باعزت، اور معاشرے کے سرکردہ شخصیات کے گھرانوں سے آپ ﷺ کی زوجیت میں آئی تھیں۔
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ ازواجِ مطہرات نے باوجود مال ودولت، رئاست، سماجی اثر ورسوخ، اور زندگی میں درجۂ تحسینات پاکر بھی اللہ تعالیٰ پر ایمان کے بعد رسول اللہ ﷺ کی زوجیت ہی کو مقامِ رفیع جانا تھا۔ رضي الله عنهن أجمعين.
الجزاء من جنس العمل :
ازواجِ مطہرات نے رسول ﷺ کی طرف سے ملے معمولی ( گھر ) میں رہنے کو شرف سمجھا، کبھی زبان پر حرفِ شکایت نہیں لائیں، دل بھی صاف تھے، اللہ تعالیٰ نے جہاں ان ازواجِ مطہرات کو عزت دی، شرف بخشا، وہیں ان کے گھروں کو اپنے عظیم آخری کلام قرآن میں بار بار ذکر فرماکر نمایاں کیا، فضیلت بخشی۔
اللہ تعالیٰ نے ازواجِ مطہرات کے مساکن سے موسوم ( سورۃ الحجرات ) ایک سورت ہی نازل فرمادی۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿إِنَّ الَّذِينَ يُنَادُونَكَ مِنْ وَرَاءِ الْحُجُرَاتِ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ﴾ ( الحجرات: 4).
آیتِ بالا میں بھلے ہی لفظ ( الحجرات ) کو بغیر اضافت کے ذکر کیا گیا ہے، مگر باتفاق اہلِ علم یہ رسول اللہ ﷺ کے گھر ہیں۔
امام ابو جعفر الطبری (ت 310ھ) رحمہ اللہ آیت کی تفسیر میں ( جامع البيان عن تأويل آي القرآن: ٢٤/٣٦٢ ) کہتے ہیں:
إِنَّ الذين ينادونكَ يا محمدُ مِنْ وراءِ حُجُراتكَ.
ایک وضاحت:
ان با برکت گھرانوں کی نسبت کبھی رسول ﷺ کی طرف کی گئی تو کبھی ازواجِ مطہرات کی طرف ہوئی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ﴾ (الأحزاب: 33)، اس کے بعد والی آیتِ کریمہ میں فرمایا: ﴿وَاذْكُرْنَ مَا يُتْلَى فِي بُيُوتِكُنَّ مِنْ آيَاتِ اللهِ وَالْحِكْمَةِ﴾ (الأحزاب: 34)
اسی ( سورۂ احزاب ) میں چند آیات بعد اللہ تعالٰی نے ان گھروں کی اضافت بطورِ شرف وتکریم رسول اللہ ﷺ کی طرف فرمائی، کہا: ﴿يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ﴾ (الأحزاب: 53).
ان گھرانوں کی نسبت ایک مرتبہ ازواجِ مطہرات کی طرف، اور ایک بار رسول اللہ ﷺ کی طرف مضاف فرمایا گیا، اس میں ایک خوبصورت راز ہے۔
مولانا سید سلیمان سلمان منصور پوری رحمہ اللہ ( رحمۃ للعالمین: 2/169 ) کے الفاظ میں:
یہ امر اتحادِ زوجین طیبین پر دلیلِ صریح ہے .
فائدہ :
ازواجِ مطہرات کی زندگی نہایت سادگی سے گذری ہے، یہ عالی مقام اور محترم ( حجرات ) بھی دلیل ہیں کہ کس درجہ کی کفایت شعاری ان ازواجِ مطہرات کا شعار رہا ہے۔
علامہ ابو الحسن علی بن عبد اللہ (ت 911ھ) رحمہ اللہ جو علمی دنیا میں ( السَّمهودي ) سے معروف ہیں، آپ ( سمھود، مصر ) سے تعلق رکھتے ہیں، 873ھ میں مدینہ نبویہ تشریف لائے، وہیں وفات پائی۔
مدینہ نبویہ میں رہ کر رسول اللہ ﷺ کے شہر کی تاریخ ( وفاء الوفاء بأخبار دار المصطفى ) مرتب فرمائی۔
کتابِ ہٰذا میں چوتھے باب کی ( نوویں فصل ) رسول اللہ ﷺ کے حجرے سے متعلق عقد کی گئی ہے۔ جس کا خلاصہ درجِ ذیل سطور میں ذکر کیا جا رہا ہے۔
ازواجِ مطہرات کی وفات کے بعد تقریبًا ابو العباس ولید بن عبد الملک (ت 96ھ) رحمہ اللہ کے زمانے میں مسجدِ نبوی کی توسیع کی غرض سے مہبطِ وحی الٰہی سے متصف ان گھرانوں کو منہدم کر دیا گیا۔
اس انہدامی کارروائی سے بعض سلفِ صالحین نے اس پہلو سے دکھ کا اظہار فرمایا کہ اگر ان گھروں کو یوں ہی رہنے دیا جائے تو امتِ مسلمہ کے لیے یہ ( گھر ) وعظ ونصیحت کا کام کرتے، لوگ دیکھتے کہ رسول اللہ ﷺ اور آپ کی ازواجِ مطہرات کس قدر قناعت پسند تھے۔
امام عطاء بن ابو مسلم خراسانی (ت 135ھ) رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے امام سعید بن مسیب مخزومی (ت بعد 90ھ) سے یہ کہتے ہوئے سنا؛ آپ فرما رہے تھے: واللّٰه لو وددت أنهم تركوها على حالها ينشأ ناشئٌ من المدينة، ويقدم قادم من الآفاق فيرى ما اكتفى به رسولُ اللّٰه ﷺ في حياته، فيكون ذلك مما يزهد الناس في التكاثر والتفاخر فيها.
( وفاء الوفاء بأخبار دار المصطفى : ٢/٢٢٧ )
رات کی ان آخری ساعتوں میں ربِ ذو الجلال سے دعاء ہے کہ ہماری موت تک ہمیں اپنے گھر والوں کے ساتھ اپنا پسندیدہ دین ( اسلام ) پر قائم رکھے، اپنا مطیع بنائے، اور اسی اطاعت کے سبب اپنے فضل وکرم سے اپنی ابدی جنت میں ایک ساتھ رکھے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں