جمعہ، 30 اپریل، 2021

اسلام میں ماں کا مقام

 'ماں' ایک ایسے پاکیزہ رشتہ کا نام ہے جس کی عزت و عظمت، بزرگی و بڑائی دنیا کے ہر قوم و مذہب میں مسلّم ہے، ماں کے تعلق سے کہا جاتا ہے کہ وہ ایک ایسا سمندر ہے کہ جس میں ہر طرح کے رنج و غم چھپ جاتے ہیں، لیکن اس کی حقیقت صرف اتنی ہی نہیں بلکہ مذہب اسلام میں ماں کا ایک عظیم الشان مقام ہے،
 چنانچہ: والد ین کے حقوق کے ضمن میں ماں کی خدمت کو دخول جنت کا سبب اور اس کی نافرمانی، اس کے ساتھ   عدمِ مروّت کو دخولِ جہنم کا سبب قرار دیا گیا۔
  ع  :   کسی بیٹے سے جب ماں کی محبت روٹھ جاتی ہے
           جہنم  اس کا گھر  ہوتا ہے  جنت  روٹھ جاتی  ہے.
تو آئیے اب ہم جستہ جستہ طور پر ان کے مقام و مرتبہ کو کتاب و سنت کی روشنی میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

ماں کا مقام و مرتبہ قرآن کی روشنی میں

               اللہ رب العالمین نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:{ وَقَضَى ربُكَ أَلّا تَعبُدوا  إِلا إِيّاهُ وبِالوالدَينِ إِحسانا إِمّا يَبلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما فَلا تَقُلْ لَهُما أُفٍّ وَلا تَنْهَرْهُما وَقُلْ لَهُما قَولاً كَرِيما وَاخْفِضْ لَهُما جَناحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُل رَّبِّ  ارْحَمْهُما كَما رَبَّيانِيْ صَغِيْرًا}  [ الإسراء :١٧ / ٢٣-٢٤]  اس آیت کریمہ میں  ماں باپ کے حوالے سے درجہ ذیل نکات سامنے آتے ہیں کہ : والدین کے ساتھ ہمیشہ حسن سلوک کیا جائے، ان کو ناراضگی سے 'أُف' بھی نہ کیا جائے، انہیں تادیبًا جھڑکا نہ جائے، ان سے ہمیشہ نرمی اور ادب و اخلاق سے بات کی جائے چاہے وہ زندہ ہوں یا فوت ہوچکے ہوں ان کے حق میں دعائے خیر کی جائے۔
         ایک دوسری آیت مبارکہ میں اللہ رب العالمین نے ماں کے احسان کو جتلاتے ہوئے ارشاد فرمایا: { وَوَصَيْنا الْإِنْسانَ بِوالِدَيْهِ إِحْسانًا حَمَلَتْهُ أُمُّهُ كُرْهًا وَوَضَعَتْهُ كُرْهًا وَحَمْهُ وَفصَالُهُ  ثَلٰثُونَ شَهْرًا} [ الأحقاف: ٤ /١٥] 'ہم نے انسان کو حکم دیا کہ وہ اپنے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرے (اب اللہ رب العالمین حسن سلوک کرنے کی وجہ بتا رہے ہیں کہ) اس کی ماں نے تکلیف جھیل کر اسے پیٹ میں رکھا، اور تکلیف برداشت کرتے ہوئے ان کو جنم دیا، اس کے حمل اور دودھ چھڑانے میں تیس مہینے لگ گئے'
         اس مشقت اور تکلیف برداشت کرنے کا ذکر، والدین کے ساتھ حسن سلوک کے حکم میں مزید تاکید پیدا کرتا ہے، جس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ماں حکمِ احسان میں باپ سے مقدم ہے، کیونکہ نو ماہ تک مسلسل حمل کی تکلیف پھر وضع حمل کی تکلیف، صرف تنہا ماں ہی اٹھاتی ہے، اسی طرح رضاعت کی پریشانی بھی اکیلی ماں ہی برداشت کرتی ہے، باپ کی اس میں کوئی شرکت نہیں ہے، اسی لیے حدیث میں بھی ماں کے ساتھ حسن سلوک کو اوّلیت حاصل ہے اور باپ کا درجہ اس کے بعد بتلایا گیا ہے۔
         اسی طریقے سے ماں باپ کے مقام کو اجاگر کرتے ہوئے دوسرے جگہ رب ذوالجلال کا فرمان آیا: { قُلْ تَعالَوْا أَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عََليْكُمْ أَلّا تُشْرِكوا بِهِ شَيْئًا وبِالْوالدَيْنِ إِحْسَانًا} [ انعام: ٦ /١٥١] ' اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ کہہ دیجئے کہ آؤ! میں تمہیں وہ چیزیں پڑھ کر سناؤں جن کو تمہارے رب نے تم پر لازم قرار دیا ہے، وہ یہ کہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرو'
           قرآن مجید کے دوسرے مقامات پر اور اس آیت کریمہ میں بھی اللہ رب العالمین کی توحید و اطاعت کے بعد والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا گیا، جس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اطاعت رب کے بعد، والدین کے ساتھ حسن سلوک کی بڑی اہمیت ہے، اگر کسی نے والدین کی اطاعت اور ان کے ساتھ حسن سلوک کے تقاضے کو پورا نہیں کیا تو وہ رب ذوالجلال کی عبادت و اطاعت کے تقاضے کو بھی پورا کرنے میں ناکام رہے گا ۔
شاعر کہتا ہے :  خدمت کرکے جو  ماؤں سے دعا لیتے ہیں
                      گھر پہ وہ بیٹھ کے جنت کی ہوا لیتے ہیں

ماں کا مقام و مرتبہ احادیث کی روشنی میں

             ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { ان الله حرم عليكم عقوق الأمهات} [ صحيح البخاري: ٢٤٠٨] ' اللہ تعالی نے تم پر ماؤں کی نافرمانی کو حرام قرار دیا ہے'، ایک اور حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا { يا رسول الله من أحق بحسن صحابتي؟ قال: أمك، قال ثم من؟ قال: أمك، قال ثم من؟ قال: أمك، قال ثم من؟ قال: ثم أبوك} [ صحيح البخاري:٥٩٧١] ' اے اللہ کے رسول میری خدمت اور حسن سلوک کا سب سے زیادہ حقدار کون ہے؟ فرمایا : تمہاری ماں، اس شخص نے پھر سوال کیا پھر کون؟ فرمایا: تمہاری ماں، اس نے پھر سوال کیا پھر کون؟ فرمایا: تمہاری ماں، اس شخص نے جب چوتھی مرتبہ پوچھا پھر کون؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارا باپ '
  • عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: { أي العمل أحب إلى الله؟ قال: الصلاه على وقتها، قال ثم أيّ؟ قال: برّ الوالدين، قال ثم أيّ؟ قال: الجهاد في سبيل الله} [ صحيح البخاري: ٥٩٧] 
'' کون سا عمل اللہ تعالی کو سب سے زیادہ محبوب ہیں؟ فرمایا: نماز کو اس کے صحیح وقت پر قائم کرنا، میں نے پوچھا اس کے بعد کون سا عمل؟ فرمایا: ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرنا، پھر پوچھا اس کے بعد کون سا عمل؟ فرمایا: اللہ کی راہ میں جہاد کرنا' اور صحیح مسلم کی روایت: { رغم أنف، ثم رغم أنف، ثم رغم أنف، من یا رسول اللہ؟ من أدرك أبويه عند الكبر أحدهما أو كلاهما فلم يدخل الجنه} [ صحيح مسلم:٢٥٥١] ' اس آدمی کی ناک خاک آلود ہو (یعنی وہ ذلیل و رسوا ہو) صحابہ کرام نے دریافت کیا کہ کون اے اللہ کے رسول؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے اپنے ماں باپ دونوں کو یا دونوں میں سے ایک کو بڑھاپے کی حالت میں پایا پھر وہ ان کی خدمت کر کے جنت میں داخل نہ ہوسکا' 
معلوم ہوا کہ ماں باپ کی خدمت کر کے اور ان کے ساتھ حسن سلوک کرکے اپنے آپ کو جنت کا مستحق بنا سکتے ہیں، لیکن اگر ہم نے ان کو ناراض کردیا تو گویا کہ ہم اس طرح سے اللہ رب العالمین کو بھی ناراض کر رہے ہیں، اور جب اللہ تعالی ہم سے ناراض ہو جائے، تو ہم دنیا و آخرت دونوں جہاں میں نامراد رہیں گے، دنیا میں بھی ناکام اور آخرت میں بھی ہمارے لئے کوئی حصہ نہ ہوگا،
              اسلئےکہ ماں باپ کی نافرمانی بہت بڑا گناہ ہے، ہر انسان کو ان کی نافرمانی سے بچنا چاہیے، کیونکہ اس کا انجام آخرت میں سوائے جہنم کے اور کچھ نہیں۔
لہذا : ہر شخص کو چاہئے کہ وہ ان کی خدمت بجا لا کر اپنے آپ کو جنت کا حقدار بنا لے، اللہ عزوجل اپنی مقدس کتاب میں بارہا یہ تاکید فرمائی کہ ماں باپ کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو، ان کے ساتھ صلہ رحمی کرو، سختی کے ساتھ پیش نہ آؤ۔

لمحۂ فکریہ

             لیکن افسوس! کہ آج ہم اپنے معاشرے پر طائرانہ نظر ڈالتے ہیں تو بوڑھے والدین اپنے ناخلف اولاد کی وجہ سے زندگی سے موت بہتر کی صدا دیتے نظر آرہے ہیں، مغربی تہذیب و تمدن میں پروان چڑھنے والی نوجوان نسل بوڑھے اور محتاج والدین کو اپنی عیاشانہ زندگی میں رکاوٹ اور بوجھ سمجھتے ہوئے جس وقت گھروں سے نکال کر (Old house) اولڈ ہاؤس میں بھیج رہی ہوتی ہے اس وقت اسلام { وَوَصَيْنا إِلانْسانَ بِوالِدَيْهِ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ وَهْنًا عَلَى وَهْنٍ وَفِصالُهُ فِيْ عَامَيْنِ أَنِ اشْكُرْ لِيْ وَلِوالِدَيْكَ إِلَيَّ الْمَصِيْرُ} [ لقمان : ٣١/ ١٤] کا فرمان جاری کرکے ان بوڑھے اور محتاج والدین کو موقعِ غنیمت قرار دیتے ہوئے ان کی خدمت پر دنیا و آخرت کی بہتری اور جنت میں داخلے کی ضمانت لیتا ہے،
لیکن ان عیاشوں اور نافرمانوں کے کانوں میں جوں تک نہیں رینگتی، اور ایسا کیوں نہ ہو جب معاشرہ بے حیائی اور بے غیرتی کی انتہا کو پہنچ چکا ہو، اور صورت حال یہ ہو کہ شاعر کے الفاظ "وہ کتے پال سکتے ہیں مگر ماں بوجھ لگتی ہے"  مختصراً یہ کہ معاشرے کے اندر ہونے والے مظالم بوڑھے اور کمزور والدین کے ساتھ ناقابل بیان ہیں، 
لہذا ضرورت ہے کہ ہم اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک اور اچھا برتاؤ کریں۔

خلاصۂ کلام

              ماں باپ کے ساتھ نیکی اور ان کی خدمت کے نتیجے میں اللہ رب العالمین دونوں جہان کی مصیبتوں کو ٹال دیتا ہے، جیسا کہ ان تین آدمیوں کے ایک غار میں پھنس جانے کا واقعہ جسے امام بخاری نے بروایت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ ایک مرتبہ بنی اسرائیل کے تین آدمی ایک غار میں پھنس گئے تھے، ان میں سے ایک وہ بھی تھا جس نے دودھ کا پیالہ ہاتھ میں لئے ساری رات ماں کے پہلو میں کھڑے ہو کر گزار دی، مگر اپنے ماں کو جگانا گوارہ نہ کیا، تاکہ اسے کوئی تکلیف نہ پہنچے،
اللہ رب العالمین اسی نیک عمل کی وجہ سے اسے اور اس کے ساتھیوں کو غار سے نجات دے دی۔
بجا فرمایا ہے کسی شاعر نے:
             ماں کے قدموں میں کوئی خار نہ چبھنے دینا
             اس کے نیچے تیری جنت ہے کھسک جائے گی
اخیر میں دعا ہے کہ ﷲ رب العالمین ہمیں والدین کا خدمت گزار بنائے.     (آمین)


            🖊
            راضی 

منگل، 27 اپریل، 2021

ویلنٹائن ڈے اور اسلام

  بے حیائی اور فحاشی کے فروغ میں اہل مغرب کا اچھوتا حربہ ایک ویلنٹائن ڈے بھی ہے جس میں عفت و پاکدامنی اور شرم وحیا کی دھجیاں اڑائی جاتی ہے، افسوس تو یہ ہے کہ مسلمان مرد و عورت بھی اس نامراد تہوار میں پیش پیش ہیں، راقم نے اسی عنوان پر چند سطور لکھنے کی جرات کی ہے

ویلن ٹائن ڈے کی حقیقت

                  اس سلسلے میں کوئی مستند و معتبر اور حتمی رائے نہیں پائی جاتی کہ جس کے بارے میں کہا جائے کہ یہی ویلنٹائن ڈے کی حقیقت ہے، ھاں!  کچھ واقعات اور داستانیں ہیں جسے اس دن کی طرف منسوب کیا جاتا ہے، تو آئیے! ان واقعات کا جائزہ لیتے ہیں کہ ویلنٹائن ڈے کیا ہے؟ 

پہلا واقعہ

                ' انسائیکلوپیڈیا دی بک آف نالج' کے مطابق 14 فروری کو ویلنٹائن ڈے کے نام سے منایا جانے والا تہوار عاشقوں اور محبوبوں کے لیے ایک خاص دن ہے 'بک آف نالج' میں اس واقعہ کی تاریخ یوں بیان کی گئی ہے کہ: اسکا آغاز 1700 سال پہلے ایک رومی تہوار لوپر کالیا (Luper Calia) کی صورت میں ہوا، اس تہوار کے موقع پر قدیم رومی حضرات اپنی دوست لڑکیوں (Girl friend) کے نام اپنے کرتوں اور قمیصوں کی آستینوں پر لگا کر چلتے تھے بعض اوقات یہ جوڑے تحائف کی صورت میں تبادلہ بھی کرتے تھے، بعد کے لوگوں نے اس تہوار کو سینٹ ویلنٹائن (Saint Valentine) کے نام سے منانے لگے اور اِس میں اُس کے بعض رسم و رواج کو باقی رکھا گیا، اب اسے ہر اس فرد کے لیے خاص اور اہم دن سمجھا جانے لگا جسے اپنے لئے رفیق یا رفیقہ حیات کی تلاش تھی، سترہویں صدی عیسوی کی ایک معشوقہ نے ویلنٹائن ڈے کی شام کو سونے سے قبل اپنے تکیہ میں پانچ پتّے ٹانک دیے یہ گمان کرتے ہوئے کہ ایسا کرنے سے خواب میں اسے اپنے عاشق کا دیدار ہوگا، بعد کے لوگوں نے تحائف کی جگہ ویلنٹائن کارڈ کا رواج شروع کر دیا ۔

دوسرا واقعہ

             اس کے علاوہ اور ایک معروف ومشہور واقعہ ہے جو سینٹ ویلنٹائن نامی شخص کی طرف منسوب ہے جو کہ ایک عیسائی راہب تھا، اس کے بارے میں محمد عطاءاللہ صدیقی رقم طراز ہیں: اس کے متعلق کوئی قابل اعتبار حوالہ تو موجود نہیں ہے لیکن ایک غیر مستند و غیر معتبر خیالی داستان ملتی ہے کہ تیسری صدی عیسوی میں ویلنٹائن نام کا ایک پادری تھا جو ایک راہبہ(Nun) کی زلف گرہ گیر کے اسیر ہوگئے، چونکہ عیسائی مذہب میں راہبوں اور راہبات کے لئے نکاح کرنا ممنوع تھا اس لیے ایک دن ویلن ٹائن صاحب نے اپنی معشوقہ کو تسلی پہنچانے کے خاطر ایک حیلہ اپنائی اور اپنی معشوقہ سے کہا کہ اسے خواب میں بتایا گیا کہ 14 فروری کا دن ایسا ہے کہ اس دن میں اگر کوئی راہب یا راہبہ جنسی ملاپ بھی کر لیں تو اسے گناہ تصور نہیں کیا جائے گا، راہبہ نے ان کی باتوں پر یقین کر لیا اور دونوں جوشِ عشق  میں وہ سب کچھ کر گزرے جس کی انہیں تڑپ تھی، پھر کیا؟ کلیسا کی روایت کے یوں دھجیاں اڑانے کی وجہ سے ان کا انجام وہی ہوا جو عموما ہوا کرتا ہے، یعنی انہیں قتل کر دیا گیا، بعد میں کچھ منچلوں اور بے حیائی پسندوں نے ویلن ٹائن کو شہید محبت کا درجہ دے دیا اور اس کی یاد میں اس دن تہوار منانا شروع کر دیا، 
        حالانکہ چرچ نے ہمیشہ اس کی مخالفت کی ہے اور اس خرافات کی مذمت کرتے ہوئے اسے جنسی بے راہ روی کی تبلیغ پر مبنی فعل قرار دیا، یہی وجہ ہے کہ ایک دفعہ بینکاک میں ایک عیسائی پادری نے بعض افراد کو لے کر ایک ایسے دکان کو نذر آتش کر دیا جہاں ویلنٹائن کارڈ فروخت ہوتے تھے۔

تیسرا واقعہ

             ویلنٹائن ڈے کی تاریخ عیسائی راہب ولٹینس یا ویلنٹائن سے جڑی ہوئی ہے اس طرح سے کہ جب روم کا بادشاہ کلا دیوس کو جنگ کے لئے لشکر تیار کرنے میں پریشانی ہوئی، تو اس نے وجہ تلاش کی، تو پتہ چلا کے شادی شدہ لوگ اپنے بال بچوں اور گھر بار چھوڑ کر جنگ میں چلنے کو آمادہ نہیں ہیں، تو بادشاہ نے شادی پر پابندی عائد کر دی، تب ویلنٹائن نے شاہی فرمان کی حکم عدولی کرتے ہوئے نہ صرف خود شادی کی بلکہ اور بھی لوگوں کی شادیاں کروائی، جب بادشاہ کو خبر ملی تو اس نے ویلنٹائن کی گرفتاری کا حکم صادر کیا اور اسے 14 فروری کو پھانسی دے دی گئی۔
          یہ تھے وہ واقعات و افسانے جو ویلنٹائن ڈے کے حوالے سے مشہور و معروف ہیں۔

اسلام کا نقطہ نظر

                مذکورہ بالا واقعات سے بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک غیر مسلموں کا رائج کردہ تہوار ہے جس میں فحاشی، عریانی اور بے حیائی کو فروغ دیا جاتا ہے، جبکہ مذہب اسلام ہمیں اس کی قطعا اجازت نہیں دیتا، 
ویلنٹائن ڈے منانا غیر اسلامی طریقہ ہے اور اسلام ہمیں اس طرح کی خوشیاں منانے کی اجازت نہیں دیتا جس میں بے حیائی کو فروغ حاصل ہو،  اسلام میں حیا کی بہت اہمیت ہے حتی کہ حیا کو ایمان کا ایک حصہ قرار دیا گیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:{ الحیاء شعبۃ من الایمان} [ متفق علیہ]  ویلنٹائن ڈے میں لڑکوں اور غیر محرم لڑکیوں کا اختلاط ہوتا ہے اور یہی اختلاط اپنے اندر کئی قسم کے شرعی اور معاشرتی جرائم سمیٹے ہوئے ہے، کیونکہ فحاشی کی ابتدا اختلاطِ مرد و زن سے ہی ہوتی ہے۔

لمحئہ فکریہ

             افسوس کہ اب مسلمان لڑکے اور لڑکیاں بھی اس قبیح فعل میں مبتلا ہیں، اور اسلامی اقدار کو پامال کر رہے ہیں، جبکہ مسلمان ہونے کے ناطے ان کی ذمہ داری تو یہ بنتی ہے کہ وہ معاشرے سے اس برائی کا خاتمہ کرے، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :{ من راى منكم منكرا فليغيره بيده فان لم يستطع فبلسانه وان لم يستطع فبقلبه وذلك اضعف الإيمان} [مجموع الفتاوى: ٣٦٧/٨]
لیکن آج ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو بالائے طاق رکھ کر اس گندے تہوار کے شیدائی ہو چکے ہیں۔
            درحقیقت اس میں الکٹرانک میڈیا  نے اہم کردار نبھایا ہے، اس تہوار کو منانے کے لئے طرح طرح کی دلیلیں پیش کرتے ہیں، ہو سکتا ہے !  آزاد خیال انسان کو اس سے کوئی فرق نہ پڑتا ہو لیکن ایک باعزت شخص، ایک باعزت باپ، ایک باعزت شوہر کے لیے یہ بہت ہی قبیح وغلیظ چیز ہے کیونکہ عریانیت، فحاشی اور بے حیائی کو ہر مذہب نے حرام قرار دیا ہے، اور دین اسلام نے تو اس پر بہت ہی سخت قدغن لگایا ہے۔ اللہ رب العالمین کا ارشاد ہے{ قل انما حرم ربي الفواحش ما ظهر منها وما بطن والاثم والبغي بغير الحق}   [ آل عمران :110] 
            لہذا مسلم قوم کو اس کی حقیقت سمجھنی چاہیے اور قرآن و سنت کا پاکیزہ پیغام عام کرنا چاہیے تاکہ اس غلاظت و قباحت سے پاک و صاف ہو. شاعر کہتا ہے:
        ' سکھائے  ہیں  محبت کے  نئے  انداز  مغرب  نے
        حیائیں سر پیٹتی ہیں عصمتیں فریاد کرتی ہیں' 

         🖊
        راضی
             





اتوار، 25 اپریل، 2021

لفظِ ہندو کی تحقیق

 قارئین! ذیل کی تحریر میں اس عنوان پر بحث کی  گئی ہے 
 کہ ہندو کسے کہتے؟  ہندو کون ہے؟ ہندو مت کی تعریف، تاریخ اور لفظ'ہندو' کی  وجہ تسمیہ کیا ہے؟

             تو سب سے پہلے یہ جانتے ہیں کہ ہندو مت کی تعریف کیا ہے؟ یا یہ کہ ہندو کا اطلاق کن لوگوں پر ہوتا ہے

تعریف

اس سلسلے میں پنڈت جواہر لال نہرو کہتے ہیں کہ ہندو مذہب کا خاصئہ امتیازی اس کی ہمہ گیری ہے، یعنی اس کے ماتحت تقریبا تمام قسم کے عقائد شامل ہو سکتے ہیں

دنیا میں تمام مذاہب کا اپنا اپنا ایک مخصوص نظام اعتقادات ہوتا ہے جس کے کسی جزو کو تسلیم نہ کرنا اس مذہب سے خروج اختیار کر لینا ہے، لیکن ہندوؤں کے یہاں کوئی نظام اعتقادات نہیں ہے ہر وہ شخص جو وحی و الہام کے قائل ہو وہ ہندو ہیں خواہ وہ دنیا کی کسی بھی کتاب کو الہامی سمجھیں [ ہندو مذہب مطالعہ وجائزہ : 17]

ہندو کسے کہتے ہیں؟(یا ہندو کون ہے؟) 

      مختلف کتابوں میں اس کی مختلف تعبیریں کی گئی ہیں
* ادبھوت روپ کوش نے لکھا ہے: हिन्दू हिदुच्य पुंसि ध्दौ दूष्टना वाविषणे  یعنی بدمعاشوں کی سرکوبی کرنے والوں کو ہندو کہا جاتا ہے،
* ہیمنت کوئی کوش کے مطابق:हिन्दू दीँ नारायणदि दे वताभक
یعنی ہندو اسے کہا جاتا ہے جو نارائن وغیرہ کا بھکت ہو،

* آچاریہ ونود بھاوے کے مطابق ہندو وہ ہے جو ورنوں اور آشرموں کے اصول کو تسلیم کرے، گائے کا خادم ہو، شرویتوں (وید منتروں) کو ماں کی طرح لائقِ احترام سمجھنے والا ہو، سارے مذاہب کا احترام کرنے والا ہو، تناسخ ارواح( روحوں کا ایک حالت سے دوسری حالت میں بدل جانا) کا ماننے والا نہ ہو،  اور اس سے نجات پانے کی کوشش کرتا ہو، جو تمام مخلوقات کے ساتھ مناسب رویہ اختیار کرتا ہو وغیرہ

* تن سکھ رام گپت نے اس کی مکمل تعریف کرنے کی کوشش کی ہے وہ اس طرح سے کہ عملی طور پر ہندو وہ ہے جو ہندو ماں باپ سے پیدا ہوا ہو چاہے جنیو پہنے یا نا پہنے، مذہبی شاستروں پر عقیدہ رکھے یا نہ رکھے، پیدائش، موت، کرم کے عقیدہ کو مانے یا نہ مانے، زندگی کے چار ورنوں ( دھرم، ارتھ، کام، موکش) کی پیروی کرے یا نہ کرے اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا
(کیونکہ)  ہندو ماں باپ سے پیدا ہونے والے بچّوں میں اپنے ماحول کے اثرات ہوتے ہیں۔[ ہندو دھرم پریچئے: 38]
 اس طرح لفظ ہندو کی تعریف میں کافی تنوع پایا گیا ہے جن میں آپس میں ٹکراؤ بھی ہے، اس لئے بعض لوگوں نے یہ کہتے ہوئے بات ختم کر دی کہ ہندو وہ ہے جو اپنے آپ کو ہندو کہے، ویسے تو ہندو کا اطلاق برہمن، راجپوت اور ویش جو جینیو استعمال کرنے کی حقدار قومیں ھیں ان پر ہوتا ہے۔

ہندومت کی تاریخ

              ہندو دھرم دنیا کا وہ قدیم مذہب ہے جس کی پیری کروڑوں لوگ کر رہے ہیں لیکن عجیب بات تو یہ ہے کہ اس دھرم کی کوئی تاریخ نہیں ہے کہ اس کا موجد کون ہے؟ یہ مذہب کب اور کیسے وجود میں آیا؟ اور نہ ہی اس کے کچھ اصول و ضوابط ہیں بلکہ یہ ایک ایسا لچک دار مذہب ہے جو دیگر مذاہب کے افکار و نظریات کو بھی اپنے اندر  سمو لینے کی صلاحیت رکھتا ہے، اور وقت کے ساتھ ساتھ اپنے اندر ہر طرح کے رسم ورواج اور تہذیب و تمدن کو جذب کر لیتا ہے۔

لفظ 'ہندو' کی وجہ تسمیہ

           ہندو کا سادہ سا مطلب ہے ہند کا رہنے والا، ہند کی رہنے والی قومیں۔
ہندو، سکھ، عیسائ، پارسی، مسلمان، بودھ وغیرہ ساری قومیں لفظ 'ہندی' میں بخوبی شامل ہو جاتی ہیں۔ لیکن ہندو کے مفہوم سے مسلمان، سکھ، عیسائی وغیرہ جدا ہوجاتے ہیں اور مطالعہ کرنے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ لفظ ہندو  فارسیوں (ایرانیوں) کا دیا ہوا ہے،  کئی جدید اسکالر بھی ہندو کو فارسی لفظ مانتے ہیں کیونکہ فارسی لغت میں ہندو یا ہند لفظ سے بنے ہوئے کئی الفاظ ملتے ہیں مثلاً :  ہندوی، ہندوانہ، ہندوکش وغیرہ۔
       لیکن یہاں پر ایک سوال یہ اٹھتا ہے کہ' ہندو' یا 'ہند' لفظ ایرانیوں اور فارسیوں  کو کیسے ملا؟  تو اس سوال کا جواب دیتے ہوئے ڈاکٹر راج بلی پانڈے کہتے ہیں کہ فارس کے مشرق کا خاص جغرافیائی علاقہ اور منظر دریائوں کا جال ہے،مشرق سے دریائے سندھ سے ملنے والے تین دریا جھیلم، راوی، ستلج، اور مغرب سے بھی ملنے والے تین دریا سُواستَو،کبھا (کابل) اور گومتی ہیں ۔
ان خاص دریاؤں کے ساتھ دریائےسندھ سے سیراب ہونے والے صوبہ کا نام ہپت ہندو (سپت سندھو) یہ لفظ سب سے پہلی مرتبہ جَیَنداوستا نام کی قدیم فارسی مذہبی کتاب میں مستعمل ملتا ہے، مزید مطالعہ سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ کچھ لوگ دریائے سندھ کے کنارے رہتے تھے تو ان لوگوں کو ہندو کے نام سے بلایا جاتا تھا کیونکہ فارسی قواعد کی رو سے سنسکرت کا حرف 'س' لفظ 'ہ' سے بدل جاتا ہے جس کے بنا پر سندھو لفظ بدل کر ہندو ہو گیا[ ہندو دھرم تعارف:60] 
           اور پنڈت جواہر لال نہرو کے نزدیک بھی لفظ ہندو  واضح طور سے 'سندھو' ہی سے بنا ہے اور 'انڈوس کا پورا نام بھی یہی ہے، اسی لفظ سے ہندو اور ہندوستان بنا ہے نیز انڈوس اور انڈیا بھی [ ڈسکوری آف انڈیا:250]
           ان تمام تفصیلات کے بعد یہ واضح ہو جاتا ہے کہ یہ ایک ایسا مذہب ہے جس کی کوئی تاریخ نہیں کہ یہ کب؟ اور کیسے وجود میں آیا؟ اور نہ ہی اس کا کوئی ایک معبود ہے، بلکہ ان کے معبودوں میں روز بروز اضافہ ہوتے جا رہا ہے جس کے بنا پر ان کے معبودوں کی تعداد ایک لاکھ سے بھی زائد بتائی جاتی ہے ۔
... ہم اللہ رب العالمین کا بے پناہ شکر گزار ہیں  کہ اس نے ہمیں مسلمان بنایا، اللہ رب العالمین سے دعا ہے کہ اے اللہ! تو ہمیں اسلام کی حالت پر باقی رکھ اور جب ہمارا خاتمہ ہو تو ایمان کی حالت میں ہو ۔    ( آمین )



           🖊
       
            راضی 

ہفتہ، 24 اپریل، 2021

سیکولرزم کی حقیقت

 قارئین! اس تحریر میں بات کی جائے گی سیکولرزم کی حقیقت کے بارے میں کہ سیکولرزم کیا ہے، اسکا آغاز کہاں ہوا اور کیسے ہوا ؟

 سیکولرزم کیا ہے ؟

                 سیکولرزم در اصل ایک ماسونی یہودی تحریک ہے جن کا مقصد حقوقِ انسانی، مساوات، آزادی، تحقیق و ریسرچ، قانون عدولی ( International law) اور تعلیم کے نام پر دین کو تمام شعبہ جات سے نکال دینا اور مادیت کا گرویدہ بنا کر روحانیت سے بیزار کر دینا یہ کہ کر کہ دین کی پیروی انسانی آزادی کے خلاف ہے لہذا سیاست اور دین، معیشت اور دین، معاشرت اور دین یہ سب الگ الگ چیزیں ہیں، دین طبیعت اور فطرت کے منافی ہے لہذا کسی بھی دین کی پیروی درست نہیں
ان کی صورت حال ایسی ہی ہے جیسا کہ قرآن کا ارشاد ہے :
(وَإِذَا قِيْلَ لَهُمْ تَعَالَوْا إلى مَا أَنْزَلَ اللّٰهُ وَإلى الَّرسُوْلِ رَأَيْتَ الْمُنَافِقِيْنَ يَصُدُّوْنَ عَنْكَ صُدُوْدًا) {النساء :16} 'جب ان سے کہا جاتا ہے اس چیز کی طرف آجاؤ جسے اللہ نے نازل کیا (یعنی دین اسلام) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی (تعلیمات) کی طرف تو تم دیکھو گے منافقوں کو کہ وہ لوگوں کو آپ (شریعت محمدیہ) پر عمل کرنے سے روک رہے ہوں گے

         :   یہاں مضارع کا صیغہ یصدون لانا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ صرف آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ ھی تک خاص نہیں ہے بلکہ استمرار کے ساتھ ہر زمانہ میں ایسا ہوگا اور پھر آگے صدودا کہ کر اشارہ کر دیا کہ وہ اس پر مُصِر بھی ہوں گے

سیکولرزم کا آغاز کہاں اور کیسے ہوا؟

             سیکولرزم اصل میں یورپ کا ایجاد کردہ ہے اور اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ جب اسلام نے آکر تعلیم کے دروازے کھولے اور اسلام کا اثر و رسوخ مشرق سے نکل کر مغرب میں غرناطہ اور بوسنیا تک پہنچا تو اھل مغرب کی آنکھیں کھلیں،  اس لئے کہ سولہویں صدی عیسوی تک یورپ میں کلیسا اور چرچ کو مکمل اثر و رسوخ حاصل تھا، 
جب سترہویں صدی عیسوی میں اھل یورپ نے مسلمانوں کی علمی آزادی اور ترقی کو دیکھا اور اسی کے ساتھ ساتھ عیسائیوں، پادریوں اور بادشاہوں کی تنگ نظری اور تعصب کو دیکھا اور اسکے نتیجے میں علمی تحقیقات پر پابندی اور کوئی رائے پیش کرنے والے کو ظلم کا شکار ہوتے دیکھا تو انہیں ایسا محسوس ہوا کہ دراصل عیسائیت ھی ھمارے ترقی کے لئے رکاوٹ اور روڑا ہے 
لہذا سترہویں صدی عیسوی میں اھل مغرب نے مذہب سے بیزاری کا اعلان کر دیا، اور یہی  چیز پسِ پردہ دیں کی خفیہ ترین تخریبی تحریک ماسونیت  کی کارستانیوں اور سازشوں کا نتیجہ تھا، 
اس طرح سے جب ان سیکولرزم کے حاملین کو کامیابی ملی تو انہوں نے یہ اعلان کر دیا کہ اب عقل کو آزادی حاصل ہو گی اور دین و مذہب کے قید و بند سے انسان آزاد ہوگا اور طبیعیت و نیچریت کا بول بالا ہوگا. 



        🖊
        
        راضی 

بدھ، 21 اپریل، 2021

پارلیمنٹ کیا ہے؟

پوری دنیا میں ہر دیش کا اپنا اپنا پارلیمنٹ ھوا کرتا ہے، ذیل کے سطور میں پارلیمنٹ کا مختصر تعارف کیا گیا ہے
قارئین! قانون ایک عظیم مرکز  و محور ہے جس کے ارد گرد قوم وملت کے عروج و زوال کی چکی گردش کرتی ہے اس کے دامن میں امن و آشتی،الفت و محبت پروان چڑھتے ہیں قانون عدل و انصاف کا بے مثال ترازو ہے، اس لئے ہر شخص کو اپنے ملک کے آئین کی معرفت لازم اور ضروری ہے تاکہ اپنےتئیں حقوق سے باخبر رہے اور اسے بروئے کار لاتا رہے                             
               :  دورحاضر میں دنیا کا ہر ملک قانون کے کسی نہ کسی زنجیر سے بندھا ہوا ہے مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ ہر ملک کا نظام حکومت دوسرے ممالک سے کافی مختلف ہوتا ہے
موجودہ دور میں دنیامیں چارطرح کی حکومتیں رائج ہیں
1 -  بادشاہت (Monarchy)
2-   فوجی نظام (Dectation ship)
3-   اشتراکیت  (Communism)
4-   جمہوریت  ( Democracy)
چوتھی قسم (جمہوریت) کا نظام حکومت میں حکومت کی باگ ڈور عوام کے منتخب نمائندوں کے ذریعہ سے ہوتی ہے، البتہ نمائندوں کے انتخاب میں عوام پر کسی بھی قسم کی پابندی نہیں ہوتی، اظہارِ رائے کی آزادی ہوتی ہے، عوام الناس کے فیصلوں کو ھی اھمیت دی جاتی ہے، غرض یہ کہ جمہوری نظام میں مذہبی، سیاسی، سماجی، معاشی، اقتصادی اور لسانی ہر طرح کی آزادی پائی جاتی ہے اور یہی وہ نظام ہے جو ھمارے ملک ھندوستان میں رائج ہے
ھندوستانی نظام حکومت کی داستان، پارلیمانی جمہوریت، قانون ساز اداروں کی ابتداء برطانیہ کے ساتھ دو سو سال تک ھندوستان کے تعلقات سے جڑی ہوئی ہے لیکن یہ سمجھنا بالکل غلط ہوگا کہ برطانوی اداروں کو وھاں سے لاکر جوں کا توں ھندوستان میں قائم کر دیاگیا،بلکہ ھندوستانی پارلیمنٹ اور پارلیمانی اداروں کا قیام خود ھندوستان کی سرزمین پر ہوا ہے
جمہوریت کی تعریف
جمہوریت کا مطلب یہ ہے کہ عوام کا حق خود اختیاری اور انسانی ذہن کی اختراعی اور معقولیت میں یقین رکھنا ہے،
جمہوریت کا بنیادی مفہوم یہ ہے کہ ہر شخص بلا لحاظ ذات، نسل و رنگ یا  جنس نیز اس کی تعلیمی اور معاشی سطح یا پیشہ ورانہ منظر کا لحاظ کئے بغیر اپنا نظم و نسق کرنے اور اپنی پسند کے مطابق اپنے معاملات سے نبرد آزما ہونے کا اھل ہونا ہے ۔       

پارلیمنٹ کی اصطلاح
پارلیمانی کی اصطلاح ایک ایسی جمہوری معاشرہ کی نشاندہی کرتی ہے جس میں اقتدار عوام کے نمائندوں کی جماعت (جسے ہم پارلیمنٹ کہتے ہیں) کے ہاتھوں میں ہوتا ہے پارلیمانی نظام وہ ہے جس میں مملکت کے نظم و نسق کے معاملہ میں پارلیمنٹ کو سب ترجیح حاصل ہوتی ہے، ھندوستانی آئین میں وفاقی مقنّنہ کو پارلیمنٹ کہتے ہیں یہ وہ محور ہے جس پر ملک کا سیاسی نظام گردش کرتا ہے
ھندوستانی پارلیمنٹ
          ھندوستان کی پارلیمنٹ، صدرِ جمہوریہ اور دو ایوان راجیہ سبھا اور لوک سبھا پر مشتمل ہے. (لوک سبھا کے بارے میں مزید جانکاری کے لئے یہاں کلک کریں

      🖊
      راضی

ہفتہ، 17 اپریل، 2021

لوک ‏سبھا ‏کا ‏مطلب‎

سب سے پہلے یہ معلوم ہونا چاہیے کہ پارلیمنٹ کے دو ایوان ہیں ایک راجیہ سبھا اور دوسرا لوک سبھا کے نام سے جانا جاتا ہے
عوام لوک سبھا کا راست انتخاب کرتے ہیں، دستور کے مطابق لوک سبھاکی تشکیل ریاستوں کے 530علاقائی
حلقوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں سے زیادہ سے زیادہ بیس عوام کے راست چنے ہوئے نمائندوں کے ذریعہ ہوتی ہے اور ان کا انتخاب پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے قانون کے مطابق ہوگا، ان کے علاوہ صدر جمہوریہ اینگلوانڈین برادری کی نمائندگی کے لئے زیادہ سے زیادہ دو ارکان نامزد کر سکتا ہے،    لوک سبھا کی پہلی بیٹھک کی متعین تاریخ سے اسکی        میعاد پانچ سال مقرر کی گئی ہے، پانچ سال مکمل ہونے کے ساتھ ایوان تحلیل ہو جاتا ہے، ھاں! بعض صورتوں میں ایوان کو اس کی  تکمیلِ میعاد سے پہلے ہی تحلیل کیا جا سکتا ہے جب ہنگامی حالات (Emergency) نافذ ہو تو پارلیمنٹ لوک سبھا کی میعاد میں توسیع کر سکتی ہے مگر ایک وقت میں اسکی میعاد ایک سال سے زیادہ نہیں بڑھا سکتی ایمرجینسی کے خاتمے کے بعد کسی بھی حالت میں چھ مہینہ سے زیادہ توسیع نہیں کی جا سکتی

        نئی لوک سبھا کے انتخابات کی تکمیل وتشکیل کے بعد صدر جمہوریہ اس پارٹی یا پارٹیوں کے قائد کو حکومت سازی کی دعوت دیتے ہیں جسے لوک سبھا کے ارکان کے نصف سے زائد کی حمایت حاصل ہو
اس طرح صدرِ جمہوریہ وزیراعظم کا تقرر کرتے ہیں، اور وزیراعظم کے مشورہ سے صدر جمہوریہ دیگر وزراء کا تقررکرتے ہیں
             واضح رہے کہ وزیراعظم کے تقرر میں صدر جمہوریہ کے شخصی پسند کی بہت ھی کم گنجائش ہے الا کہ صورت ایسی ہو کہ لوک سبھا میں کسی بھی پارٹی کو واضح اکثریت حاصل نہ ہوئی ہو تو صدر جمہوریہ کے پاس وزیراعظم کے انتخاب کرنے میں شخصی فیصلہ کرنے کا حق ہوتا ہے جسے اسکی رائے میں ایوان کی اکثریت کی تائید حاصل ہوتی ہے.
                                                              

                                                                🖋
                                                                راضی

کیا دیوالی کی مبارک باد دینا اور اس کی مٹھائیاں کھانا صحیح ہے

دیوالی کی مٹھائی سوال : کیا دیوالی کی مبارک باد دینا اور اس کی مٹھائیاں کھانا صحیح ہے ؟ جواب : اگر دیوالی منانا صحیح ہے تو اس کی مبارک باد ...