پیر، 29 اپریل، 2024

امہات المؤمنین کے گھروں کی عظمت



الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده، وبعد! 


 ازواجِ مطہرات - رضی اللہ عنھن اجمعین - کو اللہ تعالیٰ نے جن فضیلتوں، مقام عالی اور رتبۂ بلند سے نوازا ہے ان تک کوئی دوسری عورت نہیں پہنچ سکتی ہے۔ 


مولانا سید سلیمان سلمان منصور پوری (ت 1930م) رحمہ اللہ نے ( رحمۃ للعالمین: 2/164 ) میں اس بارے میں گفتگو فرمائی ہے جسے میں قدرے تصرف سے نقل کر رہا ہوں، فرماتے ہیں: 

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿يَانِسَاءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِنَ النِّسَاءِ﴾ (الأحزاب: 32).

آیت میں ﴿ٱلنِّسَاءِ﴾ یعنی جنسِ انوثیت کا ہر ایک فرد شامل ہے، کوئی عورت اس سے باہر نہیں ہے۔ مزید دلچسپ بات یہ ہے کہ آیت میں لفظِ ( أحد ) نفی کے سیاق میں نکرہ واقع ہوا ہے، جس سے نفی بدرجۂ اتم ہوتی ہے، جیساکہ رب العالمین نے اپنے تعارف میں کہا: ﴿وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ﴾ ( الإخلاص: 4).


 ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنھن اجمعین علم وعمل میں، ایمان میں، عبادات میں، حسنِ سلوک ومعاملات میں، دیگر سبھی ایمان کے شعبوں میں خصوصًا خواتینِ اسلام کے لیے نمونہ ہیں۔


 امھات المؤمنین کی سادگی، قناعت اور کفایت شعاری بھی خواتینِ اسلام کے لیے ایک مثالی نمونہ ہے۔ 


ازواجِ مطہرات کے لیے عمومی شرف یہ تھا کہ وہ مسلم خاتون ہیں، وہ صحابیہ ہیں، اور ایک خصوصی شرف یہ بھی کہ وہ زوجۂ رسول ﷺ ہیں، یوں وہ ام المؤمنین ہیں، یہی ان کے لیے سب کچھ تھا۔


ازواجِ مطہرات کے پاس سید ولد آدم کی بیوی بننے کا معنی ومطلب؛ بنگلہ، ایک سے زائد گھر، نوکر چاکر، دنیاوی چمک دمک، مال ومتاع کی کثرت، گھر میں ہمہ وقت انواع واقسام کی مطعومات کا ہونا؛ نہیں تھا۔ 


 قابلِ غور پہلو : 


ازواجِ مطہرات گھریلو اور خاندانی اعتبار سے غریب، نادار ومفلس، یا یتیمی کی منزل طے کرکے نہیں آئی تھیں، بلکہ یہ سب اونچے گھرانوں، معزز خاندانوں، اور رؤساءِ قوم کی بیٹیاں تھیں۔ 


ام المؤمنین خدیجہ فی نفسہ مال دار عورت۔

عائشہ؛ رسول اللہ ﷺ کے بعد قریشِ مکہ کے سب سے عظیم، نجیب ونبیل اور نہایت مالدار انسان صدیق اکبر کی دختر تھیں۔ 

صفیہ اور جویریہ اپنے اپنے رئیسِ قبیلہ کی دختران تھیں۔ 

سودہ، ام سلمہ حفصہ، میمونہ، زینب وغیرہ کے نکاح میں متنوع فوائد بیان کی جاتی ہیں، ان سب فوائد کے علاوہ یہ سب محترم، باعزت، اور معاشرے کے سرکردہ شخصیات کے گھرانوں سے آپ ﷺ کی زوجیت میں آئی تھیں۔


خلاصۂ کلام یہ ہے کہ ازواجِ مطہرات نے باوجود مال ودولت، رئاست، سماجی اثر ورسوخ، اور زندگی میں درجۂ تحسینات پاکر بھی اللہ تعالیٰ پر ایمان کے بعد رسول اللہ ﷺ کی زوجیت ہی کو مقامِ رفیع جانا تھا۔ رضي الله عنهن أجمعين.


الجزاء من جنس العمل : 


ازواجِ مطہرات نے رسول ﷺ کی طرف سے ملے معمولی ( گھر ) میں رہنے کو شرف سمجھا، کبھی زبان پر حرفِ شکایت نہیں لائیں، دل بھی صاف تھے، اللہ تعالیٰ نے جہاں ان ازواجِ مطہرات کو عزت دی، شرف بخشا، وہیں ان کے گھروں کو اپنے عظیم آخری کلام قرآن میں بار بار ذکر فرماکر نمایاں کیا، فضیلت بخشی۔ 


اللہ تعالیٰ نے ازواجِ مطہرات کے مساکن سے موسوم ( سورۃ الحجرات ) ایک سورت ہی نازل فرمادی۔ 


اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿إِنَّ الَّذِينَ يُنَادُونَكَ مِنْ وَرَاءِ الْحُجُرَاتِ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ﴾ ( الحجرات: 4).


آیتِ بالا میں بھلے ہی لفظ ( الحجرات ) کو بغیر اضافت کے ذکر کیا گیا ہے، مگر باتفاق اہلِ علم یہ رسول اللہ ﷺ کے گھر ہیں۔ 


امام ابو جعفر الطبری (ت 310ھ) رحمہ اللہ آیت کی تفسیر میں ( جامع البيان عن تأويل آي القرآن: ٢٤/٣٦٢ ) کہتے ہیں: 

 إِنَّ الذين ينادونكَ يا محمدُ مِنْ وراءِ حُجُراتكَ.


 ایک وضاحت: 


ان با برکت گھرانوں کی نسبت کبھی رسول ﷺ کی طرف کی گئی تو کبھی ازواجِ مطہرات کی طرف ہوئی ہے۔ 


اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ﴾ (الأحزاب: 33)، اس کے بعد والی آیتِ کریمہ میں فرمایا: ﴿وَاذْكُرْنَ مَا يُتْلَى فِي بُيُوتِكُنَّ مِنْ آيَاتِ اللهِ وَالْحِكْمَةِ﴾ (الأحزاب: 34)


اسی ( سورۂ احزاب ) میں چند آیات بعد اللہ تعالٰی نے ان گھروں کی اضافت بطورِ شرف وتکریم رسول اللہ ﷺ کی طرف فرمائی، کہا: ﴿يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ﴾ (الأحزاب: 53).


ان گھرانوں کی نسبت ایک مرتبہ ازواجِ مطہرات کی طرف، اور ایک بار رسول اللہ ﷺ کی طرف مضاف فرمایا گیا، اس میں ایک خوبصورت راز ہے۔ 


مولانا سید سلیمان سلمان منصور پوری رحمہ اللہ ( رحمۃ للعالمین: 2/169 ) کے الفاظ میں: 

 یہ امر اتحادِ زوجین طیبین پر دلیلِ صریح ہے .


 فائدہ :


ازواجِ مطہرات کی زندگی نہایت سادگی سے گذری ہے، یہ عالی مقام اور محترم ( حجرات ) بھی دلیل ہیں کہ کس درجہ کی کفایت شعاری ان ازواجِ مطہرات کا شعار رہا ہے۔ 


علامہ ابو الحسن علی بن عبد اللہ (ت 911ھ) رحمہ اللہ جو علمی دنیا میں ( السَّمهودي ) سے معروف ہیں، آپ ( سمھود، مصر ) سے تعلق رکھتے ہیں، 873ھ میں مدینہ نبویہ تشریف لائے، وہیں وفات پائی۔


مدینہ نبویہ میں رہ کر رسول اللہ ﷺ کے شہر کی تاریخ ( وفاء الوفاء بأخبار دار المصطفى ) مرتب فرمائی۔ 

کتابِ ہٰذا میں چوتھے باب کی ( نوویں فصل ) رسول اللہ ﷺ کے حجرے سے متعلق عقد کی گئی ہے۔ جس کا خلاصہ درجِ ذیل سطور میں ذکر کیا جا رہا ہے۔


ازواجِ مطہرات کی وفات کے بعد تقریبًا ابو العباس ولید بن عبد الملک (ت 96ھ) رحمہ اللہ کے زمانے میں مسجدِ نبوی کی توسیع کی غرض سے مہبطِ وحی الٰہی سے متصف ان گھرانوں کو منہدم کر دیا گیا۔ 


اس انہدامی کارروائی سے بعض سلفِ صالحین نے اس پہلو سے دکھ کا اظہار فرمایا کہ اگر ان گھروں کو یوں ہی رہنے دیا جائے تو امتِ مسلمہ کے لیے یہ ( گھر ) وعظ ونصیحت کا کام کرتے، لوگ دیکھتے کہ رسول اللہ ﷺ اور آپ کی ازواجِ مطہرات کس قدر قناعت پسند تھے۔ 


امام عطاء بن ابو مسلم خراسانی  (ت 135ھ) رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے امام  سعید بن مسیب مخزومی  (ت بعد 90ھ) سے یہ کہتے ہوئے سنا؛ آپ فرما رہے تھے: واللّٰه لو وددت أنهم تركوها على حالها ينشأ ناشئٌ من المدينة، ويقدم قادم من الآفاق فيرى ما اكتفى به رسولُ اللّٰه ﷺ في حياته، فيكون ذلك مما يزهد الناس في التكاثر والتفاخر فيها.

(  وفاء الوفاء بأخبار دار المصطفى : ٢/٢٢٧ )


رات کی ان آخری ساعتوں میں ربِ ذو الجلال سے دعاء ہے کہ ہماری موت تک ہمیں اپنے گھر والوں کے ساتھ اپنا پسندیدہ دین ( اسلام ) پر قائم رکھے، اپنا مطیع بنائے، اور اسی اطاعت کے سبب اپنے فضل وکرم سے اپنی ابدی جنت میں ایک ساتھ رکھے۔ 



ہفتہ، 27 اپریل، 2024

کیا تراویح، تہجد، قیام اللیل اور صلاۃ اللیل ایک ہی نماز ہے یا الگ الگ نماز ہے؟؟



             بعض حضرات کہتے ہیں کہ تراویح اور تہجد میں زمین وآسمان کا فرق ہے، تراویح عشاء کی نماز کے فورا بعد ادا کی جاتی ہے جبکہ تہجد نیند سے اٹھ کر رات کے کسی حصے میں ادا کی جاتی ہے. 

1- یہ تفریق بالکلیہ صحیح نہیں، یہ تمام نام ایک ہی نماز کا ہے جسے ہم رمضان میں تراویح کے نام سے جانتے ہیں، اور یہی تہجد یا قیام اللیل ہے۔ 


2- اگر کوئی یہ کہے کہ مختلف اور متعدد نام متعدد نماز پر دلالت کرتے ہیں، تو یہ منطق سرے سے بےکار ہے، کیوں کہ فجر کی نماز کو صلاۃ الفجر، صلاۃ الصبح، صلاۃ الغداۃ اور قرآن الفجر کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، اس کا مطلب یہ نہیں کہ فجر کے وقت چار نمازیں ہیں۔


3- اگر یہ نمازیں مختلف ہیں تو ضروری ہے کہ ان نمازوں کی رکعات، ہیئات اور اوقات کی تفصیل کتاب وسنت میں موجود ہوگی، آپ تلاش بسیار کے باوجود رات میں 11 رکعت سے زیادہ نہیں پائیں گے، کیوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس سے زیادہ نہیں پڑھا کرتے تھے، چنانچہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ تراویح بیس رکعت ہے اور تہجد آٹھ رکعت تو ان کے اوپر یہ لازم ہوتا ہے کہ وہ یہ ثابت کریں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک رات میں 20 رکعت تراویح ، 8 رکعت تہجد، اور 3 رکعت وتر ادا کرتے تھے، جو کہ کل ملا کر 31 رکعات ہوتی ہیں۔


4- اور اگر یہ کہا جائے کہ رمضان میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیس پڑھتے تھے اور دیگر مہینوں میں آٹھ پڑھتے تو یہ بھی صحیح نہیں، کیوں کہ اگر تراویح تہجد سے منفرد اور الگ نماز ہے جیسا کہ کچھ حضرات کہتے ہیں، تو پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے تہجد کا پڑھنا بھی ضروری تھا کیوں کہ نبی پر تہجد فرض تھی، تراویح کافی نہیں ہوتی، تو اس طرح ایک رات میں مع وتر 31 رکعت ہوتی ہے جسے آج تک کوئی بھی ثابت نہیں کر پائے۔

 5- کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ حرم میں تراویح الگ ہوتی ہے جبکہ قیام اللیل یا تہجد آخری رات میں ہوتی ہے۔

سب سے پہلی : بات یہ کہ اللہ رب العالمین نے ہماری ہدایت کیلئے کتاب وسنت کو نازل کیا ہے نہ کہ حرمین کو، اس لئے کسی جگہ، یاشخص کی دلیل کسی شرعی عمل کو ثابت کرنے کیلئے ناکافی ہے، بلکہ کتاب وسنت کے دلائل سے ہی کوئی شرعی عمل ثابت ہوگا۔

دوسری بات :  یہ کہ حرم میں تراویح کے ساتھ قیام اللیل کا اہتمام صرف رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں کیا جاتا ہے، اور یہ بات کسی پر مخفی نہیں کہ قیام اللیل سال کے بارہ مہینے کی ہر رات میں بلا استثناء مسنون ہے، تو پھر رمضان کی بقیہ پچیس راتوں میں حرمین میں تراویح کے ساتھ قیام اللیل کا اہتمام کیوں نہیں ہوتا؟ 

تیسری بات :  یہ کہ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم ماہ رمضان میں تراویح کے ساتھ قیام اللیل کا بھی اہتمام کرتے تھے؟  

یا اگر پورے مہینہ نہیں کرتے تھے تو کم از کم آخری عشرہ کی طاق راتوں میں کرنے کی دلیل موجود ہوگی؟ 

جب دونوں صورتوں کی دلیل رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے موجود نہیں ہے تو پھر کس بنیاد پر دونوں کے درمیان تفریق روا ہو سکتی ہے۔


اس لئے اس قسم کے مغالطے میں پڑنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے، کیوں کہ کچھ لوگ تراویح کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیس رکعات ثابت کرنے کیلئے اس قسم کی رکیک اور بے کار تاویل کرتے ہیں، جن کی ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ہوتی، بس عوام کو دھوکے میں رکھنا مقصود ہوتا ہے ۔

اللہ ہم سبھوں کو ہدایت عطا فرمائے، اور صراط مستقیم پر قائم ودائم رکھے۔




                               📝

                ابو احمد کلیم الدین یوسف 

                جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ 

بدھ، 17 اپریل، 2024

روزے کی فضیلت اور نہ رکھنے پر وعید



 روزے کی فضیلت اور نہ رکھنے پر وعید


پچھلی گفتگو میں ہم نے اخلاص سلامت صدر توبہ دعا کا تذکرہ کیا رمضان المبارک سے پہلے ان کاموں کو مضبوطی سے اختیار کرنا چاہئے جوں ہی رمضان المبارک کا مہینہ شروع ہو ایک مسلمان کو مزید نیک کام کرنے چاہئے 

اب آئیے ہم  رمضان المبارک کے مہینے اور روزے کی فضیلت کو جانتے ہیں 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو جو سکھایا اور سمجھایا اور اس کی روشنی میں انہوں نے اپنی زندگی گزاری


 من صام رمضان وقامه إيمانًا واحتسابًا غفر له ما تقدم من ذنبه

 وفی روایة اخری

 من قام رمضان إيمانًا واحتسابًا غُفر له ما تقدَّم من ذنبه

 (متفق علیہ)


جو شخص روزہ رکھتا ہے اور پھر قیام کرتا ہے اس کا مقصد یہ ہو کہ وہ اللہ پر ایمان لاتے ہوئے اس نیت سے روزہ رکھے کہ یہ اسلام کے ارکان میں سے ہے عبادت ہے اور اللہ نے مجھ پر فرض کیا ہے اور اجر کی امید سے یہ کام کرتا ہو خواہ وہ روزہ رکھے یا قیام کرے اللہ تعالی اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیتے ہیں مگر نیت شرط ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی لئے فرمایا تھا حضرت ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں 


 ربَّ صائمٍ ليسَ لَه من صيامِه إلَّا الجوعُ وربَّ قائمٍ ليسَ لَه من قيامِه إلَّا السَّهرُ


کچھ روزے دار ایسے ہوتے ہیں جن کے حصے میں صرف یہی چیز آتی ہے کہ وہ بھوکا تھا اسے کچھ نہیں ملتا اجر و ثواب سے دور رہتا ہے کتنے تہجد پڑھنے والے کتنے تراویح پڑھنے والے ان کے حصوں میں اجر و ثواب نہیں آتا بس انہوں نے اپنی رات خراب کی سوئے نہیں کیوں ایسا ہوتا ہے اگر اللہ کی رضا کے لئے روزہ نہیں قیام نہیں تو قبول نہیں سنت کے مطابق نہیں پھر بھی قبول نہیں بھوکا رہنا کوئی کمال نہیں رات کو بیدار رہنا کمال نہیں ہے کمال اس وقت ہے جب اللہ کے لئے کیا جائے سنت کے مطابق کیا جائے


 إِنَّ اللّٰہَ لَا یَقْبَلُ مِنَ الْعَمَلِ إِلَّا مَا کَانَ لَہٗ خَالِصًا وَابْتُغِیَ بِہِ وَجْہُہٗ 

 (نسائی)


عبادت اتنی حساس ہے کہ اگر 99 فیصد اللہ کے لئے عبادت کی ہو اور ایک فیصد لوگوں کے لئے کہ لوگ بھی واہ واہ کریں تو اللہ رب العالمین قیامت کو فرمائیں گے  ترکتہ وشرکہ  میں نے اپنی 99 فیصد بھی چھوڑے جس کے لئے تم نے ایک فیصد عبادت کی تھی  فلیطلب ثوابہ من عندی

آج بدلہ اسی سے جا کر لے لو اخلاص یہ ہے کیا 

 ان لا تطلب لعملک شاھدا غیر اللہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا 

 قَدْ جَاءَ کُمْ رَمَضَانُ ،شَھْرٌ مُّبَارَکٌ، اِفْتَرَضَ اللّٰہُ عَلَیْکُمْ صِیَامَہُ، تُفْتَحُ فِیْہِ اَبْوَابُ الْجَنَّۃِ وَ تُغْلَقُ فِیْہِ اَبْوَابُ الْجَحِیْمِ وَ تُغَلُّ فِیْہِ الشَّیَاطِیْنِ فیْہِ لَیْلَۃٌ خَیْرٌ مِّن اَلْفِ شَھْرٍ،مَنْ حُرِمَ خَیْرَھَا فَقَدْ حُرِمَ (مسند احمد


رمضان المبارک کا مہینہ آگیا ہے اور یہ بہت برکتوں والا مہینہ ہے اللہ تعالی نے تم پر اس مہینے کے روزے کو فرض قرار دیا ہے اس مہینے میں جنت کے دروازوں کو کھول دیا جاتا ہے اور جہنم کے دروازوں کو بند کر دیا جاتا ہے اور شیطانوں کو قید کر دیا جاتا ہے اس مہینے میں ایک ایسی برکتوں والی رات ہے جو ہزار مہینے سے افضل ہے لیلۃ القدر کی برکتوں سے جو محروم کر دیا گیا اس سے بڑا کوئی محروم نہیں روزے کا صرف یہ مطلب نہیں کہ انسان بھوک پیاس برداشت کرے 


 قال جابر بن عبد الله -رضي الله عنه-: "إذا صمت فليصم سمعك وبصرك ولسانك عن الكذب والمحارم

 أخرجه ابن أبي شيبة في "المصنف"، والحاكم في "معرفة علوم الحديث"، والبيهقي في "شعب الإيمان"، وابن المبارك في "الزهد والرقائق".


حضرت جابر بن عبد اللہ سے روایت ہے جب تم روزہ رکھو تو تمہارے کانوں کا بھی روزہ ہونا چاہئے گانے نہ سنو بری باتیں نہ سنو آنکھ کا بھی روزہ رکھو حلال چیز دیکھو حرام سے بچو یہ مبارک مہینہ ہے اپنے آپ کو اللہ کے حوالے کرو زبان کا بھی روزہ رکھو گالی نہ دو غیبت نہ کرو اس سے اچھی باتیں کہو اس لئے کہ 

 مَنْ لَمْ يَدَعْ قَوْلَ الزُّورِ وَالعَمَلَ بِهِ، فَلَيْسَ لِلَّهِ حَاجَةٌ فِي أَنْ يَدَعَ طَعَامَهُ وَشَرَابَهُ 

أخرجه الإمام البخاری

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اگر کوئی شخص جھوٹ بولنا اور دغا بازی کرنا (روزے رکھ کر بھی) نہ چھوڑے تو اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے

 وعن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وسلم قال:

 من صام رمضان وعرف حدوده، وتحفظ مما كان ينبغي أن يتحفظ منه كفر ما قبله

 رواه أحمد، والبيهقي، بسند جيد.


جو رمضان المبارک کے روزے رکھتا ہے اور اس کے حدود و قیود کو جانتا ہے اور حسب توفیق اس کی حفاظت کرتا ہے اس بندے کے سارے گناہ کو معاف کر دیا جاتا ہے.


اور جو روزہ نہیں رکھتا اس کے بارے میں کہا گیا ہے وہ یہ نہ سمجھے مجھے کسی اجر کی کسی مفتی کے فتوے کا فائدہ ملے گا 


قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم

 بینا انا نائم اتانی رجلان فاخذا بضبعی فاتیا بى جبلا وعرا فقالا اصعد فقلت انی لا اطیقه فقال انا سنسھله لک فصعدت حتی اذا کنت فی سواء الجبل اذا باصوات شدیدۃ فقلت ما ھذہ الاصوات قالوا عواہ اہل النار ثم انطلق بی فاذا انا بقوم معلقین بعراقیھم مشققة اشداقھم تسیل اشداقھم دما قال قلت من ھؤلاء قال الذین یفطرون قبل تحلة صومھم

(صحیح الترغیب)


نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں سو رہا تھا اچانک دو آدمی میرے پاس آئے اور میرے بازوؤں کو پکڑ کر اٹھایا اور اک پہاڑ کے پاس لے گئے جس پر چڑھنا میرے لئے دشوار تھا  اور مجھے اس پر چڑھنے کے لئے کہا میں نے کہا میں چڑھ نہیں سکتا انھوں نے کہا آپکے لئے ہم آسان بنا دینگے چنانچہ میں نے اس پہاڑ پر چڑھنا شروع کیا یہاں تک کہ پہاڑ کی چوٹی تک پہنچ گیا وہاں میں نے چیخنے چلانے کی آوازیں سنی میں نے کہا یہ کس کی چیخیں ہیں انھوں نے کہا یہ جہنمیوں کی چیخ وپکار ہیں پھر مجھے اور آگے لے جایا گیا تو میں نے وہاں کچھ لوگوں کو اُلٹا لٹکا ہوا دیکھا جنکی بانچھیں چیر دی گئی تھی اور اس سے خون بہہ رہا تھا میں نے پوچھا یہ کون سے لوگ ہیں جواب ملا یہ وہ لوگ ہیں جو اذان سے پہلے روزہ افطار کرلیا کرتے تھے جو اذان سے پہلے افطار کرتا ہے اسکی سزا یہ ہے تو جو روزہ ہی نہیں رکھتا اسکا کیا ہوگا ؟ ذرا سوچو! 


اور خدا نخواستہ اگر کوئی یہ کہہ دے میں روزہ نہیں رکھوں گا مجھے روزے کی ضرورت نہیں تو ایسا شخص کافر ہو جاتا ہے


مذکورہ بالاحدیث میں روزہ نہ رکھنے والے کو کافر بتایا گیا ہے ، علماء کرام نے اگرچہ اس کافر ہونے کو انکار کرنے کے ساتھ مقید کیا ہے کہ جو روزہ کا انکار کرے وہ مسلمان نہیں رہتا، اور جوشخص بلاعذر اس کو چھوڑ دے وہ کافر نہیں مگر سخت گنہگار اور فاسق ہے ۔لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسے لوگوں کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات بہت سخت ہیں ۔اس لئے فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ سے بہت ڈرنا چاہیے ۔

البتہ اگر شرعی عذر ہو تو مجبوری کی صورت میں رمضان کا روزہ چھوڑنے کی اجازت ہے ، ایسی صورت میں بعد میں قضاء کرنی ہوگی ۔


 اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو روزہ کے فضائل وبرکات حاصل کرنے اور روزہ رکھنے کی توفیق عطا فرمائے اور بغیر عذر روزہ چھوڑنے سے تمام لوگوں بچائے ۔ آمین .




                  📝

   فہمیدہ رحمانی بنت ولی اللہ

منگل، 16 اپریل، 2024

کیا امام بخاری اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہما اللہ نقدی فطرہ نکالنے کے جواز کے قائل تھے؟



بخاری شریف میں باب العض فی الزکوٰۃ میں ہے:

((قال معاذ لاھل الیمن ایتونی بعرض ثیاب خمیص أو لبیس فی الصدقة مکان الشعیر والذرة اھون علیکم وخیر لا صحاب النبی ﷺ))

’’حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اہل یمن کو کہا کہ بجائے جو اور جوار کے باریک کپڑے اور عام پہننے کے کپڑے صدقہ میں ادا کرو یہ تمہارے لیے آسان ہے اور اصحاب رسول کے لے زیادہ فائدہ مند ہے۔‘‘


                                جائزہ 


پہلی بات: یہ اثر ضعیف ہے. 

 دوسری بات: اس میں ایک بہت بڑا علمی مغالطہ ہے، وہ یہ کہ بعض نقدی فطرہ کے قائلین نے اس اثر کی نسبت مطلقاً بخاری شریف کی طرف کی ہے، جس سے تدلیس کی بو آتی ہے، کیوں کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس اثر کو ترجمۃ الباب میں ذکر کیا ہے، صحیح سند کے ساتھ اصل کتاب میں ذکر نہیں کیا ہے، اور امام بخاری رحمہ اللہ عنوان کے طور پر بلا سند جو احادیث ذکر کرتے ان میں صحیح اور ضعیف دونوں قسم کی حدیث ہوتی ہیں. 

تیسری بات: یہ ایک صحابی معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کا اثر ہے، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مقابلے میں آثار صحابہ کو ترجیح نہیں مل سکتی. 

چوتھی بات: امام بخاری رحمہ اللہ نے اس اثر کو کتاب الزکاۃ میں ذکر کیا ہے، صدقہ فطر کے باب میں نہیں، اور جیسا کہ معاذ رضی اللہ عنہ کے اثر سے واضح ہے، کیونکہ اس باب میں یا اس سے قبل یا اس کے بعد امام بخاری رحمہ اللہ نے صدقہ فطر کی حدیث ذکر ہی نہیں کی. 

پانچویں بات: نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن میں زکات کی وصولی کیلئے بھیجا تھا نہ کہ صدقہ فطر کی وصولی کیلئے. 

چھٹی بات: امام بخاری رحمہ اللہ نے صدقہ فطر کیلئے الگ سے باب قائم کیا ہے، چنانچہ فرماتے ہیں: "باب فرض صدقہ الفطر" اور اس باب کے تحت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی صدقہ فطر والی مشہور حدیث ذکر کرتے ہیں. 

ساتویں بات: امام بخاری رحمہ اللہ نے صدقہ فطر کے متعلق صحیح بخاری میں نو ابواب قائم کیا ہے:

"باب فرض صدقة الفطر". 

"باب صدقة الفطر على العبد وغيره من المسلمين". 

" باب صاع من شعير". 

"باب صدقة الفطر صاعا من طعام". 

"باب صدقة الفطر صاعا من تمر". 

"باب صاع من زبيب". 

"باب الصدقة قبل العيد". 

"باب صدقة الفطر على الحر والمملوك". 

"باب صدقة الفطر على الصغير والكبير". 

اور کسی ایک باب میں بھی غلہ کے بدلے قیمت نکالنے کا تذکرہ نہیں کیا ہے. 

خلاصہ کلام یہ کہ نقدی صدقہ فطر نکالنے کے جواز کی نسبت امام بخاری رحمہ اللہ کی طرف کرنا ایک علمی غلطی ہے، اور مغالطہ و تدلیس بھی ہے.


آٹھویں بات: شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کے مذکورہ بالا اثر کے بارے میں کہا ہےکہ معاذ رضی اللہ عنہ نے یہ بات زکات کے مال کے متعلق کہی تھی، اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ جزیہ کے متعلق کہی تھی. 

یعنی مال کے بدلے قیمت نکالنے کی بات یا تو زکات کے سلسلے میں کہی تھی یا پھر جزیہ کے سلسلہ میں. 

اس اثر کا تعلق صدقہ فطر سے بالکل بھی نہیں. 

اب رہی بات شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے قول کی، تو بعض لوگ بڑے دعوے سے لکھتے ہیں کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ صدقہ فطر میں نقدی نکالنے کے جواز کے قائل تھے، لیکن شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے کسی بھی کتاب میں ایسی صراحت نہیں کی ہے جس سے یہ پتہ چلتا ہو کہ وہ صدقہ فطر میں نقدی نکالنے کے جواز کے قائل تھے. 

یہ لوگ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے جس قول کا حوالہ دیتے ہیں در اصل وہ قول زکات المال کے بارے میں، صدقہ فطر کے بارے میں نہیں، اور دونوں کے درمیان زمین و آسمان کا فرق ہے، آئیے سب سے پہلے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا وہ کلام ملاحظہ فرماتے ہیں جس سے نقدی فطرہ کے جواز کے قائلین استدلال کرتے ہیں، تاکہ آپ پر ان کے استدلال کی حقیقت آشکارہ ہو سکے. 


شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا: زکات میں جو لوگ قیمت نکالتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ قیمت فقیروں کیلئے زیادہ مفید ہے، کیا زکات جس مال میں فرض ہوئی ہے اس کے بدلے قیمت نکالنا جائز ہے؟ 

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا جواب اختصار کے ساتھ ملاحظہ فرمائیں:

بلا ضرورت اور بغیر کسی شرعی مصلحت کے زکات کے مال کے بدلے قیمت نکالنا جائز نہیں، یہی وجہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اونٹ کی زکات میں اگر مطلوبہ اونٹ یا بکری نہ ملے تو اس کی جگہ دو بکریاں یا اس کے مساوی قیمت بیس درہم نکالنے کا حکم دیا، مطلقا قیمت نکالنے کو جائز قرار نہیں دیا.... تاہم حاجت اور شرعی مصلحت کی بنا پر زکات کے مال کی جگہ اس کی قیمت نکالنے میں کوئی حرج نہیں، مثال کے طور پر زکات نکالنے والا اپنے باغ کا پھل یا کھیت کا غلہ درہم کے عوض بیچ دے، تو ایسی صورت میں اس کیلئے درہم نکالنا جائز ہوگا، اسی طرح اگر کسی کے پاس پانچ اونٹ ہیں اور اس میں ایک بکری زکات کے طور پر نکالی جاتی ہے، لیکن نہ اس کے پاس کوئی بکریبہے اور نہ ہی کوئی بکری بیچنے والا مل رہا ہے تو ایسی صورت میں بکری کے بدلے درہم نکالنا جائز ہوگا. 

[مجموع الفتاوى (25/ 83)].

سطور بالا سے معلوم یہ ہوا کہ کہ ضرورت و مصلحت کے پیش نظر قیمت نکالنے کی بات شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے زکات میں کی ہے نہ صدقہ فطر میں، چنانچہ جو لوگ اس قول کو صدقہ فطر پر لاگو کرتے ہیں وہ علمی غلطی کے شکار ہیں اور لوگوں کو مغالطہ دے رہے ہیں. 


اب صدقہ فطر کے متعلق شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا موقف ملاحظہ فرمائیں: 

 شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "صدقہ فطر کی ادائیگی اسی طرح کی جائےگی جیسے قسم، ظہار، قتل، رمضان میں روزے کی حالت میں جماع، اور حج کے کفارات کی ادائیگی کی جاتی ہے، ان چیزوں میں کفارہ واجب ہونے کا سبب بدن ہے، اسی طرح صدقہ فطر کے وجوب کا سبب بھی بدن ہے، لہذا ان کفارات کو قیمت کے طور پر ادا کرنا جائز نہی، کیوں کہ اللہ رب العالمین نے فطرہ میں غلہ ہی فرض کیا ہے جیسے کفارہ میں غلہ فرض کیا ہے...... یہ قول دلیل کے اعتبار سے زیادہ قوی ہے.

[مجموع الفتاوى (25/ 73).

نیز شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے صدقہ فطر کے متعلق سوال کیا گیا: کیا کھجور، کشمش، جو، گیہوں اور آٹا صدقہ فطر میں نکالا جا سکتا ہے؟ اور جن قرابت داروں کا نفقہ واجب نہیں کیا انہیں صدقہ فطر دیا جا سکتا ہے؟ اور کیا صدقہ فطر میں غلہ کے بدلے قیمت دینا جائز ہے؟

مذکورہ سوالوں کے جواب میں شیخ الاسلام بن تیمیہ رحمہ اللہ نے غلہ کی کسی بھی قسم سے صدقہ الفطر نکالنے کو جائز قرار دیا، اسی طرح رشتہ دار اگر ضرورت مند ہو تو اسے بھی دیا جا سکتا ہے، لیکن شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے قیمت کے جواز و عدم جواز پر گفتگو ہی نہیں کی.

[مجموع الفتاوى (25/ 69)].


خلاصہ کلام یہ کہ: امام بخاری اور اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہما اللہ سے نقدی نکالنے کا جواز ثابت ہی نہیں، نقدی نکالنے کی جواز کی نسبت ان دونوں علما کی طرف کرنا ایک علمی غلطی ہے. 


 واللہ اعلم 

             📝

ابو احمد کلیم الدین یوسف

جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ 

جمعہ، 12 اپریل، 2024

صدقۃ الفطر میں غلہ یا قیمت؟ ایک تحقیقی جائزہ




صدقۂ فطر کو اصطلاح شرع میں زکوۃ فطر سے بھی تعبیر کیا گیا ہے نیز اسے زکوۃ رمضان زکوۃ صوم اور فطرہ بھی کہتے ہیں۔
 صیام رمضان کے خاتمے پر صدقہ فطر فرض کیا گیا ہے۔ جس کے دو بنیادی مقصد بتائے گئے ہیں۔
1️⃣ *اول* : یہ کہ روزہ کی حالت میں بتقاضائے بشریت اگر غلطی اور گناہ کا ارتکاب ہو گیا ہو تو اس سے ان کی تلافی ہو جائے۔
2️⃣ *دوم* :  یہ کی جو لوگ اپنی ناداری اور مفلسی کی وجہ سے اس عمومی تہوار کی خوشیوں میں شریک ہونے کی طاقت نہیں رکھتے اس صدقہ فطر کے ذریعہ ان کا تعاون کر کے ان کو اس قابل بنا دیا جائے کہ وہ عید کے دن کمانے اور رزق کی جستجو سے بے نیاز ہو کر عید کی خوشی میں شامل ہو سکیں ۔
صدقہ فطر قرآن و سنت اجماع امت کی دلیل سے واجب ہے۔ نیز اس کی مقدار صحیح حدیث کی روشنی میں ایک صاع غلہ بتائی گئی ہے۔ جیسا کہ ابو سعید خدری اور  عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کی روایت سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے روایت ملاحظہ ہو : 
⏺️ عن أبي سعيدٍ الخدريِّ قالَ كنّا نخرجُ إذ كانَ فينا رسولُ اللَّهِ ﷺ زَكاةَ الفطرِ عن كلِّ صغيرٍ وَكبيرٍ حرٍّ أو مملوكٍ صاعًا من طعامٍ أو صاعًا من أقطٍ أو صاعًا من شعيرٍ أو صاعًا من تمرٍ أو صاعًا من زبيبٍ فلم نزل نخرجُهُ حتّى قدمَ معاويةُ حاجًّا أو معتمرًا فَكلَّمَ النّاسَ على المنبرِ فَكانَ فيما كلَّمَ بِهِ النّاسَ أن قالَ إنِّي أرى أنَّ مدَّينِ من سمراءِ الشّامِ تعدلُ صاعًا من تمرٍ فأخذَ النّاسُ بذلِك. فقالَ أبو سعيدٍ فأمّا أنا فلاَ أزالُ أخرجُهُ أبدًا ما عشت.
• الألباني، صحيح أبي داود (١٦١٦) • صحيح • أخرجه أبو داود (١٦١٦) واللفظ له، وأخرجه مسلم (٩٨٥)۔
⏺️عن سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ : كُنَّا نُخْرِجُ زَكَاةَ الْفِطْرِ صَاعًا مِنْ طَعَامٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ أَقِطٍ ، أَوْ صَاعًا مِنْ زَبِيبٍ. ( صحیح بخاری [1506] صحیح مسلم [985])
⏺️عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ : فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَكَاةَ الْفِطْرِ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ عَلَى الْعَبْدِ وَالْحُرِّ، وَالذَّكَرِ وَالْأُنْثَى، وَالصَّغِيرِ وَالْكَبِيرِ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، وَأَمَرَ بِهَا أَنْ تُؤَدَّى قَبْلَ خُرُوجِ النَّاسِ إِلَى الصَّلَاةِ.
( بخاری [1503])
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی دونوں حدیثوں کا خلاصہ یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہر قسم کے غلہ، جو، کھجور، کشمش اور پنیر سے ایک صاع نکالتے تھے۔
 اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صاع غلہ ، جو اور کھجور زکوۃ فطر میں فرض قرار دیا ہے ۔

  صدقۂ فطر میں قیمت دینا
مندرجہ بالا حدیثوں سے واضح طور سے معلوم ہوا کہ صدقۂ فطر میں اصل غلہ ہے، قیمت نہیں ۔لیکن اگر کوئی غلہ کے عوض قیمت نکالنا چاہے تو کیا صدقۂ فطر ادا ہوگا یا نہیں اس سلسلے میں علماء کرام کا اختلاف ہے ۔
 پہلا قول: 
           زکوۃ فطر میں قیمت دینا جائز ہے یہ قول امام ابو حنیفہ ان کے اصحاب، سفیان  ثوری ،حسن بصری اور عمر بن العزیز کا ہے ۔(المغنی [294/4]،المجموع [71/6]،المحلی [130/6]،مصنف ابن ابی شیبہ [398/2]، فقہ الزکاۃ [948/2])

 دلائل درج ذیل ہیں :
1️⃣ حدیث میں صدقہ فطر کا جو مقصد بیان کیا گیا ہے وہ یہ کہ" طهرة للصائم من اللغو والرفث وطعمة للمساكين" ( ابو داود [1609] باسناد حسن ، الارواء [ 843]) 
 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر روزہ دار کی لغو بات اور فحش گوئی سے روزہ کو پاک کرنے کے لیے اور مساکین کو کھانا کھلانے کے لیے مقرر کیا ہے .
 وجہ استدلال:   یہ ہے صدقہ فطر میں مساکین کو کھانا کھلانا مقصود ہے تو قیمت سے بھی ادائیگی ممکن ہے نیز اپ کا فرمان "اغنوهم عن السؤال هذا اليوم " ( ضعيف ، الارواء 334/3 )  انہیں آج مانگنے سے بے نیاز کر دو یہ بے نیاز کرنا قیمت اور غلہ  دونوں سے حاصل ہو سکتا ہے بلکہ بسا اوقات قیمت غلہ سے افضل بھی ہو جاتی ہے جب فقیر کے پاس غلہ زیادہ اور دیگر سامان کم ہوں ۔( فقہ الزکاۃ 949/2)
اس کا جواب یہ ہے کہ فقیروں اور مسکینوں کو سب سے زیادہ خوراک کی ضرورت پڑتی ہے نیز"أغنوھم ..."والی روایت ضعیف ہے اگر مان بھی لیں تو دونوں حدیثوں "أغنوھم ..."اور " طعمۃ للمساکین "  کو ملانے کے بعد خوراک والا مفہوم قریب تر ہے ۔
2️⃣  ابو اسحاق السبیعی کا قول "أدركتهم وهم يؤدون في صدقة رمضان الدراهم بقيمة الطعام " ( مصنف ابن ابي شيبة [398/2]  میں نے انہیں پایا کہ وہ رمضان کے صدقہ میں غلہ کی قیمت سے دراہم دیتے تھے.
 
اس کا جواب یہ کہ :
⬅️ ابو اسحاق السبیعی مختلط اور مدلس راوی ہیں ( المختلطین ,  [93] جامع التحصیل للعلائی 108/1).
⬅️ ابو اسحاق السبیعی سے روایت کرنے والے زہیر بن معاویہ ہیں جنہوں نے ان سے اختلاط کے بعد سنا ہے ( المختلطین 93)
⬅️ ابو اسحاق السبیعی کا قول" ادرکتہم" سے مراد کون ہیں ؟معلوم نہیں، اگر صحابہ کو مراد لیا جائے تو صحابہ کرام غلہ ہی دیا کرتے تھے جیسا کہ بخاری میں ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی روایت "کنا نخرج"  سے معلوم ہوتا ہے . 

3️⃣عطاء کے بارے میں منقول ہے " أنه كان يعطي في صدقة الفطر ورقا " ( مصنف ابن ابي شيبة [37-4/38]  بحوالة فقه الزكاة [ 949/2] )
* عطاء بن ابی رباح صدقہ فطر میں چاندی دیتے تھے ۔ 
 
اس کا جواب یہ کہ : 
               جب حدیث رسول کے مقابلہ میں صحابی کا قول و فعل حجت نہیں ہے تو پھر تابعی کا قول و فعل کیسے حجت ہو سکتا ہے؟
دوسری بات یہ ہے کہ مصنف ابن ابی شیبہ کا وہ نسخہ جو مکتبۃ الرشد ریاض سے  کمال یوسف کی تحقیق سے [ 398/2 (10372) ] 1409ھ ،نیز دار التاج ، بیروت ، لبنان ط : اول 1409ھ اور ( باب 69 باب في إعطاء الدراهم في زكاة الفكر { حديث 5} 64/3) دارالفکر بیروت لبنان 1414 ہجری میں چھپا ہے اس میں عبارت اس طرح ہے( " عن عطاء أنه كره أن يعطى في صدقة الفطر ورقا " ) یعنی عطاء صدقہ فطر میں چاندی دیے جانے کو ناپسند کرتے تھے ۔
اس سے تو مفہوم بالکل الٹ جائے گا اور یہ عبارت قیمت کے قائلین کے خلاف دلیل بن جائے گی اس لیے قیمت کے قائلین کے لیے ان کا چنداں  مفید نہیں ۔

ان دلائل کے علاوہ قیمت کے قائلین کے مزید کچھ شبہات ہیں مثلا : 
1️⃣ ایک صاع غلہ یا کھجور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بطور کرنسی استعمال ہوتی تھی ۔
جواباً عرض ہے کہ نبی کریمﷺ کے زمانے میں بھی کرنسی تھی، مگر آپ ﷺنے صدقہ فطر کو غلہ کے ساتھ مقید کیا، کرنسی کے ساتھ نہیں۔ معلوم ہوا کہ غلہ و خوراک ہی اصل ہے۔ اگر کرنسی اصل ہوتی تو آپ ﷺ کرنسی کے ساتھ مقید کرتے جیسا کہ بہت ساری چیزوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا اور اگر آپ غلہ کو بھی کرنسی مانتے ہیں تو مانیں، مگر اس کرنسی کو کسی دوسری کرنسی میں تبدیل نہ کریں کیونکہ اسے شریعت نے متعین کیا ہے ۔
2️⃣ ابو سعید خدری اور معاویہ رضی اللہ عنہما کا اختلاف ایک صاع  یا نصف صاع گیہوں دینے کے بارے میں ۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ صحابہ کرام نے قیمت کا اعتبار کیا ۔
اس کا جواب یہ ہے کہ ایک صاع یا نصف صاع گیہوں دینے کے بارے میں اختلاف کے باوجود ان کا غلہ دینے پر اتفاق تھا نہ کہ کرنسی دینے پر۔

 دوسرا قول :  
           جمہور ائمہ امام مالک و شافعی اور امام احمد رحمہ اللہ کا قول ہے کہ صدقہ فطر میں غلہ ہی دیا جائے گا ۔ ( المغنی [295/4]، المجموع [71/6] 
امام احمد رحمہ اللہ نے فرمایا مجھے اندیشہ ہے کہ قیمت دینا کافی نہ ہوگا اور جب ان سے کہا گیا کہ عمر بن عبدالعزیز قیمت قبول کرتے تھے تو انہوں نے فرمایا کہ" *لوگ نبی کا قول چھوڑ دیتے ہیں* " اور" فلاں نے کہا "کہتے ہیں جبکہ ابن عمر کی حدیث میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے غلہ فرض کیا ہے اور اللہ تعالی کا ارشاد ہے{ اطیعوا  اللہ و الرسول}(آل عمران : 32)  مزید فرمایا کہ لوگ فلاں نے کہا ، فلاں نے کہا ، کہہ کر نبی کریم ﷺ کے طریقے کو چھوڑ دیتے ہیں ۔( المغنی 295/4)
امام ابن قدامہ نے فرمایا: کہ جس نے قیمت دی تو کافی نہ ہوگا ( حوالہ مذکور 👆) 
امام نووی نے کہا: ہمارے نزدیک قیمت دینا کافی نہ ہوگا ( المجموع [ 71/6]
امام ابن حزم نے فرمایا : قیمت کفایت نہیں کرے گی ( المحلی 259/4) 
یہاں پر شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ کا قول ذکر کرنا فائدہ سے خالی نہیں ہوگا انہوں نے فرمایا: " ہمارے زمانے میں کچھ لوگ عبادات کو اس کی شرعی حالت سے بدلنے کی کوشش کرتے ہیں جس کی بہت ساری مثالیں ہیں جیسے صدقۂ فطر کو نبی کریمﷺ نے رمضان کے اختتام پر غلہ سے نکالنے کا حکم دیا تو کچھ لوگ غلہ کے بدلے قیمت نکالنے کا فتوی دیتے ہیں ۔یہ عبادت کو اس کی شرعی حالت سے پھیرنا ہے، کیونکہ صدقہ فطر کا ایک خاص وقت ہے اور وہ ہے لیلۃ العید خاص جگہ ہے جہاں پر نکالنے والا موجود ہو ،خاص مصرف ہے اس جگہ کے مساکین ہیں، ایک خاص نوعیت و صفت ہے ،وہ ہے غلہ ۔ تو اس عبادت کو ان تمام شرعی  اعتبارات سے مقید کرنا ضروری ہے ورنہ وہ عبادت نہ تو صحیح ہوگی اور نہ ہی انسان اس سے برئ الذمہ  ہوگا ۔
اسی طرح ظہار، قسم، نہار رمضان میں جماع کے کفارہ اور صدقہ فطر میں غلہ ہی  ہے تو قیمت نکالنے سے وہ ادا نہ ہوگا کیونکہ یہ منصوص عبادت کو اس کی شرعی کیفیت سے بدلنا ہے جو کہ جائز نہیں ہے۔
 اس بات کو علامہ نے مزید مثالوں اور دلیلوں سے واضح کیا مثلا ہدی، قربانی اور عقیقہ کے بدلے صدقہ کرنا یا ہدی و اضاحی  میں سے غریبوں اور مسکینوں کو نہ کھلا کر اس کی قیمت دینا یہ سب درست نہیں ہے۔ 
رہی بات غریبوں اور مسکینوں کے تعاون کی ،تو ان کی مدد کی جائے نقود کپڑوں اور خوراک کے ذریعہ ،مگر شرعی عبادات کو اس کے وقت اور مکان سے بدلنا جائز نہیں ۔ ( تلخیص: الخطب المنبریہ [ 495-2/496] ۔
 
راجح قول:  صدقۂ فطر میں وہی غلہ دیا جائے جو عام طور پر لوگوں کی خوراک ہو یہی راجح ہے ترجیح کے اسباب مندرجہ زیل ہیں : 
1️⃣ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے زکوۃ فطر میں غلہ ہی فرض کیا ہے جیسا کہ بخاری مسلم اور دیگر کتب حدیث میں ابو سعید خدری اور عبداللہ بن عمر کی روایتیں موجود ہیں ۔
2️⃣ دراہم و دنانیر  عہد نبوی میں بھی موجود تھے پھر بھی آپ ﷺ نے صدقہ فطر کو ایک صاع غلہ  کے ساتھ مقید کیا جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ غلہ ہی صدقہ فطر میں اصل ہے ۔ 
3️⃣ صدقہ فطر متعینہ جنس کی شکل میں فرض شدہ عبادت ہے تو دوسری جنس (نقود وغیرہ) سے نکالنا کافی نہ ہوگا . ( مجالس شہر رمضان 28) 
4️⃣ صدقۂ فطر میں خوراک کے بدلے قیمت نکالنے سے ظاہری شعار کے بجائے پوشیدہ صدقہ بن جاتا ہے (مجالس شہر رمضان 28)
5️⃣ صدقۂ فطر کو مسکینوں کی خوراک بتایا گیا ہے تو خوراک ہی دیا جائے اگر خوراک کے بجائے قیمت دی گئی تو ممکن ہے کہ لینے والا کوئی اور سامان خرید لے جس سے امر تعبدی حاصل نہ ہو ۔
6️⃣ صدقۂ فطر میں اگر قیمت دی جائے تو کس جنس کی ؟کھجور کی ؟یا جو کی؟ کشمش کی یا پنیر کی ؟
اگر جو کی قیمت دی گئی اور لینے والے نے پنیر یا کھجور خرید لیا تو ظاہر سی بات ہے ایک صاع سے کم پائے گا اور صدقہ فطر ایک صاع متعین ہے۔ جب ایک صاع سے کم ہوا تو صدقہ فطر ادا نہ ہوگا ۔کیونکہ عہد رسالت میں بھی مذکورہ اجناس کی قیمت یکساں نہیں تھی جیسا کہ آج بھی یکساں نہیں ہے۔ خود کھجور کی مختلف قسمیں ہیں جن کی قیمتوں میں بہت فرق ہے تو کون سی کھجور کی قیمت دی جائے ؟یا دیگر سامان مثلا کپڑا وغیرہ خرید لیا اور تو غلہ نہ ہوا اور صدقہ فطر میں غلہ ہی مطلوب ہے۔
علامہ البانی رحمہ اللہ کا قول بھی یہی ہے کہ صدقہ فطر میں غلہ ہی دیا جائے چنانچہ انہوں نے قیمت دینے والوں پر نقد کرتے ہوئے فرمایا کہ قیمت دینا شارع  پر تہمت لگانا ہے اور یہ بتانا ہے کہ ان کی شریعت نبی ﷺکی شریعت سے زیادہ بہتر اور فقیر و مسکین کے لیے زیادہ سود مند ہے۔ اگر یہ مقصد ہو تو کفر ہے۔ جبکہ ان کا یہ مقصد ہرگز نہیں ہے۔ لیکن غفلت کی وجہ سے اس طرح کی غلط باتیں کرتے ہیں ۔بہرحال صدقہ فطر میں وہی چیزیں نکالنا جائز ہیں جو شارع نے نصا  بیان کیا ہے اور وہ غلہ ہی ہے ۔ ( مستفاد : جامع تراث العلامہ الالبانی فی الفقہ [ 595/10] 
ان تمام وجوہات کی بنا پر شبہات سے احتراز  کرتے ہوئے صدقہ فطر میں غلہ ہی نکالا جائے کیونکہ حکم رسول بھی وہی ہے اور یقینی بھی وہی ۔ قیمت دینا  کم از کم شک و شبہ سے خالی نہیں ہے ۔۔ واللہ اعلم




   
                                  📝
 فضیلۃ الشیخ رفیع الدین نجم الدین الریاضی حفظہ اللہ
استاذ : جامعہ اسلامیہ دریاباد

کیا دیوالی کی مبارک باد دینا اور اس کی مٹھائیاں کھانا صحیح ہے

دیوالی کی مٹھائی سوال : کیا دیوالی کی مبارک باد دینا اور اس کی مٹھائیاں کھانا صحیح ہے ؟ جواب : اگر دیوالی منانا صحیح ہے تو اس کی مبارک باد ...