قرآن مجید اللہ رب العالمین کا وہ کلام ہے جسے اللہ رب العالمین نے انسانوں کی رشد و ہدایت اور خیر و بھلائی کے لئے نازل کیا جو تمام انسانوں کے لئے ایک ایسا دستورِ عمل ہے کہ جس میں قیامت تک پیش آنے والے تمام مسائل کا حل اللہ عزوجل نے بیان کر دیا، یہی وجہ ہے کہ اس کا ایک ایک لفظ، ایک ایک حرف معجزہ ہے، بے پناہ خوبیوں، لاتعداد حکمتوں اور بے شمار فضیلتوں سے مزین یہ ایک ایسی کتاب ہے جس کی نظیر آج تک نہ کسی نے پیش کر سکا اور نہ قیامت تک کوئی پیش کر سکے گا ۔
قرآن کریم سے پہلے تمام آسمانی کتابیں انبیاء علیہم السلام پر بیک وقت نازل کی گئیں جبکہ قرآن کریم کا نزول مختلف اوقات میں ضرورت اور مواقع کے لحاظ سے اللہ عزوجل کی حکمت اور مصلحت کے مطابق تقریبا تئیس سال کی مدت میں پورا ہوا، لیکن قرآن کریم کو بتدریج ترتیب کے ساتھ نازل کرنے کی وجہ کیا ہے؟ تو اس کا جواب اللہ رب العالمین نے خود ہی دے دیا فرمایا: { وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَوْلَا نُزِّلَ عَلَيْهِ الْقُرْآنُ جُمْلَةً وَّاحِدَةً كَذَلِكَ لِنُثَبِّتَ بِهِ فُؤَادَكَ} [ الفرقان: ٣٢] ' کافروں نے کہا کہ اس (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) پر قرآن سارا کا سارا ایک ہی ساتھ کیوں نہیں نازل کیا گیا؟ ہم نے اسی طرح (تھوڑا تھوڑا کرکے) اتارا تاکہ اس کے ذریعہ ہم آپ کے دل کو ثابت قدم رکھيں'
یعنی اہل مکہ نے یہ اعتراض کیا تھا کہ اگر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں تو پچھلے انبیاء کی طرح کیوں نہیں آپ پر بھی قرآن پورا کا پورا ایک ہی مرتبہ میں نازل کر دیا گیا؟ چنانچہ اللہ رب العالمین نے ان کے اسی اعتراض کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ ہم نے ایسا صرف اس لئے نہیں کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ثابت قدم رکھیں اور انہیں اس سے تقویت حاصل ہو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے خوب اچھی طرح یاد کرلیں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم دوسرے انبیاء کی طرح لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے اسی لئے اس کو تدریجاً نازل کیا کہ یاد کرنے میں آسانی ہو۔
قرآن مجید کے تدریجی نزول میں متعدد اسرار اور بہت ساری حکمتیں موجود ہیں جنہیں سہولیت کی خاطر چار بڑی حکمتوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے جو مختصراً درج ذیل ہیں :
پہلی حکمت: قلب نبوی صلى الله علیه وسلم کی تقویت
وحی الہی کے بار بار آنے اور جبرائیل علیہ السلام سے بار بار ملنے کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دل مسرت و شادمانی سے معمور ہو جاتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل و دماغ میں ہر لمحہ یہ یقین موجزن رہتا کہ آپ پر اللہ کی عنایت کا سلسلہ جاری ہے اور آپ کو اللہ کی تائید و نصرت حاصل ہے، جبرائیل علیہ السلام کا بار بار مشاہدہ آپ کے دل کی تقویت کا سبب بنتا چلا گیا،
اللہ رب العالمین کا اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے وعدہ تھا کہ دشمنوں کی ایذا رسانیوں اور مصائب و آلام کے وقت وہ آپ کے لئے صبر و ثبات کی قوت فراہم کرے گا، اور یہ بات بھی واضح ہے کہ مخالفین کی شرارتیں مختلف اوقات میں ہوتیں، لہٰذا ضروری تھا کہ قرآن مجید کا نزول تدریجی ہو تاکہ حسب ضرورت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تسلی و تشفی کی جا سکے،چنانچہ اسی طرح کبھی انبیائے سابقین کے قصص کے ذریعہ تسلی دی گئی جیسے : { وَكُلًا نَقُصُّ عَلَيْكَ مِنْ اَنْبَاءِ الرُّسُلِ مَا نُثَبِّتُ بِهِ فُؤَادَكَ} [ الهود: ١٢] ' اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! پیغمبروں کے وہ سب حالات جو ہم آپ سے بیان کرتے ہیں ان کے ذریعہ ہم آپ کے دل کو قائم رکھتے ہیں' اور کبھی وعدۂ نصرت کے ذریعہ تسلی دی گئی جیسا کہ ارشاد باری ہے: { وَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنَا} [ الطور: ٤٨] ' اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم! آپ اپنے پروردگار کے حکم کے انتظار میں صبر کرتے رہیں یقینا آپ ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں' اور اسی طرح دوسری جگہ ارشاد فرمایا: { وَاللّٰهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ} [ المائده: ٦٧] ' اللہ آپ کو لوگوں (کے شر ) سے محفوظ رکھے گا ۔
دوسری حکمت: امت مسلمہ کی تربیت
قرآن کریم کے تدریجی نزول کی دوسری بڑی حکمت یہ تھی کہ دنیا میں جو امت مسلمہ ابھر رہی تھی اس کی علمی اور عملی تربیت میں تدریجی رفتار اختیار کیا جائے تاکہ اس امت کے لئے قرآن کا سمجھنا آسان ہو جائے، اس کا حفظ کرنا آسان ہو جائے کیونکہ یہ امت اُمی تھی بہت کم لوگ اس میں لکھنا پڑھنا جانتے تھے، اس صورتحال میں اگر قرآن پورا کا پورا یکبارگی نازل کر دیا جاتا تو وہ اس کی حفاظت سے قاصر رہتے، چنانچہ حکمت عالیہ کا تقاضا تھا کہ اللہ رب العالمین نے ان کے لئے قرآن کو تھوڑا تھوڑا کرکے نازل کیا تاکہ اس کا حفظ آسان ہو جائے اور پوری طرح تحفظ کے ساتھ ساتھ اس کا زبان سے ادا کرنا اور اس کا اظہار بھی ان کے لئے آسان ہو جائے ۔
اسی تدریجی نزول کے سبب وہ باطل عقائد اور فاسد عادتوں کو بخشی ترک کر رہے تھے، جاہلانہ عقائد و اخلاق اور اعمال کی ساری نجاستیں غیر محسوس طریقے پر ایسے دور ہوئیں کے پھر دوبارہ وہ لوگ اس میں مبتلا نہیں ہوئے اس کی واضح مثال شراب کی حرمت لے سکتے ہیں جسے تین مراحل میں حرام قرار دیا گیا، لوگوں کو عقائد حقہ و عبادات صحیحہ اور مکارم اخلاق سے کمال کی حد تک آراستہ کرنے کے لئے اس تدریجی نزول نے ارتقائی منازل کا کام کیا ہے، اللہ رب العالمین نے اسی چیز کی طرف اشارہ کیا ہے اس آیت کریمہ میں { وَقُرْآنًا فَرَقْنَاهُ لِتَقْرَأَهُ عَلَى النَّاسِ عَلَى مُكْثٍ وَّنَزَّلْنَاهُ تَنْزِيْلَا} [ الإسراء: ١٠٦] ' اور ہم نے قرآن کو جز جز کر کے نازل کیا تاکہ آپ لوگوں کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھ کر سناؤ اور خود ہم نے بھی اسے بتدریج نازل کیا ہے ۔
تیسری حکمت: نئے مسائل میں رہنمائی
جب بھی کوئی جدید مسئلہ درپیش ہوتا تو اس کی مناسبت سے قرآن مجید کا ایک حصہ نازل ہوتا اور اللہ رب العالمین اس مسئلہ کے متعلق احکام بتا دیتا جو اس کے مطابق ہوتے، مثلا بہت سارے لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مختلف اوقات میں مختلف ضرورتوں کے تحت بہت سارے سوالات کرتے تو اس موقع پر قرآن کی آیتیں نازل ہوتیں پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان آیتوں کی روشنی میں ان کا جواب دیتے، یا پھر کوئی واقعہ یا حادثہ درپیش ہوتا تو اس کی مناسبت سے آیتیں نازل ہوتیں اور ان واقعات و حادثات پر روشنی ڈالی جاتی اللہ عزوجل کا ارشاد ہے : { وَلَا يَأْتُوْنَكَ بِمَثَلٍ إِلَّا جِئْنَاكَ بِالْحَقِّ وَاَحْسَنَ تَفْسِيْرَا} [ الفرقان: ٣٣] ' یہ لوگ آپ کے پاس جو کوئی بھی مثال لائیں گے ہم اس کا صحیح جواب اور عمدہ توجیہ آپ کو بتا دیں گے'
چوتھی حکمت: کلام الہی ہونے کی دلیل
یعنی اس حقیقت کو پوری طرح کھول کر رکھ دینا کہ قرآن کریم بلاشبہ اللہ رب العالمین ہی کا کلام ہے اور یہ ممکن ہی نہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا یا کسی اور مخلوق کا کلام ہو، شروع سے لے کر آخر تک پورا قرآن باریکی اور عمدگ پر مشتمل ہے، طرز بیان میں انتہائی جاذبیت اور استحکام موجود ہے اس کی سورتیں اور آیتیں آپس میں اس مضبوطی سے جڑی ہوئی ہیں کہ جیسے کاندھے سے کاندھا ملائے ہوئے لوگوں کی قطار ہو، سانچے میں ڈھلے ہوئے ڈلے کی طرح اس کے اجزاء آپس میں اس طرح پیوست ہیں کہ ان میں نہ علیحدگی محسوس ہوتی ہے اور نہ ہی اجنبیت گویا کہ موتیوں کی ایک نہایت دیدہ زیب لڑی ہو جس میں حروف، کلمات اور جملے منظم ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت مرتب اور ایک دوسرے سے پیوست ہیں
لیکن سوال یہ ہے کہ قرآن مجید میں کلام کی یہ ترتیب کیسے پیدا ہو گئی؟ جب کہ وہ یکجا اور یکبارگی نازل نہیں ہوا بلکہ ایک طویل مدت میں نازل ہوا، جس کا فطری نتیجہ یہ ہونا چاہئے تھا کہ اس میں جابجا خلل اور رخنہ ہو اور اس میں تدریج کی وجہ سے کوئی ربط اور اتصال باقی نہ رہے جبکہ اس کا ہر جملہ، ہر آیت اور ہر سورت ایک دوسرے سے مربوط ہے اور گہرا تعلق رکھتی ہے
اس کا صرف ایک ہی جواب ہے کہ اس سے ہمیں اعجاز قرآنی کا ایک نیا راز دکھائی دیتا ہے اور اس بات کا یقینی مشاہدہ ہو جاتا ہے کہ یہ کلام الہی ہی ہے : { وَلَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللّٰهِ لَوَجَدُوْا فِيْهِ اخْتِلَافًا كَثِيْرًا} [ النساء: ٨٢] ' اگر یہ (قرآن) اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو لوگ اس میں بہت اختلاف پاتے'
قرآن کریم کے متفرق طور پر نازل ہونے کی چند حکمتوں کا تذکرہ اس تحریر میں کیا گیا لیکن اس کے علاوہ اور بھی بہت ساری حکمتیں اور راز اس میں پائے جاتے ہیں ۔
رب ذوالجلال سے دعا ہے کہ ہمیں قرآن کو سمجھنے اور اس کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق دے ( آمین)
📝
راضی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں