اس روئے زمین پر اخلاق و آداب کے بہت سے معلمین پیدا ہوئے اور ہر ایک نے اپنے اپنے انداز میں اخلاق کا درس دیا اور ان سے کئی گروہوں، جماعتوں اور قوموں نے اخلاق و آداب کی تعلیم حاصل کی
آج دنیا میں جہاں کہیں بھی حسن اخلاق کا کوئی نمونہ دکھائی دیتا ہے تو یہ انہیں لوگوں کی تعلیم کا اثر ہے لیکن ان تمام معلمین میں سب سے بڑے، سب سے بہتر، سب سے ممتاز اور آخری معلم ہمارے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس ہے جن کی پوری زندگی ہم تمام بنی نوع انسان و جن کیلئے آئیڈیل اور نمونہ ہے
لیکن افسوس صد افسوس آج کا مسلمان بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرز زندگی کو چھوڑ کر کسی فلمی اداکار اور سیاسی لیڈر کو اپنی زندگی کا آئیڈیل اور نمونہ مانتا ہے جبکہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف اعلان کر دیاکہ: { اكمل المؤمنين ايمانا احسنهم خلقا} [ صحيح ابن حبان ٤٧٩] مزید فرمایا : { اكثر مايدخل الناس الجنة تقوى الله وحسن الخلق} { مسند أحمد ٩٦٩٦، شعیب الأرنؤوط ١٤٣٨] ' کہ لوگوں کو سب سے زیادہ جنت میں داخل کرنے والی چیز اللہ کا تقوی اور بہترین اخلاق ہے' اسی طرح اللہ رب العالمین نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں ارشاد فرمایا: { وَإِنَّ لَكَ لَأَجْرًا غَيْرَ مَمْنُوْنٍ وَإِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِيْمٍ} [ القلم ٣، ٤] ' اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم یقیناً آپ کیلئے نہ ختم ہونے والا اجر ہے اور آپ اخلاق کے اعلی مقام پر ہیں
محترم قارئین ! اس آیت کریمہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کو قرآن کریم نے سراہا اور سادہ سی بات ہے کہ سراہنے کے لائق وہی شخصیت ہوا کرتی ہے جس میں کامل اوصاف اور بہترین اخلاق پائے جائیں، اگر سیرت کی کتابوں کا مطالعہ کریں تو یہ بات واضح ہو جائے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زندگی کسی خاص قوم یا جماعت کے لئے نہیں بلکہ ساری دنیا کے انسانوں کے لئے ایک نمونہ اور آئیڈیل ہے ایسا کامل انسان نہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کوئی پیدا ہوا اور نہ ہی آپ کے بعد کوئی پیدا ہو گا
قرآن مقدس کے علاوہ دنیا کے کسی بھی مذہبی اور دینی کتاب نے اپنے پیشوا اور رہبر کے بارے میں ایسی کھلی شہادت نہیں دی کہ جو عمل کے اعتبار سے اخلاق کے اعلیٰ مقام پر فائز ہو لیکن قرآن نے موافقین و مخالفین، دوست و دشمن اور پورے مجمع عام میں ببانگ دہل یہ اعلان کر دیا کہ اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آپ اخلاق کے اس بلند مقام پر فائز ہیں جس کے اجر کا سلسلہ کبھی ختم ہونے والا نہیں ہے، اس آیت کریمہ کے دو پہلو ہیں ایک میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اجر کے ختم نہ ہونے کا اعلان ہے اور دوسرے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کریمانہ کی شہادت ہے یعنی آپ کا اخلاق واعمال خود اس بات پر شاہد ہے کہ آپ کے اجر کا سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوگا اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زندگی کا ایک ایک لمحہ دنیا میں محفوظ ہے
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل میں یکسانیت تھی جو کہتے وہ کرتے اور جو کرنا رہتا وہی کہتے مطالعہ کیجیے سیرت کی کتابوں کا آپ پائینگے کہ جب جب آپ نے غریبوں اور مسکینوں کی مدد کرنے کا حکم دیا تو سب سے پہلے آپ خود بھوکے رہے اور اپنا کھانا دوسروں کو کھلا دیا، جب کبھی آپ نے لوگوں کو اپنے دشمنوں اور قاتلوں کو معاف کرنے کی نصیحت کی تو سب سے پہلے خود اپنے دشمنوں اور قاتلوں کو معاف کیا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس یہودیہ کو بھی معاف کر دیا جس نے آپ کے کھانے میں زہر ملائی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ذات کے لئے کسی سے کبھی بھی انتقام نہیں لیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ایسا بھی وقت آیا کہ آپ کو کپڑے کی سخت ضرورت تھی اور ایسی حالت میں اگر کسی نے آپ سے کپڑے کے لئے دست سوال دراز کر دیا تو اسی وقت اپنی چادر اتار کر اس کے سپرد کر دی، انہیں اخلاق کریمانہ کی وجہ سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا کے تمام معلمین اخلاق پر فوقیت حاصل ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا کے سب سے ممتاز معلم کے لقب سے سرفراز کیا گیا کیونکہ جب قول سے پہلے عمل ہوگا تبھی قول مؤثر ہوگا ورنہ رائیگاں اور برباد ہو جائے گا
بقول شاعر
وغير تقي يأمر الناس باالتقى
طيب يعادي الناس و هو سقيم
يا أيها الرجل المعلم غير ه
هلا لنفسك كان ذا التعليم
لا تنه أن خلق و تاتي مثله
عار عليك اذا فعلت عظيم
الله رب العالمین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا میں سب سے بہتر اور بلند اخلاق کے ساتھ اس لئے مبعوث کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم امت کو اعلیٰ اخلاق کی تعلیم دے سکیں اور ان کی تربیت کر سکیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بعثت کے مقصد کی وضاحت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:{ انما بعثت لأتمم مكارم الأخلاق} [ مجمع الزوائد ٩/ ١٨، الزرقاني ١١٢٢ ] ' میں خاص کر اس کام کے لئے بھیجا گیا ہوں کہ اپنی تعلیم و عمل سے اخلاق کریمانہ کی تکمیل کروں' اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی میں یہ صفت بدرجہ اتم موجود تھی جس کی وجہ سے ہر ہر قدم پر کامیابی آپ کے قدم چومتی رہی
سچ ہے " مواعظ الواعظ لن تقبلا حتى يعيها قبله اول"،
مکہ فتح ہو جاتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم حرم میں قیام فرما ہیں نگاہ اٹھا کر دیکھتے ہیں تو سرداران قریش کھڑے ہیں اس مجمع عام میں وہ بھی موجود تھا جو آپ کے جسم اطہر پر کوڑا کرکٹ پھینکا کرتے تھے، وہ بھی تھا جو آپ کو جھٹلایا کرتے تھے، وہ بھی موجود تھا جو اسلام اور اہل اسلام کی بیخ کنی کیلئے خفیہ سازشیں کیا کرتے تھے غرضیکہ اس دن تمام مجرمین سرنگوں ہوکر سامنے کھڑے تھے اور ان کے پیچھے دس ہزار تلواریں رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک اشارہ کی منتظر تھیں صرف ایک اشارہ کی دیری تھی کہ تمام مجرمین کا سر دھڑ سے الگ ہو جائے، لیکن اس قدر غلبہ کامل ہونے کے باوجود چہرہ انور اٹھا کر تمام مجرمین سے مخاطب ہوئے اور کہا : "اے قریش بتاؤ ! میں آج تمہارے ساتھ کیا سلوک کروں؟" قریش ندامت سے سرشار ہیں انہیں ایک ایک جرم یاد آ رہا ہے تاہم رحم و کرم کے ہی منتظر تھے چیخ کر بول اٹھتے ہیں' انت اخ کریم وابن کریم' آپ تو ہمارے شریف بھائی ہیں اور شریف کا بیٹا ہیں' تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت وہی کہا جو یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں سے کہا تھا :' لا تثريب عليكم اليوم يغفر الله لكم وهو ارحم الراحمين [يوسف:٩٢،أحكام الصغرى: ٥٥٨]
اور اس واقعہ کو بھی یاد کیجئے کہ جب قبیلہ بنی مخزوم کی ایک عورت سے چوری کا جرم سرزد ہوگیا تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلامی قانون کے تحت ہاتھ کاٹنے کا حکم صادر فرمایا چونکہ عورت شریف اور معزز خاندان کی تھی اسلئے قبیلہ کے سرداروں نے اسامہ بن زید کو سفارشی بنا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا تاکہ سزا معاف کر دی جائے یا پھر سزا میں ترمیم کرکے اس پر بھاری جرمانہ ادا کرنے کا حکم دیا جائے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غضبناک ہو گئے اور فرمایا: { يا اسامة اتشفع في حد من حدود الله تعالى والذي نفسي بيده لو أن فاطمة ابنة محمد سرقت لقطعت يدها} [ شعيب الارنؤوط: ١٤٣٨، اسناده صحيح على شرط الشيخين] اور جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن کا داعی و معلم بنا کر بھیجا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یہ وصیت فرمائی { يا معاذ ! احسن خلقك للناس} [ الترغيب والترهيب٣/ ٣٥٧] ' اے معاذ دیکھو ! تم لوگوں سے اچھے اخلاق سے پیش آنا '
خادم رسول انس رضی اللہ عنہ جو دس سال تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت و صحبت میں رہے فرماتے ہیں کہ اس دس سال کے عرصہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی مجھے اف تک نہیں کہا، سوچئے جو اپنے کسی ماتحت کا اس درجہ خیال رکھتا ہو کہ دس سال کے لمبے عرصہ میں بھی کبھی اف تک نہ کہا ہو تو اس کے اخلاق کریمانہ کا کیا کہنا؟
سچ ہے : " بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر"
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق و عادات کے بارے میں ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے پوچھا گیا تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: { کان خلقه القرآن} [ صحيح الجامع: ٤٨١١] ' آپ کا اخلاق سراپا قرآن تھا' یعنی قرآن مجید میں جو کچھ الفاظ کی صورت میں ہے ٹھیک وہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ میں بصورت عمل تھا، قرآن آپ کے اخلاق کریمانہ کا مکمل آئینہ ہے لہذا جس کو بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں واقفیت مقصود ہو وہ قرآن کا بغور مطالعہ کرے اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق معلوم ہو جائے گا
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ چند اعلیٰ اخلاق کے نمونہ ہیں جن کو میں نے پیش کیا اگر آج بھی ہم ایسے اخلاق کا مظاہرہ کرنے لگیں اور ان چیزوں پر خود عمل کرکے دوسروں کے ساتھ اس طرح کا سلوک کرنے لگیں تو آج بھی کوئی بعید نہیں کہ غیر مسلم ہمارے اخلاق دیکھ کر مشرف بہ اسلام نہ ہوں کاش ہم تمام مسلمان اس سچے مذہب کا عملی نمونہ اور تصویر بن جائیں! اور دنیا والوں کو دکھا دیں کہ دیکھو اسلام یہ ہے، اگر ایسا ہو جائے تو مخلوق الٰہی حلقہ بگوش اسلام ہونے میں ذرا بھی توقف نہ کرے گی.
📝
راضی
أحسنت،زادك الله علماً وبارك الله فيك ونفع بكم الاسلام والمسلمين.
جواب دیںحذف کریں