پیر، 20 مئی، 2024

نامۂ اعمال لپیٹ دیے جانے سے پہلے عمل کر لیں



  بشر بن عبد اللہ بیان کرتے ہیں: کہ ابو بکر نہشلی رحمہ اللہ جب وفات کے بالکل قریب تھے ہم ان کے پاس گئے، وہ اپنے سر کو اشارے سے اوپر نیچے کر رہے تھے جیسے نماز ادا کر رہے ہوں، ان کے ساتھیوں میں سے کسی نے کہا : اللہ آپ پر رحم کرے! اس حالت میں بھی؟ تو انہوں نے جواب دیا : میں اپنے نامۂ اعمال کے بند ہونے سے پہلے جلدی (جلدی مزید نیک عمل) کرنا چاہ رہا ہوں ۔ (الزهد لابن أبي الدنيا : ٦١

  ابو محمد جریری بیان کرتے ہیں: کہ میں جنید رحمہ اللہ کی وفات کے وقت ان کے سر کے قریب کھڑا تھا، جمعہ کا دن تھا اور وہ قرآن کی تلاوت کیے جا رہے تھے، میں نے کہا : ابو القاسم! اپنی جان کو کچھ سکون دیجیے ۔ تو فرمانے لگے : ’’میرے خیال میں اس وقت مجھ سے زیادہ اس (نیک عمل) کا محتاج کوئی نہیں ہے، کیوں کہ وہاں میرا نامۂ اعمال لپیٹا جا رہا ہے۔‘‘ (شعب الإيمان للبيهقي : ٤/ ٥٤٢)

بعض روایات کے مطابق آپ نے اسی حالت میں قرآن مجید ختم کر کے سورہ البقرہ شروع کی تھی، ابھی ستر آیات ہوئیں تھیں کہ روح پرواز کر گئی۔ (شذرات الذهب لابن العماد : ٣/ ٤١٨)

     غور کیجئے!  سلف صالحین کس طرح آخری سانس تک اپنے نامہ اعمال میں مزید سے مزید اعمالِ صالحہ کا اضافہ کرنے کی کوشش میں لگے رہتے تھے، جبکہ ہم دن رات فضولیات، غیر مفید اور بے مقصد کاموں میں گھنٹوں ضائع کر رہے ہوتے ہیں اور ہمیں کسی قسم کی کوئی فکر یا ندامت بھی نہیں ہوتی، یوں لگتا جیسے ہم نے بہت نیک عمل کر لیے ہیں کہ جن میں اب مزید کی گنجائش ہی نہیں۔

  ابو محمد، حبیب بن محمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

’’فارغ نہ بیٹھو، موت آپ کی تلاش میں پیچھے آ رہی ہے۔‘‘ (ذم الدنيا لابن أبي الدنيا : ٥٤ وسنده جيد) 

 عبد الواحد بن صفوان بیان کرتے ہیں: کہ ہم امام حسن بصری رحمہ اللہ کے ساتھ ایک جنازے میں تھے، وہ فرمانے لگے : ’’اللہ تعالی اس بندے پر رحم کرے جو اس جیسے دن کے لیے عمل کرلے، دیکھو! آج آپ وہ کام کرنے کی طاقت رکھتے ہیں جس کی آپ کے قبروں والے یہ بھائی نہیں رکھتے، اس لیے گھبراہٹ اور حساب والے دن سے پہلے پہلے اپنی صحت اور فارغ وقت کو غنیمت جان لو۔‘‘ (قصر الأمل لابن أبي الدنيا : ١٤١ وسنده جيد)

اللہ تعالی ہمارے دلوں میں فکرِ آخرت پیدا فرما دے ۔ آمین ۔


                           



                                   📝

                        حافظ محمد طاھر

ہفتہ، 18 مئی، 2024

نکاح کے فوراً بعد ولیمہ کی شرعی حیثیت

      




         شادی اور نکاح میں ولیمہ کرنا باتفاق امت مشروع ہے کیوں کہ ولیمہ کرنانبی ﷺ کے قول اور فعل دونوں سے ثابت ہے ، لیکن اہل علم کے درمیان اس بارے میں اختلاف ہے کہ ولیمہ فرض ہے یا سنت؟

بہت سے اہل علم کا مذہب ہے کہ ولیمہ سنت ہے اور اس بارے میں جو حدیثیں وارد ہیں وہ استحباب کے لیے ہیں کیوں کہ یہ دعوت خوشی اور مسرت کی وجہ سے مشروع ہے تو جس طرح دیگر خوشی کی دعوتیں واجب نہیں ہیں اسی طرح ولیمہ بھی واجب نہیں ہے ۔ ابن قدامہ نے کہا :

’’وليست واجبة فى قول أكثر أهل العلم۔وقال بعض أصحاب الشافعي:هي واجبة، لأن النبى ﷺ ۔أمر بها عبد الرحمٰن بن عوف، ولأن الإجابة إليها واجبة؛ فكانت واجبة۔ولنا، أنها طعام لسرور حادث، فأشبه سائر الأطعمة، والخبر محمول على الاستحباب‘‘

’’اکثر اہل علم کے قول کے مطابق ولیمہ واجب نہیں ہے اور بعض اصحاب شافعی کا مذہب ہے کہ ولیمہ واجب ہے کیوں کہ نبی ﷺ نے عبد الرحمٰن بن عوف کو ولیمہ کرنے کا حکم دیا تھا اور اس لیے بھی کہ ولیمہ کی دعوت قبول کرنا واجب ہے لہٰذا ولیمہ بھی واجب ہوگا، ہماری دلیل یہ ہے کہ ولیمہ ایک ایسی دعوت ہے جو حصولِ مسرت کی وجہ سے کی جاتی ہے ، لہٰذا وہ دوسری دعوتوں کے مثل ہے اور حدیث میں وارد امر استحباب پر محمول ہے …‘‘

[المغنی :۱۰؍۱۹۳،ط:دار عالم الکتب]

ولیمہ کی فرضیت کا قول صرف بعض اصحاب شافعی کا نہیں بلکہ بہت سے اہل علم کا مذہب ہے ، ابن حزم نے کہا :

’’وفر ض علی کل من تزوج ان یولم بما قل اوکثر‘‘’’جو شادی کرے اس پر فرض ہے کہ ولیمہ کرے خواہ کم ہو یا زیادہ‘‘[المحلی :۹؍۴۵۰(۱۸۱۹)]

دلائل کی روشنی میں یہی بات راجح ہے کہ بقدر استطاعت ولیمہ فرض ہے ، ایک دلیل تو یہ ہے کہ نبی ﷺ نے عبد الرحمٰن بن عوف کو اس کا حکم دیا تھا :’’اولم ولوبشاة‘‘’’ولیمہ کرو اگر چہ ایک ہی بکری کیوںنہ ہو‘‘ [بخاری:۲۰۴۸ ، مسلم:۱۴۲۷]

دوسری حدیث میں نبی ﷺ نے علی رضی اللہ عنہ کو حکم دیتے ہوئے فرمایا:

’’يا على ! انه لا بد للعرس من وليمة‘‘’’اے علی ! شادی کے لیے ولیمہ ضروری ہے ‘‘[مسند احمد: ۳۸؍ ۱۴۲(۲۳۰۳۵]

اور تیسری بات یہ ہے کہ نبی ﷺ اور صحابہ کرام سے ولیمہ کا ترک کبھی بھی ثابت نہیں ہے ، یہ مواظبت اور پابندی مذکورہ امر کے ساتھ وجوب کی دلیل ہے ۔

امام البانی رحمہ اللہ نے کہا :’’ولابد له من وليمة بعد الدخول‘‘ ’’شادی میں زوجین کی ملاقات کے بعد ولیمہ ضروری ہے ‘‘[آداب الزفاف:۱۴۴]

علامہ حسین عوایشہ نے بھی الموسوعۃ الفقہیۃ المیسرۃ :۵؍۲۰۳ میں کہا ہے ’’وجوب الوليمة‘‘ ’’ولیمہ کا شرعی حکم یہ ہے کہ استطاعت کے بقدر فرض ہے ۔

لیکن اب سوال یہ ہے کہ کب کیا جائے ؟ کیا عقد کے بعد اور زوجین کی ملاقات سے قبل ولیمہ درست ہے ؟

اس سلسلے میں جو نصوص ہمارے سامنے ہیں ان کا تقاضا یہی ہے کہ ولیمہ زوجین کی ملاقات کے بعد مشروع ہے ، صرف عقد کے بعد ولیمہ کرنا کسی بھی نص میں اور کسی بھی واقعہ میں ثابت نہیں ہے ، اتباع سنت کا تقاضا یہ ہے کہ اسے اسی وقت انجام دیا جائے جب ثابت ہے ، اور جس وقت ثابت نہیں ہے اس وقت اسے انجام دینے سے احتراز برتا جائے ۔

نبی ﷺسے ولیمہ کے متعلق جو عمل ثابت ہے وہ یہی ہے کہ آپ نے ملاقات کے بعد ہی ولیمہ کیاہے، صرف عقد کے بعد ملاقات سے قبل کبھی نہیں کیا ہے ۔

اسی طرح صحابۂ کرام کے جو واقعات ہیں وہ بھی اسی طرح ہیں ، ان سے بھی زوجین کی ملاقات سے قبل ولیمہ کرنے کا کوئی ثبوت نہیں ہے ، ولیمہ کرنا ایک شرعی حکم ہے اور اسے بطور عبادت انجام دیا جاتا ہے، اس لیے اسے انجام دینے کا جو طریقہ مروی ہے اسی پر اکتفا کرلینا ضروری ہے کیونکہ تعبد کا یہی تقاضا ہے اور اتباع بھی یہی ہے ، اور ایسی صورت میں یقین ہے کہ حکم پورا ہوگیا اور اس سے مختلف صورت میں اگر ادا کیا جائے تو کم ازکم یہ تو ہے کہ معلوم نہیںکہ حکم پورا ہوا یا نہیں !

کتبِ فقہ کی جستجوکے بعد یہ مسئلہ فقہاء کے یہاں نفیاً یا اثباتاً نظر نہیں آتا، ان سے یہ صراحت نہیں ملتی کہ عقد کے بعد ولیمہ کرنا مشروع ہے یا ممنوع ؟ ولیمہ کی مشروعیت کے لیے زوجین کی ملاقات ضروری ہے یا نہیں؟ اس کی کوئی وضاحت نہیں ملتی ، مگر احادیث میں ولیمہ کرنے کی جو صورت زمانۂ رسالت میں ثابت ہے اس کاتقاضا یہی ہے کہ زوجین کی ملاقات کے بعد ہی ولیمہ کی مشروعیت ہوتی ہے اس سے قبل نہیں۔

پھر میں نے دیکھا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے سلف کا اختلاف نقل کیا ہے۔فرمایا :

’’وقداختلف السلف فى وقتها هل هو عند العقد اوعقبه اوعند الدخول اوعقبه ، او موسع من ابتدأالعقد الي انتهاء الدخول على اقوال‘‘

’’اور ولیمہ کے وقت کے سلسلے میں سلف کے مابین اختلاف کی بنا پر کئی اقوال ہیں :نکاح کے وقت یا نکا ح کے بعد ولیمہ، دخول کے وقت یا دخول کے بعد یا پھر عقد کے بعد سے لے کر دخول کے بعد اس کے وقت میں وسعت ہے‘‘

[الفتح:۹؍۲۳۰]

سلف کے یہ پانچ اقوال ہیں ولیمہ کے وقت کے بارے میں ۔

البتہ فقیہ سنت مجدد زمانہ امام البانی رحمہ اللہ کے کلام میں اس کی طرف رہنمائی موجود ہے ، انہوں نے آداب الزفاف : ۱۴۴، میں ولیمہ کے لیے زوجین کی ملاقات کا تذکرہ کیا ہے اور کہا:’’ولا بد له من عمل وليمة بعد الدخول ‘‘ اس کا مطلب یہی ہے کہ شوہربیوی سے ملاقات کرلے اور دونوں کو خلوت صحیحہ حاصل ہو اس کے بعد ولیمہ واجب ہوگا۔ دوسری جگہ کہا:’’ان تكون ثلاثة ايام عقب الدخول لانه هو المنقول عن النبى ﷺ ‘‘ ’’کہ ولیمہ کا وقت دخول کے بعد تین دنوں تک ہے کیونکہ یہی نبی ﷺ سے منقول ہے‘‘[آداب الزفاف:۱۴۵، الموسوعۃ:۵؍۲۰۳]

یہی بات ان کے شاگرد حسین عوایشہ نے بھی نقل کرکے تائید کی ہے ۔[الموسوعۃ الفقھیۃ المیسرۃ:۵؍۲۰۳]

ان سے قبل شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے لکھاہے کہ :’’وقت الوليمة فى حديث زينب وصفته يدل على انه عقب الدخول ‘‘’’زینب کی حدیث میں ولیمہ کا وقت اور اس کی صفت موجود ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ ولیمہ دخول کے بعد ہے ‘‘[الاختیارات العلمیۃ:۳۴۶]یعنی زوجین کی ملاقات کے بعد ۔حافظ نے کہا :’’وحديث انس صريح فى انها بعد الدخول لقوله فيه:’’اصبح عروسابزينب فدعا القوم‘‘’’حدیث انس اس بارے میں بالکل واضح ہے کہ ولیمہ دخول؍ملاقات کے بعد ہے کیونکہ انہوں نے اس سلسلہ میں کہا ہے کہ:آپ ﷺ نے زینب سے زفاف منا کر صبح کیا، پھر لوگوں کو مدعو کیا ‘‘[الفتح:۹؍۲۳۱]

دکتور علاء شعبان زعفرانی نے کہا:

’’والافضل فعل وليمة النكاح بعد الدخول اقتداء بفعل النبى ﷺ فان لم يتيسر ذالك فلا حرج من فعلها قبل الدخول ان عند العقد او بعده ‘‘

’’اور نبی ﷺ کے عمل کی اقتداء میں افضل تو یہی ہے کہ دخول کے بعد ولیمہ کیاجائے لیکن اگر ایسا کرنا ممکن نہ ہو تو نکاح کے وقت یا اس کے بعد دخول سے پہلے بھی کرنے میں کوئی حرج نہیںہے‘‘

[شبکۃ الألوکۃ،اٹرنیٹ]

صنعاني نے كها :قال السبكي :’’والمنقول من فعل النبى ﷺ انها بعد الدخول وكأنه يشيرالي قصهٖ زواج زينب بنت جحش لقول انس: اصبح النبى ﷺ عروسا بزينب فدعا القوم وقد ترجم عليه البيهقي ’’باب وقت الوليمة‘‘

کہ امام سبکی نے فرمایا :’’اور نبی ﷺ کے فعل سے یہی منقول ہے کہ ولیمہ دخول کے بعد ہے اور گویا کہ وہ زینب بنت جحش کے نکاح کے قصے کی طرف اشارہ کررہے تھے کیونکہ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیںکہ : آپ ﷺ نے زینب سے زفاف مناکر صبح کیا پھر لوگوں کو مدعو کیا اور امام بیہقی نے اس پر باب باندھا : ’’ولیمہ کے وقت کا باب ‘‘

[سبل السلام:۲؍۲۲۷]

قال الدميري:’’لم يتعرض الفقهاء لوقت وليمة العرس۔والصواب انها بعد الدخول‘‘

’دمیری کہتے ہیں کہ :’’فقہاء کرام نے نکاح کے ولیمہ کے وقت کے سلسلے میں کوئی کلام نہیں کیا البتہ درست یہی ہے کہ ولیمہ دخول کے بعد ہے‘‘

[النجم الوہاج:۷؍۳۹۳]

محمد علی فرکوس نے کہا :

’’ومن التزامات الزوج ايضا الوليمة التى تجب فى حقه عقب الدخول بزوجته ان قدر على ذالك لان النبيﷺ دعا القوم بعد الدخول بزينب رضي اللّٰه عنها۔۔۔‘‘

’’اور شوہر پر ولیمہ کرنا بھی واجب ہے جو کہ دخول کے بعد ہوگا اگر اس کے لیے ایسا کرنا ممکن ہے ۔کیونکہ نبی ﷺ نے زینب رضی اللہ عنہا سے دخول کے بعد ہی لوگوں کو دعوت دی تھی‘‘

[انٹرنیٹ منتدیات الامام الأجری]

’’الافضل فعلها بعد الدخول لان النبى ﷺ لم يولم علٰي نسائه الا بعد الدخول‘‘

’’دخول کے بعد ولیمہ کرنا افضل ہے کیونکہ نبی ﷺ نے اپنی تمام بیویوں سے دخول کے بعد ہی ولیمہ کیا ہے‘‘

[مغنی المحتاج :۴؍ ۴۰۴]

ولیمہ کے بارے میں وارداحادیث کا یہی تقاضا ہے ۔ انس رضی اللہ عنہ نے کہا :

’’اصبح رسول اللّٰه ﷺ عروسا بزينب بنت جحش وكان تزوجها بالمدينة فدعا الناس للطعام بعد ارتفاع النهار‘‘

’’نبی ﷺ نے زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کے دولہا کی حیثیت سے صبح کیا ، آپ نے ان سے مدینہ میںشادی کی تھی ، دن چڑھنے کے بعد آپ نے لوگوں کو کھانے کے لیے بلایا ‘‘

[بخاری:۴۷۹۳،مسلم :۱۴۲۸]

دوسرا لفظ اس طرح ہے :

’’اصبح النبى ﷺ بها عروسا فدعاالقوم فأصابوا من الطعام‘‘

’’کہ نبی ﷺ نے زفاف مناکر صبح کی اور لوگوں کو دعوت دی تو لوگوں نے کھانا کھایا‘‘

[بخاری:۵۱۶۶]

ایک حدیث میں ہے ۔انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا:

’’بني النبى ﷺ بامرأة فأرسلني فدعوت رجالاً على الطعام ‘‘

’’نبی ﷺ نے ایک عورت کے ساتھ زفاف منایا پھر آپ نے مجھے بھیجا تو میں نے لوگوں کو کھانے پر مدعو کیا‘‘

[بخاری:۵۱۷۰]

انہی کی ایک حدیث میں ہے :

’’مارأيت رسول اللّٰه ﷺ اولم علٰي امرأة من نسائه ما اولم على زينب‘‘

’’میں نے نہیں دیکھا کہ نبی ﷺ نے کسی بیوی کا ولیمہ کیا ہو جیساآپ نے زینب کاولیمہ کیا‘‘

[بخاری: ۵۱۶۸، مسلم:۱۴۲۸]

ہمارے زمانہ کے بعض علماء کا کہنا ہے کہ عقد کے بعد ملاقات سے پہلے ولیمہ کیوں غلط ہے؟ شریعت نے کہاں منع کیا ہے کہ ملاقات سے قبل ولیمہ نہ کرو؟

یہ حیرت ناک استدلال ہے کیونکہ ولیمہ ایک عبادت اور ایک شرعی حکم ہے اس کی ادائیگی شریعت کے مطابق ہی ہونا چاہیے ، چونکہ ولیمہ زوجین کی ملاقات کے بعد ہی ثابت ہے لہٰذا ہمیں بھی اس کے بعد ہی کرنا چاہیے اور اگر عقد کے معاً بعد ولیمہ کرنے کی کوئی دلیل مل جائے تب تو ٹھیک ہے ورنہ یہ کہنا بہت غلط ہے کہ منع کی دلیل لاؤ!!!

اس کو اس طرح بھی کہا جاسکتاہے کہ ممانعت کی دلیل تو نہیں ہے آپ جواز کی دلیل کی پیش کریں!! کیونکہ عبادت کے ثبوت کے لیے دلیل چاہیے نفی کے لیے نہیں ۔

بعض لوگوں کا اس استدلال پر یہ اعتراض بڑا وزن رکھتا ہے کہ عقد سے قبل ولیمہ کرنا کیوں ممنوع ہے ؟ عقد سے پہلے ولیمہ غلط ہے اس کی کیا دلیل ہے ؟ نبیﷺ نے کہاں فرمایا ہے کہ عقد سے قبل ولیمہ مت کرو!!اگر حدیث میں یہ ممانعت وارد نہیں ہے کہ عقد سے پہلے ولیمہ نہ کرو تو کیا یہ جائز ہوگا؟

ہر گز نہیں ۔ بلکہ ممانعت کی دلیل یہ ہوگی کہ ایسا کرنا نبی ﷺ اور صحابۂ کرام سے ثابت نہیں ہے ، اسی طرح ملاقات سے قبل ولیمہ کے ممنوع ہونے کی دلیل یہ ہوگی کہ یہ ثابت نہیں ہے ۔

منبر پر خطبہ دینا نبیﷺ کا طریقہ رہا ہے اور منبر بن جانے کے بعد آپ اسی پر خطبہ دیتے تھے، لہٰذا بلا عذر بغیر منبر خطبہ دینا غلط ہوگا۔

اب اگر کوئی بلا منبر خطبہ دے اور کہے کہ یہ تو ممنوع نہیں ہے ، ممانعت کی دلیل لاؤ اور ایسی کوئی حدیث پیش کرو کہ نبی ﷺ نے بلا منبر خطبہ جمعہ دینے سے منع کیا ہو؟ پھر ہم کیا کریں گے اس دلیل کو تسلیم کرلیں گے ؟ ہر گز نہیں ۔بلکہ کہیں گے کہ خطبۂ جمعہ منبر سے ثابت ہے لہٰذا منبر سے ہی مسنون ہے اور چونکہ منبر کی موجودگی میں بلا منبر خطبۂ جمعہ ثابت نہیں ہے اس لیے وہ غلط ہے ۔

یہی معاملہ یہاں بھی ہے کہ ولیمہ زوجین کی ملاقات کے بعد ثابت ہے لہٰذا اسی وقت مسنون ہے اور ملاقات سے قبل ثابت نہیں ہے اس لیے مسنون نہیں ہے ، اس کے ممنوع ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ ثابت نہیں ہے ۔

اس پوری گفتگو سے بات واضح ہوتی ہے کہ ولیمہ چونکہ ایک عباد ت ہے اس لیے جس طرح ثابت ہے اسی پر اکتفا کیا جائے اور غیر ثابت طریقے پر انجام دینے سے بچا جائے ۔







                                         📝

                       محمد جعفر انوار الحق الہندی

منگل، 14 مئی، 2024

غیر مسلموں کے برتن میں کھانے پینے کا حکم




بر صغیر کے بہت سارے مسلمان غیر مسلموں کے ساتھ تعامل میں افراط وتفریط کے شکار ہیں۔ بعض رواداری میں اتنے آگے بڑھے ہوئے ہیں کہ ان کے مذہبی تہواروں مثلا ہولی، دیوالی، کرسمس وغیرہ پر انھیں مبارکباد دینے، بلکہ ان میں شرکت کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں، اور اسے اپنی روشن خیالی تصور کرتے ہیں۔ جب کہ بعض ان کے ساتھ تعامل میں اتنی شدت برتتے ہیں کہ ان کے برتنوں میں کھانے پینے سے پرہیز تو کرتے ہی ہیں، اپنے برتنوں کو بھی انھیں استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ اگر کسی کے گھر میں کوئی غیر مسلم مزدور ہے اور اسے کھانا پیش کرنا اس کی مجبوری ہے تو اس کا برتن اور مجلس الگ کر دیتے ہیں۔

یقینا یہ تعامل شرعی تعلیمات سے دور اور افراط وتفریط پر مبنی ہے۔ اس میں راہ اعتدال وہی ہے جس کی شریعت نے ہمیں تعلیم دی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام نے اپنی پوری زندگی غیر مسلموں کے درمیان رہتے ہوئے گزاری ہے۔ اور ان سے بڑھ کر نہ کوئی روادار اور روشن خیال ہوسکتا ہے، اور نہ شعائر اسلام پر غیرت مند۔ بلا شبہ ان کا طریقہ سب سے بہتر طریقہ ہے، اور لائق اتباع وذریعہ نجات بھی۔

اسلام ہمیں ہر ایک کے ساتھ حسن سلوک کی تعلیم دیتا ہے۔ چاہے وہ مسلم ہو یا غیر مسلم۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

وَإِنْ جَاهَدَاكَ عَلَى أَنْ تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلا تُطِعْهُمَا وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا۔ [سورہ لقمان: 15]

(اگر وہ دونوں تمھیں میرے ساتھ شرک کرنے کا حکم دیں جس کا تمھیں علم نہیں تو ان کی اطاعت نہ کرو، اور دنیاوی معاملات میں ان دونوں کے ساتھ حسن سلوک کرو)

یہاں اللہ رب العزت نے والدین کے غیر مسلم ہونے کے باوجود ان کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہے۔

ایک دوسری آیت میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

لا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ أَن تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ۔ [سورہ الممتحنہ:8]

(جو لوگ تم سے دین کے معاملے میں جنگ نہیں کرتے، اور نہ تمھیں گھروں سے باہر نکالتے ہیں اللہ تعالی تمھیں ان کے ساتھ حسن سلوک اور عدل وانصاف کرنے سے منع نہیں کرتا۔ اللہ تعالی انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے)

امام المفسرین امام طبری رحمہ اللہ اس آیت میں مفسرین کے مختلف اقوال ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:

“أَوْلَى الْأَقْوَالِ فِي ذَلِكَ بِالصَّوَابِ قَوْلُ مَنْ قَالَ: عُنِيَ بِذَلِكَ {لَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ} مِنْ جَمِيعِ أَصْنَافِ الْمِلَلِ وَالْأَدْيَانِ أَنْ تَبَرُّوهُمْ وَتَصِلُوهُمْ، وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ، إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ عَمَّ بِقَوْلِهِ: الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ جَمِيعَ مَنْ كَانَ ذَلِكَ صِفَتَهُ، فَلَمْ يُخَصِّصْ بِهِ بَعْضًا دُونَ بَعْضٍ، وَلَا مَعْنَى لِقَوْلِ مَنْ قَالَ: ذَلِكَ مَنْسُوخٌ، لِأَنَّ بِرَّ الْمُؤْمِنِ مِنْ أَهْلِ الْحَرْبِ مِمَّنْ بَيْنَهُ وَبَيْنَهُ قَرَابَةُ نَسَبٍ، أَوْ مِمَّنْ لَا قَرَابَةَ بَيْنَهُ وَبَيْنَهُ وَلَا نَسَبٌ غَيْرُ مُحَرَّمٍ وَلَا مَنْهِيٌّ عَنْهُ إِذَا لَمْ يَكُنْ فِي ذَلِكَ دَلَالَةٌ لَهُ، أَوْ لِأَهْلِ الْحَرْبِ عَلَى عَوْرَةٍ لِأَهْلِ الْإِسْلَامِ، أَوْ تَقْوِيَةٌ لَهُمْ بِكُرَاعٍ أَوْ سِلَاحٍ”. [تفسیر طبری: 22/574]

(اس میں تمام اقوال میں سے سب سے زیادہ صحیح قول یہ ہے کہ تمام ادیان وملل میں سے جو بھی تمھارے ساتھ دین کو لے کر جنگ نہیں کرتے بلکہ اللہ تعالی ان کے ساتھ حسن سلوک، صلہ رحمی اور عدل وانصاف کرنے سے تمھیں منع نہیں کرتا۔ اللہ تعالی کا یہ قول ”جو لوگ تم سے دین کے معاملے میں جنگ نہیں کرتے، اور نہ تمھیں گھروں سے باہر نکالتے ہیں“ ہر اس شخص کو عام ہے جن کی بھی یہ صفت ہو۔ ان میں سے بعض کو چھوڑ کر بعض کو اللہ نے خاص نہیں کیا ہے۔ اسی طرح اس قول کی بھی کوئی اہمیت نہیں جو کہتے ہیں کہ ” یہ منسوخ ہے“، کیونکہ کسی مؤمن کا کسی حربی خاندانی رشتے دار کے ساتھ حسن سلوک کرنا، یا کسی اجنبی حربی کے ساتھ حسن سلوک کرنا نہ حرام ہے اور نہ ممنوع، اگر وہ کسی حربی کو اسلام کےخفیہ امور کا انفارمیشن نہ دے، یا ہتھیار کے ذریعہ تقویت نہ پہنچائے)

ان کے ساتھ حسن سلوک کا تقاضا یہ ہے کہ ان کے ساتھ ایسا تعامل نہ کیا جائے جس سے اسلام اور مسلمانوں کے تئیں ان کے دلوں میں نفرت وعداوت پیدا ہو۔ بلکہ ہمارا تعامل ایسا ہو جس سے وہ اسلام کے قریب آئیں۔ اسی کا ایک مظہر یہ ہے کہ ان کے برتنوں میں نجاست نہ لگی ہو تو استعمال کرنے سے گریز نہ کیا جائے۔ اور اگر انھیں کھانا پیش کرنا ہو تو ان کا برتن الگ نہ کیا جائے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت میں ہمیں کہیں یہ نہیں ملتا کہ آپ نے برتنوں کے معاملہ میں کبھی مسلم وغیر مسلم کے درمیان کوئی تفریق کی ہو۔ جو صحابہ کرام اسلام قبول کرتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم انھیں ہر طرح کی تعلیم دیتے۔ اگر ان نو مسلم صحابہ کرام کے لیے کفار ومشرکین کے برتنوں کا استعمال کرنا نا جائز ہوتا تو ضرور آپ انھیں اس کی تعلیم دیتے، کیونکہ اس کا تعلق عموم بلوی سے تھا۔ تقریبا ہر گھر کا یہ معاملہ تھا کہ صحابہ کرام کے بعض رشتے دار غیر مسلم تھے۔ لیکن ایک بھی ایسا واقعہ نہیں ملتا کہ کسی صحابی نے برتنوں کے معاملے میں اس طرح کی کوئی تفریق کی ہو۔

اس کے بر عکس اس بات کے متعدد شواہد ملتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے غیر مسلموں کا برتن استعمال کیا ہے۔ ذیل میں اس کے چند نمونے پیش کیے جا رہے ہیں:

(1) آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ ایک سفر میں تھے۔ راستے میں پانی ختم ہوگیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دو ساتھیوں کو کہا کہ جاؤ پانی تلاش کرو، ان میں سے ایک علی رضی اللہ عنہ تھے۔ یہ دونوں نکلے۔ راستہ میں ایک عورت ملی جو پانی کے دو مشکیزے اپنے اونٹ پر لٹکائے ہوئے بیچ میں سوار ہو کر جا رہی تھی۔ انھوں نے اس سے پوچھا کہ پانی کہاں ملتا ہے؟ اس نے جواب دیا کہ کل اسی وقت میں پانی پر موجود تھی۔ (یعنی پانی اتنی دور ہے کہ کل میں اسی وقت وہاں سے پانی لے کر چلی تھی، آج یہاں پہنچی ہوں) اور ہمارے قبیلہ کے مرد لوگ پیچھے رہ گئے ہیں۔ انھوں نے اس سے کہا: اچھا ہمارے ساتھ چلو۔ اس نے پوچھا: کہاں؟ انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں۔ اس نے کہا: اچھا وہی جن کو لوگ صابی کہتے ہیں۔ انھوں نے کہا: ہاں یہ وہی ہیں، جو تم کہہ رہی ہو، اچھا اب چلو۔ آخر یہ دونوں حضرات اس عورت کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے کر حاضر ہوئے، اور سارا واقعہ بیان کیا۔ لوگوں نے اسے اونٹ سے اتارا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک برتن طلب فرمایا۔ اور دونوں مشکیزوں کے منہ اس برتن میں کھول دیے۔ پھر ان کا اوپر کا منہ بند کر دیا۔ اس کے بعد نیچے کا منہ کھول دیا اور تمام لشکریوں میں منادی کر دی گئی کہ خود بھی سیر ہو کر پانی پئیں اور دوسروں کو بھی پلائیں۔ پس جس نے چاہا پانی پیا اور پلایا، یہاں تک کہ سب سیر ہوگئے۔ آخر میں اس شخص کو بھی ایک برتن میں پانی دیا جسے غسل کی ضرورت تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لے جا اور غسل کر لے۔ وہ عورت کھڑی دیکھ رہی تھی کہ اس کے پانی سے کیا کیا کام لیے جا رہے ہیں۔ اللہ کی قسم! جب ان مشکیزوں سے پانی لیا جانا بند ہوا، تو ہمیں لگ رہا تھا کہ اب مشکیزوں میں پانی پہلے سے بھی زیادہ موجود ہے۔

یہ روایت بہت طویل ہے۔ آگے اس روایت میں ہے کہ وہ عورت اور اس کا قبیلہ بعد میں مسلمان ہو گیا تھا۔ (متفق علیہ: صحیح بخاری، حدیث نمبر 344، وصحیح مسلم، حدیث نمبر 682)

(2) جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

“كُنَّا نَغْزُو مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَنُصِيبُ مِنْ آنِيَةِ الْمُشْرِكِينَ وَأَسْقِيَتِهِمْ، فَنَسْتَمْتِعُ بِهَا، فَلَا يُعَابُ عَلَيْنَا”۔ [مسند احمد: 23/292، حدیث نمبر 15053]

(ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ میں شریک ہوتے، جہاں مال غنیمت کے طور پر مشرکین کے برتن اور مشکیزے پاتے، تو ان سے ہم فائدہ اٹھاتے، اور ہم پر کوئی نکیر نہیں کی جاتی)

علامہ البانی رحمہ اللہ نے ”ارواء الغلیل“ (1/76) میں اس کی سند کو حسن کہا ہے۔

(3) عبد اللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

“أَصَبْتُ جِرَابًا مِنْ شَحْمٍ يَوْمَ خَيْبَرَ، قَالَ: فَالْتَزَمْتُهُ، فَقُلْتُ: لَا أُعْطِي الْيَوْمَ أَحَدًا مِنْ هَذَا شَيْئًا، قَالَ: فَالْتَفَتُّ، فَإِذَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَبَسِّمًا”۔ [صحيح مسلم: 3/1393، حدیث نمبر 1772]

(میں نے خیبر کے دن چمڑے کی ایک تھیلی میں چربی پایا، تو اسے اپنے پاس رکھ لیا، اور کہا کہ آج کسی کو اس سے حصہ نہیں دوں گا، جب میں پیچھے مڑا تو دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا رہے تھے)

اس میں محل شاہد چمڑے کی تھیلی جس میں چربی تھی اسے عبد اللہ بن مغفل کا لینا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انھیں منع نہ کرنا ہے۔ اگر یہود کے برتنوں کا استعمال ناجائز ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم انھیں منع فرماتے، یا کم از کم چربی پھینک دینے اور تھیلی کو دھو کر استعمال کرنے کے لیے کہتے۔ لیکن آپ نے ایسا کچھ نہیں فرمایا جو اس بات کی دلیل ہے کہ یہود کے برتنوں کو استعمال کرنا جائز ہے۔

(4) صحیح بخاری (حدیث نمبر3169) میں ہے:

جب خیبر فتح ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کھانے کے لیے ایک بکری پیش کی گئی جو زہر آلود تھی۔

دیگر کتب حدیث میں اس کی مزید تفصیلات وارد ہیں لیکن اسنادی اعتبار سے ان میں سے بعض پر کلام ہے۔ سنن ابی داود(حدیث نمبر 4511) میں ہے کہ آپ کے ساتھی بشر بن براء بن معرور رضی اللہ عنہ کی اس زہر آلود بکری کو کھانے کی وجہ سے وفات بھی ہو گئی تھی۔ شیخ شعیب ارنؤوط نے اس روایت کو ثابت مانا ہے، اور اسے صحیح لغیرہ قرار دیا ہے۔ [سنن ابی داود، بتحقیق الشیخ شعیب ارنؤوط: 6/565-568]

اس میں محل شاہد آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں کا یہود کے برتنوں کو استعمال کرنے سے پرہیز نہ کرنا ہے۔ ظاہر سی بات ہے ایک بکری کو کھانے کے لائق تیار کرنے، اور اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کرنے کے لیے برتن کا استعمال کرنا ناگزیر ہے۔ اگر یہود کے برتنوں کو استعمال کرنا نا جائز ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے بشر بن براء رضی اللہ عنہ کو ضرور روکتے۔ اور اس مسئلہ کی ضرور وضاحت فرماتے۔

کتب الفقہ میں علما نے اس مسئلہ کو بیان کیا ہے، اور اس میں علما کا اختلاف بھی نقل کیا ہے۔ بعض علما نے جہاں کفار ومشرکین کے برتنوں کے استعمال کو جائز کہا ہے، وہیں بعض نے مکروہ تو بعض نے حرام بھی کہا ہے۔ [دیکھیں: البحر الرائق لابن نجیم(8/232)، والمبسوط للسرخسی (1/97)، والکافی فی فقہ اہل المدینہ لابن عبد البر (ص187)، والتاج والاکلیل للمواق المالکی(1/121)، والمجموع للنووی (1/319)، والمغنی لابن قدامہ (1/62)، والانصاف للمرداوی (1/85)]

جنھوں نے بھی حرام یا مکروہ کہا ہے ان کی سب سے بڑی دو دلیلیں نظر آتی ہیں:

پہلی دلیل:

صحیح بخاری (حدیث نمبر 5478) میں ابو ثعلبہ الخشنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں: میں نے کہا: اے اللہ کے نبی ہم اہل کتاب کے ساتھ رہتے ہیں، کیا ہم ان کے برتنوں میں کھا سکتے ہیں؟ آپ نے اس سوال کے جواب میں انھیں فرمایا: اگر تم ان کے برتنوں کے علاوہ کوئی دوسرا برتن پا لو تو ان کے برتنوں میں نہ کھاؤ، لیکن اگر کوئی دوسرا برتن نہ ملے تو انھیں دُھل لو، پھر ان میں کھاؤ۔

اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے بعض علما فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل کتاب کے برتنوں میں کھانے سے منع فرمایا ہے۔ صرف مجبوری کی صورت میں دھو کر کھانے کی اجازت دی ہے۔ اس لیے ان کے برتنوں میں کھانا پینا جائز نہیں۔

لیکن ان کا یہ استدلال صحیح نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ صحیحین میں یہ حدیث مختصرا مروی ہے، جب کہ سنن ابی داود (حدیث نمبر3839)، مسند الشامیین للطبرانی (حدیث نمبر 783)، المعجم الکبیر للطبرانی (22/223)، السنن الکبری للبیہقی (حدیث نمبر 134) وغیرہ میں یہی حدیث صحیح سند سے تفصیل کے ساتھ وارد ہے۔ ان میں اس کے الفاظ اس طرح ہیں: “إنا نُجَاوِرُ أهْلَ الكتابِ وهم يَطبُخُونَ في قُدورهم الخنزير ويَشرَبونَ في آنيتِهم الخمرَ”۔ (ہم اہل کتاب کے ساتھ رہتے ہیں، وہ اپنی ہانڈیوں میں سور کا گوشت پکاتے ہیں، اور اپنے برتنوں میں شراب پیتے ہیں)

جس کے جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم ان کے برتنوں کے علاوہ کوئی دوسرا برتن پا لو تو ان برتنوں میں کھاؤ پیو، لیکن اگر کوئی دوسرا برتن نہ ملے تو انھیں پانی سے دھل لو، پھر ان میں کھاؤ پیو“۔

یعنی یہاں ان کے برتنوں سے منع کرنے کی اصل وجہ ان کا اہل کتاب ہونا نہیں تھا، بلکہ ان برتنوں میں سور کا گوشت پکانے، اور شراب پینے کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان برتنوں سے دور رہنے کا حکم دیا۔ اس لیے یہ علت اگر –نعوذ باللہ- کسی مسلمان کے برتن میں بھی پائی جائے تو اس کا یہی حکم ہے۔ اور اگر غیر مسلموں کے برتن میں نہ پائی جائے تو اس کا یہ حکم نہیں ہے۔

دوسری دلیل:

غیر مسلمین حرام اور نجس چیزوں کے استعمال سے پرہیز نہیں کرتے۔ وہ اپنے برتنوں میں سور، کتے اور دیگر حرام جانوروں کا گوشت پکاتے ہیں، اسی طرح شراب اور دیگر نجس چیزیں کھاتے پیتے ہیں۔ لہذا ان کے برتنوں کا استعمال کرنا حرام یا علی الاقل مکروہ ہے۔

حرام اور مکروہ کہنے والوں کی یہ بات کچھ حد تک قابل قبول ہے کہ وہ ان برتنوں کا استعمال نجس یا حرام چیزوں میں کرتے ہیں۔ لیکن اگر غور کریں تو واضح ہوگا کہ یہاں حرام یا مکروہ کہنے کی وجہ ان کا غیر مسلم ہونا نہیں، بلکہ ان برتنوں کو حرام اور نجس چیزوں میں استعمال کرنا ہے۔ لہذا اگر یہ علت کہیں پائی جائے تو ضرور ان کی بات قابل قبول ہے۔ لیکن اگر یہ علت موجود نہ ہو تو محض ان کے غیر مسلم ہونے کی وجہ سے ان کے برتنوں کے استعمال کو حرام یا نا جائز نہیں کہا جا سکتا۔

بلکہ اگر یہ علت کسی مسلمان کے یہاں بھی پائی جائے تو اس کا بھی عین یہی حکم ہے۔

پس پتہ چلا کہ یہاں پر برتنوں کے استعمال میں تفریق کی وجہ استعمال کرنے والے کا مسلمان اور غیر مسلم ہونا نہیں، بلکہ ان برتنوں میں حرام اور نجس چیزوں کا استعمال کرنا اور نہ کرنا ہے۔

برتنوں کا “اصل حکم” ان کا مباح ہونا ہے، چاہے ان کا مالک مسلمان ہو یا غیر مسلم۔ اس لیے جب تک ان کے نجس ہونے کا علم نہ ہو، یا قرائن ان کے نجس ہونے کی طرف اشارہ نہ کرتے ہوں ان کے استعمال میں کوئی حرج نہیں۔ نیز ہمیں اس بات کا بھی مکلف نہیں بنایا گیا ہے کہ ہم پہلے جانچ پڑتال کریں کہ وہ نجس ہے یا نہیں، اس میں شراب یا کوئی دوسری حرام چیز پی گئی ہے یا نہیں۔ بلکہ اصل ان کا مباح اور طاہر ہونا ہی ہے، جب تک نجس ہونے کا علم نہ ہو یا قرائن اس بات کی طرف غماز نہ ہوں کہ وہ نجس ہیں۔ استاد محترم شیخ سلیمان الرحیلی حفظہ اللہ نے مسجد نبوی میں ”دلیل لطالب“ کی شرح میں اس چیز کو خوب اچھی طرح واضح کرکے بیان کیا ہے جسے اس لنک سے سنا جا سکتا ہے:


ہندوستان جیسے کثیر المذاہب ملک میں جہاں کی اکثریت غیر مسلموں کی ہے وہاں چائے کی دکانوں یا دیگر کھانے پینے کے ہوٹلوں میں غیر مسلموں کے برتنوں کا استعمال کرنا، یا غیر مسلموں کی فیکٹریوں میں ان کے برتنوں سے تیار شدہ مختلف طرح کے کھانے کے پیکٹوں کا بازار سے خریدنا روز مرہ کا مسئلہ ہے۔ اگر اسے مسلمانوں کے لیے ناجائز کہا جائے تو جہاں انھیں انتہائی حرج میں مبتلا کرنا ہوگا، وہیں غیر مسلموں کو اپنے اخلاق وکردار سے اسلام اور مسلمانوں سے متنفر کرنا بھی ہوگا۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہم انھیں اسلام سے دور نہ کریں۔ ان کے صاف ستھرے برتنوں کو خود استعمال کریں، اور جب وہ ہمارے درمیان ہوں تو کھانے پینے کے لیے انھیں بھی اپنا برتن پیش کریں۔

اللہ ہمیں اسلام کی صحیح سمجھ عطا فرمائے، اور اس پر عمل کرنے کی بھی توفیق عطا فرمائے۔




              ✍⁩ فاروق عبداللہ نراین پوری

جمعہ، 3 مئی، 2024

عقیقہ میں بڑا جانور یا چھوٹا

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!


 کتب احادیث میں مروی جن روایات میں عقیقہ کا ذکر آیا ہے ، ان میں صرف بکری یا دنبہ ذبح کرنے کا بیان ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’ لڑکے کی طرف سے دو مساوی بکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری بطور عقیقہ ذبح کی جائے۔ ‘‘[1]


حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما عقیقہ کے سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی طرف سے دو دو دنبے ذبح کئے۔ [2]


ان روایات کا تقاضا ہے کہ عقیقہ میں چھوٹے جانور ذبح کئے جائیں،ا گرچہ علامہ شوکانی رحمہ اللہ نے لکھا ہے: ’’ جمہور گائے اور بکری کو عقیقہ کےلئے کافی قرار دیتےہیں۔‘‘[3]


لیکن ہمارے رجحان کے مطابق جمہور کا مذکورہ موقف محل نظر ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ کرام سے عقیقہ میں بڑا جانور ذبح کرنا ثابت نہیں بلکہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس سلسلہ میں شدید نفرت کا اظہار مروی ہے۔ چنانچہ ابن ابی ملیکہ کہتےہیں کہ حضرت عبد الرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کے ہاں جب بچہ پیدا ہوا تو انہوں نے عقیقہ میں اونٹ ذبح کیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پا س اس بات کا تذکرہ کیا گیا تو آپ نے بایں الفاظ 22 اپنے جذبات کا اظہار کیا: ’’ معاذ اللہ ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی تو یہ ہے کہ عقیقہ میں دو مساوی بکریاں ذبح کی جائیں۔‘‘[4]


لہٰذا عقیقہ میں گائے بھینس یا اونٹ ذبح کرنے سے گریز کیا جائے۔ اس سلسلہ میں جو روایت پیش کی جاتی ہے اس کے الفاظ یہ ہیں: ’’ بچے کی طرف سے اونٹ ، گائے اور بکری سے عقیقہ کیا جا سکتا ہے۔[5]


محدثین کے ہاں یہ روایت صحیح نہیں کیونکہ اس میں سعد بن یسع راوی کذاب ہے، چنانچہ علامہ ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ اس روایت کو بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں : اس کی سند میں سعد بن یسع راوی کذاب ہے۔ [6]


لہٰذا عقیقہ میں بکری، بھیڑ اور دنبہ ذبح کیا جائے کیونکہ احادیث میں ان جانوروں کو ذبح کرنے کا ذکر ملتا ہے اور گائے، بھینس یا اونٹ کو بطور عقیقہ ذبح کرنے سے اجتناب کیا جائے۔ ہاں اگر کسی کے دوست و احباب او دیگر رشتہ دار زیادہ ہیں اور عقیقہ کے جانور دعوت طعام کے لئے کافی نہیں تو وہ عقیقہ کے جانور کے ساتھ اضافی طور پر دوسرے جانور ذبح کر کے دعوت کا اہتمام کر سکتا ہے لیکن اضافی جانور بطور عقیقہ نہ ذبح کئے جائیں۔ ( واللہ اعلم)


[1] سنن أبي داؤد : ۲۸۳۴۔


[2] سنن النسائي ، العقیقة : ۴۲۲۴۔


[3] نیل الأوطار ص ۵۰۶ج۳۔


[4] سنن البیھقي ص ۳۰۱ ج۹۔


[5] طبراني.... ص ۸۴ج۱۔


[6] مجمع الزوائد ص ۵۸ ج۴۔ 

کیا دیوالی کی مبارک باد دینا اور اس کی مٹھائیاں کھانا صحیح ہے

دیوالی کی مٹھائی سوال : کیا دیوالی کی مبارک باد دینا اور اس کی مٹھائیاں کھانا صحیح ہے ؟ جواب : اگر دیوالی منانا صحیح ہے تو اس کی مبارک باد ...