اتوار، 23 مئی، 2021

جمہوریت کی تعریف

    روئے زمین پر جہاں بہت سے بڑے بڑے مشہور و معروف ممالک ہیں انہیں میں سے ایک ہمارا ملک ہندوستان بھی ہے، جس میں مختلف قوم و ملت اور تہذیب و تمدن سے تعلق رکھنے والے لوگ ایک ساتھ رہتے ہیں، جہاں بہت ساری زبانیں بولی جاتی ہیں، یہاں کا قانون جمہوری ہے جس کے تحت تمام قسم کے باشندوں کو مساوی حقوق دیے گئے ہیں۔

جمہوریت کی لغوی تعریف

             جمہوریت کا لفظ عربی زبان کا لفظ الجمهور سے ماخوذ ہے جوکہ لغوی مفہوم کی بنیاد پر معروف ہوا، اس کا معنی ہے " بلند تر" اور " اکثریت" اور یہ انگریزی زبان کا لفظ ڈیموکریسی (Democracy) کے متابادل کے طور پر بولا جاتا ہے، اور ڈیموکریسی (Democracy) یہ یونانی زبان کا لفظ ہے جو ڈیموکریساں سے مشتق ہے، جو کہ دو لفظوں سے مرکب ہے، ایک ڈیمو جس کا معنی ہے لوگ، اور دوسرا کریساں اسکا معنی ہے طاقت و اقتدار
اس طرح جمہوریت کا معنی ہوا لوگوں کی طاقت یا لوگوں کا اقتدار  ۔

جمہوریت کی اصطلاحی تعریف

             عوام میں ڈیموکریسی کی جو سب سے مشہور اور عام تعریف ہے وہ یہ کہ : (democracy is a government of the people by the people and for the people ' عوام کی ایسی حکومت جو عوام کی بنائی ہوئی ہو اور عوام کے لئے ہو'  
اس کا مفہوم یہ ہے کہ ایک ایسا نظام حکومت جس میں اقتدار کی باگ ڈور عوام کے ہاتھوں میں ہو نہ کہ کسی ایک شخص یا چند لوگوں کے ہاتھوں میں ۔
               موجودہ دور میں اگر دیکھا جائے تو دنیا جمہوریت کو تہذیب و تمدن کی علامت و شناخت اور فطری طرزِ حکومت کے طور پر تسلیم کر چکی ہے، دنیا کے اکثر ممالک میں جمہوری نظام قائم ہو چکا ہے اور جہاں اب تک جمہوری قانون نافذ نہیں ہے وہاں بھی جمہوری قانون کے نفاذ کے لئے جدوجہد جاری ہے ۔

آج کی جمہوریت

               دنیا کو جمہوریت سے جو توقعات و امیدیں وابستہ تھیں وہ آج تک پوری نہ ہوسکیں، شاید اس کا سبب یہ ہو کہ جمہوریت کے علمبرداروں اور اس کا خیرمقدم کرنے والوں نے درحقیقت اس کے مفہوم کو سمجھا ہی نہیں اور خود اس غلط فہمی کا شکار ہو گئے کہ اس نظام کے جاری ہوتے ہی خود بخود چہارجانب عدل و انصاف اور آزادی و مساوات کا دور دورہ ہو جائے گا اور ہر طرف دودھ کی نہریں بہنے لگیں گی، مگر یہ ان کا ایک ایسا خواب تھا جو آج تک شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکا اور نہ ہی کوئی امید دکھائی دے رہی ہے، دوسرا سبب یہ ہے کہ اس نظام کو نافذ کرنے والوں نے حقیقت میں اس کا نفاذ کیا ہی نہیں، کیونکہ جمہوریت کے کچھ تقاضے ہیں جنہیں پورا کرنے کے لئے جو حوصلہ درکار ہے وہ کلی طور پر مفقود ہے، بلکہ ہم نے صرف جمہوری انداز کی تقریبات کے انعقاد کو ہی جمہوریت سمجھ لیا ہے.

           🖋

            راضی 

منگل، 11 مئی، 2021

تعلیم نسواں

      ہر قوم کی تعمیر و ترقی کا انحصار اس کی تعلیم پر ہوتا ہے، تعلیم ہی قوم کے احساس و شعور کو نکھارتی ہے، اور نئی نسل کو زندگی گزارنے کا سلیقہ سکھاتی ہے، اور پھر تعلیم تو ہماری بنیادی ضرورت بھی ہے، اللہ تعالی کا فرمان { إِقْرَأْ باِسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ} [ العلق: ٩٦/ ٢٩٧] اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی: { طلب العلم فريضة على كل مسلم} [ معجم الاوسط: ٢/ ٢٩٧] اسی بنیادی نکتہ اور ضرورت کی جانب اشارہ کرتا ہے، اور اسی کو بنیاد سمجھ کر معاشرے کی تعمیر کا حکم دیتا ہے۔

تعلیم نسواں کی اہمیت

              کتاب و سنت میں ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ علم انسان کو اعلی مقام پر فائز کر دیتا ہے، علم انسان کے اخلاق و کردار میں پاکیزگی، اخوت و محبت اور رحم و مروت کے جذبات پیدا کرتا ہے،
آدم علیہ السلام کو فرشتوں پر فوقیت علم ہی کی وجہ سے حاصل ہوئی، اللہ عزوجل نے موسی علیہ السلام کو خضر کی جانب ان کی علمی فضیلت کی وجہ سے بھیجا، خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلی ہی وحی میں إِقْرَأْ کے ذریعہ علم حاصل کرنے کا حکم دیا گیا، عائشہ رضی اللہ عنہا کو صحابیات کے درمیان پہلا اور صحابہ کرام کے مابین چوتھا نمبر ان کی علمی لیاقت کی وجہ سے ملا، رابعہ بصری کی شہرت و عظمت کا سبب ان کی علمی لیاقت بنی، دور حاضر میں بھی دیکھا جائے تو آپ بہت سی ایسی عورتوں کو پائیں گے جو اپنی علمی و فنی لیاقت کی وجہ سے بلند مقام و مرتبہ پر فائز ہیں،
           چنانچہ بقدرِ ضرورت تعلیم حاصل کرنا مرد و عورت دونوں پر فرض کیا گیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خواتین کو تعلیم کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا { من كان له جاريه وفعالها فأحسن إليها ثم أعتقها وتزوجها كان له أجران} [ صحيح البخاري: ٢٥٤٤] ' اگر کسی کے پاس کوئی لوڈی ہو اور وہ اس کی اچھی تعلیم و تربیت کرے، پھر اسے آزاد کر کے اس کی شادی کر دے تو اس کے لئے دوہرا اجر ہے'
لہذا تعلیم نسواں کی اہمیت کو سمجھنے کے لئے اتنی دلیلیں کافی ہے، پھر بھی اس دور میں تعلیم نسواں کا مسئلہ مختلف فیہ بنا ہوا ہے، ایک گروہ تو سرے سے ہی اس کی افادیت کا منکر ہے، تو دوسرا گروہ بغیر کسی پابندی کے عورتوں کو ہر قسم کی تعلیم دلانے کا طرفدار ہے ۔

تعلیم نسواں کے فوائد

       اس مسلمہ حقیقت کو جھٹلایا نہیں جاسکتا کہ عورتوں کی  وجہ سے ہی نسلوں کا مقدر سنورتا ہے اور قوم کی اصلاح ہوتی ہے، اور اس کام کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے تعلیم یافتہ ہونا بے حد ضروری ہے،
شاعر کہتا ہے:
               وجود زن سے ہے تصور کائنات میں رنگ
               اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزدروں
انسان کی تعلیم و تربیت میں عورت کا بڑا ہی اہم کردار ہوتا ہے، کیونکہ ماں کی گود بچے کی پہلی درسگاہ ہوتی ہے جہاں اس کی تعلیم و تربیت کی بنیاد پڑتی ہے جس پر اس کے مستقبل کی عمارت تعمیر ہوگی، اگر عورت تعلیم یافتہ ہے تو بچے شعور کی منزل تک باآسانی پہنچ جاتے ہیں اور ایک اسلامی اور پرسکون ماحول میں پرورش پاتے ہیں، انہیں ان کے والدین بالخصوص ماں کی توجہ اور رہنمائی حاصل ہوتی ہے، جو ہر قدم پر انہیں صحیح راستہ دکھاتی ہے، ان کے جائز خواہشات کا احترام کرتی ہے، انہیں صحیح اور غلط کا فرق بتاتی ہے، شوہر اور بچوں کے تئیں حقوق کی ادائیگی کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہتی ہے، ایسی صورتحال میں بچے ایک خوش کن ماحول میں پرورش پاتے ہیں اور پھر ایک مکمل انسان کے روپ میں ظاہر ہوتے ہیں،
اس کے برعکس اگر ماں کی تعلیم ہی ناقص ہو، وہ خود غیر تعلیم یافتہ، جاھل واجڈ ہو، تو آپ تصور کر سکتے ہیں کہ اس کے بچے کیسے ہوں گے؟
            اسی طرح جب تعلیم یافتہ عورتیں خاتون خانہ بن کر اپنی گھریلو ذمہ داریاں نبھاتی ہیں تو خاندان کو غیر معمولی استحکام حاصل ہوتا ہے، اس لیے کہ عورت بیوی، ماں، بیٹی اور بہن کی حیثیت سے گھر کی زینت ہوتی ہے، اسے"ربة البیت" کہا گیا ہے، اس کے کندھوں پر گھریلو امور کی ساری ذمہ داریاں ہوتی ہے،
اسی طرح تعلیم یافتہ عورتیں باظابطہ اپنے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے ملک کی معاشی و اقتصادی ترقی میں مثبت کردار ادا کر سکتی ہیں، تعلیم یافتہ والدین کی اولاد بھی تعلیم یافتہ ہوتی ہے، تعلیم عورتوں کو نہ صرف روزگار میں بہتر مواقع فراہم کرتی ہے بلکہ بہتر معیاری زندگی اور خوشحالی کا سامان بھی فراہم کرتی ہے ۔

تعلیم لڑکیوں کی ضروری تو ہے مگر...

            تعلیم نسواں کے بہت سارے فوائد ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ کچھ نقصانات بھی سامنے آتے ہیں، لیکن ھاں! اگر میں یہ کہوں تو بالکل بھی غلط نہ ہوگا کہ یہ نقصانات بھی دراصل تعلیم حاصل کر لینے کی وجہ سے نہیں ہے، کیونکہ تعلیم بذات خود کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچاتی ہے، بلکہ تعلیم کا غلط اور بے جا استعمال عورتوں کو گمراہ کر رہا ہے
           دور جدید میں عورتوں نے تعلیم حاصل کرکے اپنے اوپر فیشن کا خول چڑھا لیا ہے، تو یہ ان کی اخلاقی کمزوری ہے، تعلیم حاصل کر لینے کی وجہ سے یہ نقصان ہرگز نہیں، تعلیم کے غلط استعمال نے آج عورتوں کو اس ذلیل مقام پر پہنچا دیا ہے کہ آج کل کی عورتوں کو دیکھ کر یہ سوچنا پڑتا ہے کہ کیا یہ وہی عورت ہے جس کی کوکھ سے پیغمبروں نے جنم لیا، جسے شرم و حیا کے پیکر کا خطاب دیا گیا، تعلیم کے غلط اور بے جا استعمال نے لڑکیوں کو اس حد تک پہنچا دیا ہے کہ وہ یہاں کی صاف و شفاف اور پاکیزہ ہوا کو بھی آلودہ کر رہی ہیں، وہ یہ نہیں سوچتیں کہ وہ اپنے آپ کو ترقی کی جس راہ پر لے جا رہی ہیں وہ روشنی کا مینار نہیں بلکہ تاریکی کا عمیق گڑھا ہے،
خوب کہا ہے شاعر نے:
                وه اندھیرا ہی بھلا تھا کہ ہم راہ پہ تھے
                روشنی لائی ہے منزل سے بہت دور ہمیں
عورتوں کی تعلیم کے سلسلے میں محتاط نقطۂ نظر رکھنے والے مفکرین اور دانشوروں کا ماننا ہے کہ عورتوں کو بس واجبی تعلیم دینی چاہیے، جس سے وہ اپنے گھر، خاندان اور بچوں کی تربیت کے تئیں اپنی ذمہ داریوں کو کماحقہٗ ادا کر سکیں، اس لیے کہ لڑکیوں کو اعلی تعلیم دلانے کا ایک مہلک نقصان یہ بھی ہوتا ہے کہ Qualified ( سند یافتہ) ہو جانے کے بعد ان میں غیر ضروری خود اعتمادی، خودمختاری اور انا پرستی کے عناصر گھر کر جاتے ہیں جو آگے چل کر ان کی پرسکون ازدواجی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں، 
کیونکہ ہر معاملے میں عورت اپنی رفیق حیات سے بر تر ہونے کی کوشش کرتی ہیں، انہیں ہر لمحہ اپنی تعلیم یافتہ ہونے کا احساس ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ ہر معاملہ میں برتری کی خواہاں ہوتی ہیں اور یہ چاہتی ہیں کہ ان کی ہر بات کو تسلیم کیا جائے اور نتیجے میں معاملہ دھیرے دھیرے گمبھیر  ہوتا چلا جاتا ہے پھر آخر کار طلاق کی نوبت آجاتی ہے، 
          جب کہ ہر صاحب عقل و دانش کا اس بات پر اتفاق ہے کہ عورت کی حقیقی کامیابی اس کی پرسکون و خوشگوار ازدواجی زندگی ہے، چنانچہ اللہ رب العالمین کا ارشاد ہے { الرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ وَبِمَا أَنْفَقُوْا مِنْ أَمْوَالِهِمْ} [ النساء: ٤/ ٣٤] ' مرد عورتوں پر حاکم ہیں اس وجہ سے کہ اللہ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے کہ وہ عورتوں پر اپنا مال خرچ کرتے ہیں' ۔ 

حرف آخر

            اسلام خواتین کی تعلیم کا نہ صرف حامی و طرفدار ہے بلکہ انہیں اس معاملہ میں مردوں سے کمتر بھی نہیں دیکھنا چاہتا، لیکن ہاں! عورتوں کی تعلیم ان تمام حدود و قیود کے زیر سایہ میں رہ کر ہوگی جو اسلام نے ان کے لئے مقرر کیا ہے، انہیں شتر بے مہار کی طرح نہیں چھوڑ دیا جائے گا اور نہ ہی انہیں عضو معطل سمجھ کر تعلیم سے محروم کر دیا جائے گا، بلکہ حالات اور معاشرے کی درپیش ضروریات کو سامنے رکھ کر ان کے لئے علیحدہ تعلیمی نظام بنایا جائے، مخلوط تعلیمی نظام کی وجہ سے عورتوں میں جو اخلاقی انحطاط و گراوٹ آرہی ہے اس کے لئے تعلیم نہیں بلکہ آزادانہ تعلیمی نظام ذمہ دار ہے. 
 

                 🖋
                 راضی 

جمعہ، 7 مئی، 2021

اصلاح معاشرہ کے بنیادی اصول

 اصلاح معاشرہ انسانی زندگی کی ڈاواں ڈول کشتی کو منزل مقصود تک پہنچانے کے لئے ایک بہت ہی اہم ذریعہ ہے، یہی وجہ ہے کہ مختلف تنظیمیں، تحریکوں، مفکرین و مقررین، علماء، دانشورانِ قوم و ملت، اصلاحی اور سماجی خدمات پر مامور شخصیات کی تقریروں اور تحریکوں کا خلاصہ یہی ہوتا ہے کہ معاشرہ کی صالحیت کو کس طرح برقرار رکھا جائے،
اس سلسلے میں ممبر و محراب سے لیکر اسٹیج تک، قرطاس و قلم سے لے کر اخبارات اور تصنیفات و تالیفات تک، ہر جگہ اصلاح معاشرہ پر زور دیا جا رہا ہے مگر تمام تر کوششوں کے باوجود کوئی خاص اصلاح نظر نہیں آتا، اس لئے ضروری ہے کہ اگر ہم معاشرہ کی اصلاح چاہتے ہیں تو ہمیں ان تعلیمات اور اصولوں کو اختیار کرنا ہوگا جو قرآن و سنت میں وارد ہے، مزید اُس طریقے کو بھی اپنانا ہوگا جس پر چلتے ہوئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدنی معاشرہ کی اصلاح کی تھی۔
قارئین کرام! تو آئیے اب ہم اصلاح معاشرہ کے چند بنیادی اصول پر نظر ڈالتے ہیں۔

1 :  اللہ واحد کی عبادت

                 توحید باری تعالیٰ کا صدق دل سے اقرار اور شرک سے براءت کا اظہار کرنا صالح معاشرہ کی پہلی اور سب سے اہم بنیادی ضرورت ہے، اسی بنا پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دعوت کا آغاز توحید باری تعالیٰ سے ہی کیا تھا جیسا کہ فرمایا: { قُولو لا إلٰه إلاّ الله تفلحوا} [ شعيب الأرنؤوط: ت ١٤٣٨] (إسناده صحیح) ' تم سب اقرار کر لو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں (یہ اقرار کر لو گے) تو تم سب کامیاب ہو جاؤ گے' 
سورۃ العنکبوت کی آیت نمبر 61 اور 63 میں اللہ رب العالمین نے اسی کی وضاحت فرمائی ہے کہ اس کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد یہ تھی کہ اس بات کو بھی دل سے تسلیم کیا جائے کہ معبود برحق صرف اللہ رب العالمین کی ذات ہے، تمام عبادتوں کے لائق وہی ہے اور ہر قسم کی عبادات اسی کے لئے حق ہے، نماز، روزہ، حج، زکوۃ، قربانی، نذر و نیاز، رکوع و سجود، استغاثہ، استعانت، امید و رجاء، خوف وخشیت، توکل، دعا، عاجزی و انکساری، عقیدت و محبت
الغرض یہ کہ تمام تر عبادات صرف اور صرف اللہ رب العالمین کے لئے ہی ہونی چاہیے۔

2 : صرف اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت

                    اسلامی معاشرہ کے افراد بحیثیت مسلمان اللہ تعالی کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری کریں اور ان کی نافرمانی سے اجتناب کریں، تاکہ معاشرہ کی صالحیت و پاکیزگی برقرار رہے، اللہ رب العالمین قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: { يَآ أَيُّها الَّذِيْنَ آمَنُوْا أَطِيْعُوا اللّٰهَ وَأَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَلَا تُبْطِلُوْا أَعْمَالَكُمْ} [ محمد ٤٧/ ٣٣] ' اے ایمان والو اللہ کی اطاعت کرو اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری کرو، اور اپنے اعمال کو ضائع مت کرو'
اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان:{ تركت فيكم امرين لن تضلوا ما تمسكتم بهما كتاب الله وسنتي ولن يتفرقا حتى يردا علي الحوض} [ صحيح الجامع: ٢٩٣٧] ' میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں، جب تک تم انہیں مضبوطی سے تھامے رہو گے کبھی گمراہ نہیں ہونگے، ایک ہے اللہ کی کتاب (قرآن مجید) اور دوسری ہے میری سنت اور یہ دونوں کبھی جدا جدا نہیں ہوگی، یہاں تک کہ حوض پر میرے پاس آجائیں گے،
لہذا آج بھی کوئی معاشرہ اس وقت تک ترقی اور کامیابی حاصل نہیں کر سکتا، اور نہ ہی اس کی اصلاح ہو سکتی ہے، جب تک کہ اس میں بسنے والے تمام لوگ پورے اخلاص کے ساتھ کتاب و سنت کو اپنا دستور حیات نہ بنا لیں ۔

3 : اتحاد و اتفاق

               اسلامی معاشرہ کی اصلاح کے لئے ایک اہم ضرورت اتحاد و اتفاق بھی ہے کہ اگر لوگوں کے درمیان کسی مسئلے میں تنازع ہو جائے تو وہ اسے کتاب اللہ اور سنت رسول کی روشنی میں حل کریں، اور کتاب اللہ وسنت رسول کو اپنی زندگی سے کبھی مفقود نہ ہونے دیں، بلکہ اسی پر جم جائیں، اللہ تعالی فرماتا ہے: { وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِيْعًا وَلا تَفَرَّقُوا وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوْبِكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ إِخْوَاناً وَكُنْتُمْ عَلَى شَفَا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ فَأَنْقَذَكُمْ مِنْهَا كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَكُمْ اٰيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ} [ آل عمران: ٣/ ١٠٣] ' تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو، اور فرقوں میں مت بٹو، اور اپنے اوپر کی ہوئی اللہ کی نعمت کو یاد کرو کہ جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے پھر اس نے تمہارے دلوں میں محبت ڈال دی اور تم اس کے فضل و کرم سے بھائی بھائی بن گئے، اور( یاد کرو جب) جہنم کے گڑھے کے کنارے پر پہنچ چکے تھے تو اس نے تمہیں اس سے بچا لیا، اسی طرح اللہ رب العالمین تمہارے لئے اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان کرتا ہے، تاکہ تم ہدایت پا جاؤ ۔
اور شاعر کا قول:
               متحد  ہو  تو  بدل  ڈالو  نظام  گلشن
               منتشر ہو تو مرو شور مچاتے کیوں ہو  (اقبال)

4: تعاون اور خیر خواہی

کسی بھی معاشرہ کی اصلاح کے لئے ایک اہم اور بنیادی سبب آپسی تعاون اور خیر خواہی بھی ہے، جیسا کہ اللہ عزوجل فرماتا ہے: { وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ} [ المائدة: ٥/ ٢] ' تم  نیکی اور تقوی کی بنیاد پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ و زیادتی پر ایک دوسرے کی مدد نہ کرو' 
چنانچہ اولین اسلامی معاشرے کے لوگ ایک دوسرے کی نیکی اور تقوی کی بنیاد پر مدد کرنے لگے اور ایسی مدد کہ قیامت تک اس جیسی مثالیں پیش کرنا ممکن نہیں ہے، اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { مثل المؤمنين في توادهم وتراحمهم وتعاطفهم مثل الجسد الواحد إذا اشتكى منه عضو تداعى له سائر الجسد بالسهر والحمى} [ صحيح مسلم: ٢٥٨٦] ' مومنوں کی مثال آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ محبت کرنے، ایک دوسرے پر ترس کھانے، اور ایک دوسرے پر شفقت کرنے میں ایک جسم کے مانند ہے کہ جب اس کا ایک عضو بیمار ہوتا ہے تو سارا جسم اس کے لئے بخار  کے ساتھ تڑپ اٹھتا ہے اور اس کی وجہ سے بیدار رہتا ہے' 
اور دوسری جگہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:  { المسلم أخو المسلم لا يظلمه ولا يسلمه ومن كان في حاجة أخيه كان الله في حاجته} [ صحيح البخاري : ٢٤٤٢]' مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہے، وہ نہ تو اپنے مسلمان بھائی پر ظلم کرتا ہے اور نہ ہی اسے ظالموں کے حوالے کرتا ہے، اور جو شخص اپنے بھائی کی ضرورت کو پورا کرنے میں لگا رہتا ہے، اللہ رب العالمین اس کی ضرورت کو پورا کرتا رہتا ہے' ۔

5: عفت و پاکدامنی 

اسلامی معاشرہ کی صالحیت کو برقرار رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ اس میں رہنے والے لوگ ایک دوسرے کی عزت و عصمت کے محافظ ہوں، وہ کسی کی ماں، بہن، اور بیٹی کی طرف غلط نظروں سے نہ دیکھیں، بلکہ وہ ہر غیر محرم عورت سے اپنی نظریں جھکائے رکھیں، کیونکہ اللہ رب العالمین کا یہی حکم ہے: { قُلْ لِلْمُؤْمِنِيْنَ يَغُضُّوْا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوْا فُرُوْجَهُمْ ذٰلِكَ أَزْكَى لَهُمْ} [ النور: ٢٤/ ٣٠] ' آپ مومنوں کو حکم دیجئے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں، اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، یہ ان کے لئے زیادہ پاکیزگی کا باعث ہے' اسی طرح جو لوگ معاشرے کی صالحیت کو داغدار کرتے ہیں  ایسے لوگوں کے لئے سخت وعید سناتے ہوئے اللہ عزوجل کا فرمان آیا : { إِنَّ الَّذِيْنَ يُحِبُّوْنَ أَنْ تَشِيْعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِيْنَ آمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيْمٌ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَاللّٰهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ} [ النور: ٢٤/ ١٩] ' جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ایمان والوں میں بے حیائی پھیل جائے ان کے لئے یقینا دنیا و آخرت میں دردناک عذاب ہے، اور اللہ رب العالمین کو سب کچھ معلوم ہے حالانکہ تم نہیں جانتے'

6: امر بالمعروف و نہی عن المنکر

 اصلاح معاشرہ کے لئے بنیادی اور اہم ضرورت امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا فریضہ انجام دینا بھی ہے اور اس چیز کا ہمیں حکم بھی دیا گیا ہے، اللہ رب العالمین نے ارشاد فرمایا: { كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرْ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ} [ آل عمران: ٣/ ١١٠] ' تم بہترین امت ہو، جسے لوگوں کے لئے پیدا کیا گیا ہے، تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو، اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو ' 
                اس لئے اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ امن و سلامتی کا گہوارہ بن جائے، تو ہمیں امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا فریضہ انجام دینا ہوگا ۔
قارئین کرام ! اس کے علاوہ اور بھی بہت سے امور ہیں جو اصلاح معاشرہ کے لئے کارگر ہیں، جسے ہم نے مضمون کی طوالت کے ڈر سے تحریر نہیں کیا. 
 اخیر میں اللہ رب العالمین سے دعا ہے کہ وہ ہمارے گناہوں کو معاف فرمائے اور ہمیشہ ہمیں صراط مستقیم پر قائم رکھے.
( آمین) 


       🖊
       راضی 

 

کیا دیوالی کی مبارک باد دینا اور اس کی مٹھائیاں کھانا صحیح ہے

دیوالی کی مٹھائی سوال : کیا دیوالی کی مبارک باد دینا اور اس کی مٹھائیاں کھانا صحیح ہے ؟ جواب : اگر دیوالی منانا صحیح ہے تو اس کی مبارک باد ...