جمعرات، 31 اکتوبر، 2024

کیا دیوالی کی مبارک باد دینا اور اس کی مٹھائیاں کھانا صحیح ہے

دیوالی کی مٹھائی



سوال: کیا دیوالی کی مبارک باد دینا اور اس کی مٹھائیاں کھانا صحیح ہے ؟

جواب : اگر دیوالی منانا صحیح ہے تو اس کی مبارک باد دینا بھی صحیح ہے اور اس کی مٹھائیاں کھانا بھی درست اور اگر منانا ہی غلط ہے تو غلط کام پر مبارک باد دینا اور مٹھائیاں کھانا صحیح کیسے ہوسکتا ہے ؟


ایک بندہ شرک کررہا ہے ۔ آپ کی ذمہ داری ہے کہ اس کو اس کے شرک سے روکیں. آپ بجائے روکنے کے الٹا مبارک باد دے رہے ہیں اور خوشی میں مٹھائیاں کھارہے ۔ یہ کیا بات ہوئی؟ 

ذرا غور کریں یہود تو اہل کتاب میں سے تھے ۔ دو تین نبیوں کو چھوڑ کر وہ ان سارے انبیاء کو ماننے والے تھے جن کو مسلمان مانتے تھے ۔ دوسرے مشرکین کی بنسبت مسلمانوں سے ان کی قربت ایک درجہ زیادہ تھی۔ پھر وہ عاشورہ کا روزہ بھی کوئی دیوی دیوتاؤں سے کی عبادت یا عقیدت کی وجہ سے نہیں رکھتے تھے ۔ ان کا روزہ ایک نبی کی فتح اور طاغوت کی شکست پر اللہ کے لیے شکرانہ تھا۔ مسلمانوں کے لیے یہود سے "بھائی چارگی " "محبت" " تالیف قلب" اور "تقارب" کے لیے اس بہتر موقع کیا ہوسکتا تھا۔ لیکن شریعت نے یہاں اس "نیکی" میں بھی یہود سے مسلمانوں کی مشابہت قبول نہیں کی ۔ قوم رسول ہاشمی کی ترکیب خاص کی حدیں ہمیشہ کفار سے ، ان کے "کفر" سے ،ان کی "تہذیب" ، "ثقافت" اور ان کی "عیدوں" اور "تہواروں" سے صاف صاف الگ ہونی چاہیے ۔ تو حکم دیا گیا کہ اس امر میں یہود سے مشابہت نہیں ہونی چاہیے اس لیے ایک دن پہلے بھی روزہ رکھو کہ ان کہ مخالفت ہو۔ 

اب آئیے دیوالی کی طرف!!!

دیوالی کیا ہے؟ ایک ایسی مشرک قوم کا تہوار جس کے معبودوں کی گنتی شمار سے باہر ہے ۔

منائی کس لیے جاتی ہے یہ دیوالی ؟ لکشمی دیوی کی تعظیم اور عبادت میں جو ان کفّار کے عقیدہ کے مطابق مالداری اور خوشحالی بانٹنے والی دیوی ہے ۔ دیوالی میں ہوتا کیا ہے؟ لکشمی کی پوچا ۔ یعنی اللہ کے ساتھ کھلم کھلا کا شرک۔ ربوبیت کا بھی الوہیت کا بھی۔ 

اب شرک کے مقابلہ میں مسلمان کا ردّ عمل کیا ہونا چاہیے؟

پہلا ردّ عمل تو یہ ہونا چاہیے کہ اللہ نے طاقت دی ہو تو اس شرک کو اس کی بنیادوں سے اکھاڑ کر پھینک دو۔ لیکن وہ ہم کرنہیں سکتے کیونکہ موجودہ صورت حال میں اس کی نہ گنجائش ہے نہ اجازت۔ اس کے بعد "دوسرا مرحلہ" ہے کہ زبان سے اس کا ردّ کرو اور حجّت قائم کردو۔ وہ بھی نہیں کرسکتے تو کم سے کم دل میں اس عمل سے گھن کھاؤ ، برا جانوں اور تکلیف محسوس کرو۔ یہ ایمان کا آخری درجہ ہے ۔ 

اب جب اس شرک کی خوشی میں بنٹنے والی مٹھائی چٹخارے لے لے کر کھائیں گے تو یہ ایمان کا آخری درجہ بھی بچا؟ 

مالکم کیف تحکمون!


 مغلوب قوم کے تحفّظات 

ایک بات یہ بھی یاد رکھیں! مغلوب قوموں کے احکام غالب قوموں سے بہت مختلف ہوتے ہیں ۔اس وقت مسلمانوں کو اگر دنیا کے کسی مذہب سے خطرہ ہے تو اسی الحادی سیکولرازم سے ہے ۔ 

اپنے اردگرد نظر دوڑائیں اور دیکھیں۔ مسئلہ محض " مٹھائیوں" کا نہیں رہ گیا۔ بات دیوالی منانے اور گنپتی بٹھانے تک پہنچ گئی ہے ۔ 

اس کھلے شرک اور کفر تک پہنچنے کے راستے اسی "مٹھائی" سے کھلتے ہیں ۔ لہذا ضروری ہے کہ یہ "پہلا دروازہ" ہی بند کردیا جائے ۔ لہذا سدّ ذریعہ بھی ایک بڑی وجہ ان "تحائف" کی حرمت کی ہیں ۔


 "خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی"

تہوار کسی بھی ملّت کی ثقافت و تہذیب کے نمائندہ اور اس کی اقدار اور روایات کے ترجمان اور اس قوم کا شعار ہوتے ہیں ۔ اسلام کیونکہ ایک مستقل دین ہے لہذا اس کی اپنے تہوار ہیں ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلّم کی بعثت کے بعد جب اسلام نے جاہلیت کو ختم کیا تو اس کے تہواروں پر بھی خط تنسیخ کھینچ دی ۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ دورِ جاہلیت میں مدینہ کے لوگ سال میں دو تہوار منایا کرتے تھے۔جب آنحضرت ﷺ مدینہ تشریف لائے تو (صحابہ کرام سے) فرمایا: (وقد أبدلکم الله بهما خيرا منهما: يوم الفطر و يوم الأضحی) (صحیح سنن نسائی؛ ۱۴۶۵)

”اللہ تعالیٰ نے تمہیں ان دونوں تہواروں کے بدلہ میں دو اور تہوار عطاکردیئے ہیں جو ان سے بہتر ہیں اور وہ ہیں: عیدالفطر اور عیدالاضحی۔“

اسلام کا مزاج اس بات کو قبول ہی نہیں کرتا کہ اس کے ماننے والے کسی دوسری قوم کے ساتھ ان کے تہواروں میں کسی بھی طور پر شریک ہوں. کفّار کے ان تہواروں میں کسی بھی طرح کی شرکت ان کی مشابہت ہے جس سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلّم نے سختی سے منع فرمایا ہے. ارشاد ہے: " جس نے بھى كسى قوم سے مشابہت اختيار كى وہ انہي ميں سے ہے "

(سنن ابو داود كتاب اللباس حديث نمبر ( 3512 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود حديث نمبر ( 3401 ) ميں اسے حسن صحيح قرار ديا ہے.)


 سعودی عرب کی دائمی فتویٰ کمیٹی کا فتویٰ 


ہندؤوں کے تہوار کے موقع پر دکان سے خرید کردی جانے والی مٹھائیوں کا حکم


سوال : ہندستان میں ہندؤں ( بت پرستوں) کے بہت سارے تہوار ہوتے ہیں ۔ جن میں وہ اپنے پڑوس میں مٹھائیاں تقسیم کرتے ہیں جیسے ہمارے یہاں عیدالفطر میں تقسیم کی جاتی ہیں ۔ اس مسئلہ میں وہاں اختلاف ہے ۔ بعض حضرات اس کو حلال بتاتے ہیں کیونکہ وہ ذبیحہ نہیں ہے ۔ اور بعض حضرات اسے حرام قرار دیتے ہیں کیونکہ یہ غیراللہ کے نام کا ہے ۔ یہ واضح رہے کہ یہ مٹھائیاں گھر میں نہیں بنائی جاتی بلکہ دکان سے خرید کر دی جاتی ہیں ۔ اس مسئلہ میں شرعی حکم کیا ہے بتائیں !

جواب :بت پرست اور دیگر کفّار اپنے تہواروں میں دینی مناسبت سے جو تحفے دیتے ہیں ان کا قبول کرنا اور ان سے فائدہ اٹھانا جائز نہیں ہے ۔ کیونکہ *ان تحفوں کے قبول کرنے کا مطلب ان کے باطل کو تسلیم کرلینا اور ان کے اعمال سے راضی ہوجانا ہے۔

لہذا مسلمان کو ان سے بچنا چاہیے اور اپنے دین کے معاملہ میں محتاط رہنا چاہیے ۔ 

اللہ ہی توفیق دینے والا ہے ۔ درود ہو ہمارے نبی محمّد صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلّم 

اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والافتاء فتویٰ نمبر: 20400


الرئیس: عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز 

نائب الرئیس :عبدالعزیز آل الشیخ

عضو :عبداللہ بن الغدیان ، عضو : صالح الفوزان عضو :بکر ابوزید


بعض آثار کی تحقیق


کفّار کے تہوار کے مواقع پر ان کے تحائف قبول کرنے سے متعلق صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ملنے والی بعض روایات سے ان تحائف کے قبول کرنے کے جواز پر استدلال کیا جاتا ہے. اس حوالہ سے جو بھی روایات صحابہ سے ملتی ہیں ان میں سے کوئی بھی صحیح سند سے ثابت نہیں ہے. ان آثار کی تحقیق محترم دوست فاضل محقق *شیخ کفایت اللہ سنابلی کے قلم سے ملاحظہ فرمائیں:

(۱)اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کا اثر :

امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى235)نے کہا:

حدثنا جرير ، عن قابوس ، عن أبيه ؛ أن امرأة سألت عائشة قالت : إن لنا أظآرا من المجوس ، وإنه يكون لهم العيد فيهدون لنا ؟ فقالت : أما ما ذبح لذلك اليوم فلا تأكلوا ، ولكن كلوا من أشجارهم

قابوس بن ابی ظبیان اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ ایک عورت نے اماں عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھتے ہوئے کہا: ہماری کچھ مجوسی پڑوسن ہیں ، اوران کے تیوہار کے دن ہوتے ہیں جن میں وہ ہمیں ہدیہ دیتے ہیں ، اس کا کیا حکم ہے؟ تو اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا: اس دن جو چیز ذبح کی جائے اسے نہ کھاؤ ، لیکن ان کی طرف سے سزی اور پھل کی شکل میں جو ملے اسے کھالو۔[مصنف ابن أبي شيبة. سلفية: 8/ 87]

یہ روایت ضعیف ہے اس کی سند میں موجود ”قابوس بن أبي ظبيان الجنبي“ضعیف راوی ہے۔

امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241)نے کہا:

ليس هو بذاك وقال سئل جرير عن شيء من أحاديث قابوس فقال نفق قابوس نفق[العلل ومعرفة الرجال لأحمد، ت وصي: 1/ 389]


امام أبو حاتم الرازي رحمه الله (المتوفى277)نے کہا:

ضعيف الحَديث لين، يكتب حَديثه، ولا يحتج به[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم، ت المعلمي: 7/ 145]

امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354)نے کہا:

كان رديء الحفظ يتفرد عن أبيه بما لا أصل له [المجروحين لابن حبان: 2/ 216]

امام دارقطني رحمه الله (المتوفى385)نے کہا:

ضعيف، ولكن لا يترك[سؤالات البرقاني للدارقطني، ت الأزهري: ص: 121]


بعض ائمہ نے اس کی توثیق کی ہے لیکن اس کی تضعیف ہی راجح ہے ۔

نیزاس اثر کے راوی جریربن عبدالحمید کہتے ہیں:

أتينا قابوس بعد فساده[التاريخ الكبير للبخاري: 7/ 193 واسنادہ صحیح]

اس سے معلوم ہواکہ جریر نے جس حالت میں اس سے روایت لی ہے اس حالت میں یہ ضعیف تھے ۔

لہٰذا یہ اثر ہر حال میں ضعیف وغیرمقبول ہے۔

(۲) ابوبرزہ رضی اللہ عنہ کا اثر:

امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى235)نے کہا:

حدثنا وكيع ، عن الحسن بن حكيم ، عن أمه ، عن أبي برزة ؛ أنه كان له سكان مجوس ، فكانوا يهدون له في النيروز والمهرجان ، فكان يقول لأهله : ما كان من فاكهة فكلوه ، وما كان من غير ذلك فردوه 

ابوبرزہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ان کے کچھ مجوسی پڑوسی تھے جو انہیں نیروز اور مہرجان کے تیوہاروں میں ہدیہ دیتے تھے ، تو آپ اپنے گھروالوں سے کہتے تھے کہ : میوے کی شکل میں جوچیز ہو اسے کھالو اور اس کے علاوہ جو ہو اسے لوٹادو[مصنف ابن أبي شيبة. سلفية: 8/ 88]

یہ روایت بھی ضعیف ہے کیونکہ ”الحسن بن حکیم“ کی ”والدہ“ کا تعارف اور ان کی توثیق کہیں نہیں ملتی لہذا یہ مجہولہ ہیں۔


(۳) علی رضی اللہ عنہ کا اثر:


امام بيهقي رحمه الله (المتوفى458)نے کہا:

أخبرنا أبو عبد الله الحافظ، ثنا أبو العباس محمد بن يعقوب , ثنا الحسن بن علي بن عفان، ثنا أبو أسامة، عن حماد بن زيد، عن هشام، عن محمد بن سيرين، قال: أتي علي رضي الله عنه بهدية النيروز فقال: ما هذه؟ قالوا: يا أمير المؤمنين هذا يوم النيروز , قال: فاصنعوا كل يوم فيروز. قال أبو أسامة: كره أن يقول نيروز. قال الشيخ: وفي هذا كالكراهة لتخصيص يوم بذلك لم يجعله الشرع مخصوصا به


محمدبن سیرین کہتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ کے پاس نیروز کا ہدیہ لایا گیا تو آپ نے کہا: یہ کیا ہے ؟ لوگوں نے کہا: اے امیر المؤمنین! یہ نیروز کا دن ہے ۔ علی رضی اللہ عنہ نے کہا: تو پھر ہردن ”فیروز“ مناؤ ۔ راوی ابواسامہ کہتے ہیں کہ : علی رضی اللہ عنہ نے اس بات کو ناپسند کیا کہ ”نیزوز“ کہیں ۔ امام بیہقی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اس میں گویا کہ کراہت ہے کہ کسی ایک دن کو اس کام کے لئے مخصوص کرلیا جائے جسے شریعت نے مخصوص نہیں کیا ہے۔[السنن الكبرى للبيهقي: 9/ 392]

یہ روایت بھی ضعیف ہے کیونکہ اس کی سند میں انقطاع ہے محمدبن سیرین کا علی رضی اللہ عنہ سے سماع ثابت نہیں ہے۔ 

مزید یہ کہ اس روایت میں اس بات کی وضاحت نہیں ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے یوم نیروز کا ہدیہ قبول کیا تھا ۔بلکہ ظاہری الفاظ سے تو یہی لگتا ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے اسے ناپسند کیا ۔

امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)نے کہا:

قاله لنا موسى بن إسماعيل، عن حماد بن سلمة، عن علي بن زيد، عن سعر.وحدثنا آدم، حدثنا حماد بن سلمة، عن علي بن زيد، عن السعر التميمي؛ أتي علي بفالوذج، قال: ما هذا؟ قالوا: اليوم النيروز، قال: فنيروزا كل يوم.

سعرتمیمی کہتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ کے پاس فالوذج لایاگیا تو انہوں نے پوچھا: یہ کیاہے؟ تو لوگوں نے کہا: آج نیزوز کادن ہے۔ تو علی رضی اللہ عنہ نے کہا:پھر نیروز ہردن ہوناچاہئے[التاريخ الكبير للبخاري: 4/ 200]

یہ روایت بھی ضعیف ہے ۔ 

”سعرالتمیمی“ کو ابن حبان کے علاوہ کسی نے ثقہ نہیں کہا ہے۔

اور ”علی بن زیدبن جدعان“ ضعیف ہے. دیکھئے ہماری کتاب یزیدبن معاویہ پرالزامات کا تحقیقی جائزہ :ص 571۔

علاوہ بریں اس سے قوی تر سند سے علی رضی اللہ عنہ ہی سے منقول ہے کہ کہ وہ غیرمسلموں کے تیوہار پر ان کی ہدیہ قبول نہیں کرتے تھے چنانچہ :

امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)نے کہا:

أيوب بن دينار.عن أبيه؛ أن عليا كان لا يقبل هدية النيروز.حدثني إبراهيم بن موسى، عن حفص بن غياث.وقال أبو نعيم: حدثنا أيوب بن دينار، أبو سليمان المكتب، سمع أباه، سمع عليا بهذا

ایوب بن دینار اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے بیان کیا کہ علی رضی اللہ عنہ نیروز کا ہدیہ قبول نہیں کرتے تھے۔[التاريخ الكبير للبخاري: 1/ 414]

اس کی سند کا کوئی راوی مجروح نہیں ہے اور سب کی توثیق موجود ہے لیکن ایوب بن دینار اوران کے والد کے توثیق میں ابن حبان منفرد ہیں ، اگر ان کی تائید مل جائے تو یہ اثر صحیح ثابت ہوگا۔

---- 


                                       📝

                                سرفراز فیضی

بدھ، 30 اکتوبر، 2024

چھپکلی مارنے کا بیان






1:● 

       چھپکلی مارنے کا بیان۔

ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : 

” پہلے وار میں ستر نیکیاں ہیں ۔‌‌‌‏ “ 

[سنن ابي داود/أبواب السلام /حدیث: 5264]



     چھپکلی ۔ 

( جو کہ گھروں جنگلوں میں ہوتی ہے اور گرگٹ اس سے بڑا ہوتا ہے ) کے متعلق آتا ہے کہ یہ حضرت ابراہیم ؑ پر آگ پھونکنے میں شریک تھے اور ویسے بھی یہ بڑا زہریلا جانور ہے، اس لئے ہمیں اس کو قتل کرنے کا حکم ہے اور چاہیے کہ مسلمان جرات مند اور کامل نشانے والا ہو۔

اسی لئے مذکورہ ثواب کا بیان ہوا ہے، بعض روایات میں ہے کہ پہلی چوٹ میں مار دینے سے سو نیکیاں ملتی ہیں۔


سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعیدی، حدیث نمبر: 5264   





2:●

        حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " جس نے گرگٹ پہلی چوٹ سے مار ڈالا ، اس کو اتنی اتنی نیکیاں ملیں گی اور جس نے اس کو دوسری چوٹ سے مارا تو اس کو اتنی اتنی نیکیاں ملیں گی ، پہلے سے کم اور جس نے اس کو تیسری چوٹ سے مارا تو اس کو اتنی اتنی نیکیاں ملیں گی ، دوسری سے کم ۔ " 


[صحيح مسلم ، حديث نمبر : 5846] 


 

 ● حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی بار پر مارنے کی صورت میں زیادہ ثواب ملنے کی بشارت دی ہے ، 

تاکہ اس کو پورے اہتمام اور توجہ سے نشانہ لے کر مارا جائے اور وہ بھاگ نہ سکے ، 

نیز اس کو اذیت و تکلیف بھی زیادہ نہ ہو ، 


 ● اگر دوسری یا تیسری ضرب سے مارے گا تو بھاگنے کا امکان رہا اور تکلیف بھی زیادہ ہوئی ۔ 

سب سے بڑھ کر یہ کہ نشانہ بہتر کرنے کی مشق ہو گی ۔ 


 تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم ، شرح از عبد العزیز علوی ، حدیث نمبر : 5846 






3:● 

       ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : 


 " جو چھپکلی ۱؎ کو پہلی چوٹ میں مارے گا اس کو اتنا ثواب ہوگا ، اگر اس کو دوسری چوٹ میں مارے گا تو اس کو اتنا ثواب ہو گا اور اگر اس کو تیسری چوٹ میں مارے گا تو اس کو اتنا ثواب ہو گا " ۲؎ ۔ 



امام ترمذی کہتے ہیں : 

  ۱- ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے ، 

 ۲- اس باب میں ابن مسعود ، سعد ، عائشہ اور ام شریک سے بھی احادیث آئی ہیں ۔ 



1: ● ہندوستان میں لوگ گرگٹ کو غلط طور پر وزع سمجھ کر اس کو مارنا ثواب کا کام سمجھتے ہیں جب کہ وہ عام طور پر جنگل جھاڑی میں رہتا ہے اور چھپکلی اپنی ضرر رسانیوں کے ساتھ گھروں میں پائی جاتی ہے ، 

اس لئے اس کا مارنا موذی کو مارنا ہے جس کے مارنے کا ثواب بھی ہے ۔ 


2 : ● صحیح مسلم میں ہے کہ پہلی چوٹ میں مارنے پر سو اور دوسری میں اس سے کم اور تیسری میں اس سے بھی کم نیکیاں ملیں گی ، 


امام نووی کہتے ہیں

پہلی چوٹ میں نیکیوں کی کثرت کا سبب یہ ہے تاکہ لوگ اسے مارنے میں پہل کریں اور اسے مارکر مذکورہ ثواب کے مستحق ہوں ۔ 

 

سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة ، نئى دهلى ، حدیث نمبر : 1482 



تخریج الحدیث : « صحیح مسلم / السلام 38 ( الحیؤن 2 ) ( 2240 ) ، سنن ابی داود / الأدب 175 ( 5263 ) ، سنن ابن ماجہ / الصید 12 ( 3228 ) ، ( تحفة الأشراف : 12661 ) ، و مسند احمد ( 2 / 355 ) ( صحیح ) »


قال الشيخ الألباني : صحيح



 

 

 


4: ●

         پہلی ضرب میں مار ڈالنے کا ثواب اس لیے زیادہ ہے کہ قتل کرنے میں بھی بہتر طریقہ اختیار کرنے کا حکم ہے جس سے جانور کی جان جلد نکل جائے ۔ 


● یہ قتل میں رحم دلی کا اظہار ہےاور اس لیے بھی کہ ایک ضرب سے مارنے سے حکم کی تعمیل کا جذبہ اور قوت ظاہر ہوتی ہے جو مستحسن ہے ۔ 


 سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد ، حدیث نمبر : 3229 




                                 📝

                                راضی 

پیر، 20 مئی، 2024

نامۂ اعمال لپیٹ دیے جانے سے پہلے عمل کر لیں



  بشر بن عبد اللہ بیان کرتے ہیں: کہ ابو بکر نہشلی رحمہ اللہ جب وفات کے بالکل قریب تھے ہم ان کے پاس گئے، وہ اپنے سر کو اشارے سے اوپر نیچے کر رہے تھے جیسے نماز ادا کر رہے ہوں، ان کے ساتھیوں میں سے کسی نے کہا : اللہ آپ پر رحم کرے! اس حالت میں بھی؟ تو انہوں نے جواب دیا : میں اپنے نامۂ اعمال کے بند ہونے سے پہلے جلدی (جلدی مزید نیک عمل) کرنا چاہ رہا ہوں ۔ (الزهد لابن أبي الدنيا : ٦١

  ابو محمد جریری بیان کرتے ہیں: کہ میں جنید رحمہ اللہ کی وفات کے وقت ان کے سر کے قریب کھڑا تھا، جمعہ کا دن تھا اور وہ قرآن کی تلاوت کیے جا رہے تھے، میں نے کہا : ابو القاسم! اپنی جان کو کچھ سکون دیجیے ۔ تو فرمانے لگے : ’’میرے خیال میں اس وقت مجھ سے زیادہ اس (نیک عمل) کا محتاج کوئی نہیں ہے، کیوں کہ وہاں میرا نامۂ اعمال لپیٹا جا رہا ہے۔‘‘ (شعب الإيمان للبيهقي : ٤/ ٥٤٢)

بعض روایات کے مطابق آپ نے اسی حالت میں قرآن مجید ختم کر کے سورہ البقرہ شروع کی تھی، ابھی ستر آیات ہوئیں تھیں کہ روح پرواز کر گئی۔ (شذرات الذهب لابن العماد : ٣/ ٤١٨)

     غور کیجئے!  سلف صالحین کس طرح آخری سانس تک اپنے نامہ اعمال میں مزید سے مزید اعمالِ صالحہ کا اضافہ کرنے کی کوشش میں لگے رہتے تھے، جبکہ ہم دن رات فضولیات، غیر مفید اور بے مقصد کاموں میں گھنٹوں ضائع کر رہے ہوتے ہیں اور ہمیں کسی قسم کی کوئی فکر یا ندامت بھی نہیں ہوتی، یوں لگتا جیسے ہم نے بہت نیک عمل کر لیے ہیں کہ جن میں اب مزید کی گنجائش ہی نہیں۔

  ابو محمد، حبیب بن محمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

’’فارغ نہ بیٹھو، موت آپ کی تلاش میں پیچھے آ رہی ہے۔‘‘ (ذم الدنيا لابن أبي الدنيا : ٥٤ وسنده جيد) 

 عبد الواحد بن صفوان بیان کرتے ہیں: کہ ہم امام حسن بصری رحمہ اللہ کے ساتھ ایک جنازے میں تھے، وہ فرمانے لگے : ’’اللہ تعالی اس بندے پر رحم کرے جو اس جیسے دن کے لیے عمل کرلے، دیکھو! آج آپ وہ کام کرنے کی طاقت رکھتے ہیں جس کی آپ کے قبروں والے یہ بھائی نہیں رکھتے، اس لیے گھبراہٹ اور حساب والے دن سے پہلے پہلے اپنی صحت اور فارغ وقت کو غنیمت جان لو۔‘‘ (قصر الأمل لابن أبي الدنيا : ١٤١ وسنده جيد)

اللہ تعالی ہمارے دلوں میں فکرِ آخرت پیدا فرما دے ۔ آمین ۔


                           



                                   📝

                        حافظ محمد طاھر

ہفتہ، 18 مئی، 2024

نکاح کے فوراً بعد ولیمہ کی شرعی حیثیت

      




         شادی اور نکاح میں ولیمہ کرنا باتفاق امت مشروع ہے کیوں کہ ولیمہ کرنانبی ﷺ کے قول اور فعل دونوں سے ثابت ہے ، لیکن اہل علم کے درمیان اس بارے میں اختلاف ہے کہ ولیمہ فرض ہے یا سنت؟

بہت سے اہل علم کا مذہب ہے کہ ولیمہ سنت ہے اور اس بارے میں جو حدیثیں وارد ہیں وہ استحباب کے لیے ہیں کیوں کہ یہ دعوت خوشی اور مسرت کی وجہ سے مشروع ہے تو جس طرح دیگر خوشی کی دعوتیں واجب نہیں ہیں اسی طرح ولیمہ بھی واجب نہیں ہے ۔ ابن قدامہ نے کہا :

’’وليست واجبة فى قول أكثر أهل العلم۔وقال بعض أصحاب الشافعي:هي واجبة، لأن النبى ﷺ ۔أمر بها عبد الرحمٰن بن عوف، ولأن الإجابة إليها واجبة؛ فكانت واجبة۔ولنا، أنها طعام لسرور حادث، فأشبه سائر الأطعمة، والخبر محمول على الاستحباب‘‘

’’اکثر اہل علم کے قول کے مطابق ولیمہ واجب نہیں ہے اور بعض اصحاب شافعی کا مذہب ہے کہ ولیمہ واجب ہے کیوں کہ نبی ﷺ نے عبد الرحمٰن بن عوف کو ولیمہ کرنے کا حکم دیا تھا اور اس لیے بھی کہ ولیمہ کی دعوت قبول کرنا واجب ہے لہٰذا ولیمہ بھی واجب ہوگا، ہماری دلیل یہ ہے کہ ولیمہ ایک ایسی دعوت ہے جو حصولِ مسرت کی وجہ سے کی جاتی ہے ، لہٰذا وہ دوسری دعوتوں کے مثل ہے اور حدیث میں وارد امر استحباب پر محمول ہے …‘‘

[المغنی :۱۰؍۱۹۳،ط:دار عالم الکتب]

ولیمہ کی فرضیت کا قول صرف بعض اصحاب شافعی کا نہیں بلکہ بہت سے اہل علم کا مذہب ہے ، ابن حزم نے کہا :

’’وفر ض علی کل من تزوج ان یولم بما قل اوکثر‘‘’’جو شادی کرے اس پر فرض ہے کہ ولیمہ کرے خواہ کم ہو یا زیادہ‘‘[المحلی :۹؍۴۵۰(۱۸۱۹)]

دلائل کی روشنی میں یہی بات راجح ہے کہ بقدر استطاعت ولیمہ فرض ہے ، ایک دلیل تو یہ ہے کہ نبی ﷺ نے عبد الرحمٰن بن عوف کو اس کا حکم دیا تھا :’’اولم ولوبشاة‘‘’’ولیمہ کرو اگر چہ ایک ہی بکری کیوںنہ ہو‘‘ [بخاری:۲۰۴۸ ، مسلم:۱۴۲۷]

دوسری حدیث میں نبی ﷺ نے علی رضی اللہ عنہ کو حکم دیتے ہوئے فرمایا:

’’يا على ! انه لا بد للعرس من وليمة‘‘’’اے علی ! شادی کے لیے ولیمہ ضروری ہے ‘‘[مسند احمد: ۳۸؍ ۱۴۲(۲۳۰۳۵]

اور تیسری بات یہ ہے کہ نبی ﷺ اور صحابہ کرام سے ولیمہ کا ترک کبھی بھی ثابت نہیں ہے ، یہ مواظبت اور پابندی مذکورہ امر کے ساتھ وجوب کی دلیل ہے ۔

امام البانی رحمہ اللہ نے کہا :’’ولابد له من وليمة بعد الدخول‘‘ ’’شادی میں زوجین کی ملاقات کے بعد ولیمہ ضروری ہے ‘‘[آداب الزفاف:۱۴۴]

علامہ حسین عوایشہ نے بھی الموسوعۃ الفقہیۃ المیسرۃ :۵؍۲۰۳ میں کہا ہے ’’وجوب الوليمة‘‘ ’’ولیمہ کا شرعی حکم یہ ہے کہ استطاعت کے بقدر فرض ہے ۔

لیکن اب سوال یہ ہے کہ کب کیا جائے ؟ کیا عقد کے بعد اور زوجین کی ملاقات سے قبل ولیمہ درست ہے ؟

اس سلسلے میں جو نصوص ہمارے سامنے ہیں ان کا تقاضا یہی ہے کہ ولیمہ زوجین کی ملاقات کے بعد مشروع ہے ، صرف عقد کے بعد ولیمہ کرنا کسی بھی نص میں اور کسی بھی واقعہ میں ثابت نہیں ہے ، اتباع سنت کا تقاضا یہ ہے کہ اسے اسی وقت انجام دیا جائے جب ثابت ہے ، اور جس وقت ثابت نہیں ہے اس وقت اسے انجام دینے سے احتراز برتا جائے ۔

نبی ﷺسے ولیمہ کے متعلق جو عمل ثابت ہے وہ یہی ہے کہ آپ نے ملاقات کے بعد ہی ولیمہ کیاہے، صرف عقد کے بعد ملاقات سے قبل کبھی نہیں کیا ہے ۔

اسی طرح صحابۂ کرام کے جو واقعات ہیں وہ بھی اسی طرح ہیں ، ان سے بھی زوجین کی ملاقات سے قبل ولیمہ کرنے کا کوئی ثبوت نہیں ہے ، ولیمہ کرنا ایک شرعی حکم ہے اور اسے بطور عبادت انجام دیا جاتا ہے، اس لیے اسے انجام دینے کا جو طریقہ مروی ہے اسی پر اکتفا کرلینا ضروری ہے کیونکہ تعبد کا یہی تقاضا ہے اور اتباع بھی یہی ہے ، اور ایسی صورت میں یقین ہے کہ حکم پورا ہوگیا اور اس سے مختلف صورت میں اگر ادا کیا جائے تو کم ازکم یہ تو ہے کہ معلوم نہیںکہ حکم پورا ہوا یا نہیں !

کتبِ فقہ کی جستجوکے بعد یہ مسئلہ فقہاء کے یہاں نفیاً یا اثباتاً نظر نہیں آتا، ان سے یہ صراحت نہیں ملتی کہ عقد کے بعد ولیمہ کرنا مشروع ہے یا ممنوع ؟ ولیمہ کی مشروعیت کے لیے زوجین کی ملاقات ضروری ہے یا نہیں؟ اس کی کوئی وضاحت نہیں ملتی ، مگر احادیث میں ولیمہ کرنے کی جو صورت زمانۂ رسالت میں ثابت ہے اس کاتقاضا یہی ہے کہ زوجین کی ملاقات کے بعد ہی ولیمہ کی مشروعیت ہوتی ہے اس سے قبل نہیں۔

پھر میں نے دیکھا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے سلف کا اختلاف نقل کیا ہے۔فرمایا :

’’وقداختلف السلف فى وقتها هل هو عند العقد اوعقبه اوعند الدخول اوعقبه ، او موسع من ابتدأالعقد الي انتهاء الدخول على اقوال‘‘

’’اور ولیمہ کے وقت کے سلسلے میں سلف کے مابین اختلاف کی بنا پر کئی اقوال ہیں :نکاح کے وقت یا نکا ح کے بعد ولیمہ، دخول کے وقت یا دخول کے بعد یا پھر عقد کے بعد سے لے کر دخول کے بعد اس کے وقت میں وسعت ہے‘‘

[الفتح:۹؍۲۳۰]

سلف کے یہ پانچ اقوال ہیں ولیمہ کے وقت کے بارے میں ۔

البتہ فقیہ سنت مجدد زمانہ امام البانی رحمہ اللہ کے کلام میں اس کی طرف رہنمائی موجود ہے ، انہوں نے آداب الزفاف : ۱۴۴، میں ولیمہ کے لیے زوجین کی ملاقات کا تذکرہ کیا ہے اور کہا:’’ولا بد له من عمل وليمة بعد الدخول ‘‘ اس کا مطلب یہی ہے کہ شوہربیوی سے ملاقات کرلے اور دونوں کو خلوت صحیحہ حاصل ہو اس کے بعد ولیمہ واجب ہوگا۔ دوسری جگہ کہا:’’ان تكون ثلاثة ايام عقب الدخول لانه هو المنقول عن النبى ﷺ ‘‘ ’’کہ ولیمہ کا وقت دخول کے بعد تین دنوں تک ہے کیونکہ یہی نبی ﷺ سے منقول ہے‘‘[آداب الزفاف:۱۴۵، الموسوعۃ:۵؍۲۰۳]

یہی بات ان کے شاگرد حسین عوایشہ نے بھی نقل کرکے تائید کی ہے ۔[الموسوعۃ الفقھیۃ المیسرۃ:۵؍۲۰۳]

ان سے قبل شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے لکھاہے کہ :’’وقت الوليمة فى حديث زينب وصفته يدل على انه عقب الدخول ‘‘’’زینب کی حدیث میں ولیمہ کا وقت اور اس کی صفت موجود ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ ولیمہ دخول کے بعد ہے ‘‘[الاختیارات العلمیۃ:۳۴۶]یعنی زوجین کی ملاقات کے بعد ۔حافظ نے کہا :’’وحديث انس صريح فى انها بعد الدخول لقوله فيه:’’اصبح عروسابزينب فدعا القوم‘‘’’حدیث انس اس بارے میں بالکل واضح ہے کہ ولیمہ دخول؍ملاقات کے بعد ہے کیونکہ انہوں نے اس سلسلہ میں کہا ہے کہ:آپ ﷺ نے زینب سے زفاف منا کر صبح کیا، پھر لوگوں کو مدعو کیا ‘‘[الفتح:۹؍۲۳۱]

دکتور علاء شعبان زعفرانی نے کہا:

’’والافضل فعل وليمة النكاح بعد الدخول اقتداء بفعل النبى ﷺ فان لم يتيسر ذالك فلا حرج من فعلها قبل الدخول ان عند العقد او بعده ‘‘

’’اور نبی ﷺ کے عمل کی اقتداء میں افضل تو یہی ہے کہ دخول کے بعد ولیمہ کیاجائے لیکن اگر ایسا کرنا ممکن نہ ہو تو نکاح کے وقت یا اس کے بعد دخول سے پہلے بھی کرنے میں کوئی حرج نہیںہے‘‘

[شبکۃ الألوکۃ،اٹرنیٹ]

صنعاني نے كها :قال السبكي :’’والمنقول من فعل النبى ﷺ انها بعد الدخول وكأنه يشيرالي قصهٖ زواج زينب بنت جحش لقول انس: اصبح النبى ﷺ عروسا بزينب فدعا القوم وقد ترجم عليه البيهقي ’’باب وقت الوليمة‘‘

کہ امام سبکی نے فرمایا :’’اور نبی ﷺ کے فعل سے یہی منقول ہے کہ ولیمہ دخول کے بعد ہے اور گویا کہ وہ زینب بنت جحش کے نکاح کے قصے کی طرف اشارہ کررہے تھے کیونکہ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیںکہ : آپ ﷺ نے زینب سے زفاف مناکر صبح کیا پھر لوگوں کو مدعو کیا اور امام بیہقی نے اس پر باب باندھا : ’’ولیمہ کے وقت کا باب ‘‘

[سبل السلام:۲؍۲۲۷]

قال الدميري:’’لم يتعرض الفقهاء لوقت وليمة العرس۔والصواب انها بعد الدخول‘‘

’دمیری کہتے ہیں کہ :’’فقہاء کرام نے نکاح کے ولیمہ کے وقت کے سلسلے میں کوئی کلام نہیں کیا البتہ درست یہی ہے کہ ولیمہ دخول کے بعد ہے‘‘

[النجم الوہاج:۷؍۳۹۳]

محمد علی فرکوس نے کہا :

’’ومن التزامات الزوج ايضا الوليمة التى تجب فى حقه عقب الدخول بزوجته ان قدر على ذالك لان النبيﷺ دعا القوم بعد الدخول بزينب رضي اللّٰه عنها۔۔۔‘‘

’’اور شوہر پر ولیمہ کرنا بھی واجب ہے جو کہ دخول کے بعد ہوگا اگر اس کے لیے ایسا کرنا ممکن ہے ۔کیونکہ نبی ﷺ نے زینب رضی اللہ عنہا سے دخول کے بعد ہی لوگوں کو دعوت دی تھی‘‘

[انٹرنیٹ منتدیات الامام الأجری]

’’الافضل فعلها بعد الدخول لان النبى ﷺ لم يولم علٰي نسائه الا بعد الدخول‘‘

’’دخول کے بعد ولیمہ کرنا افضل ہے کیونکہ نبی ﷺ نے اپنی تمام بیویوں سے دخول کے بعد ہی ولیمہ کیا ہے‘‘

[مغنی المحتاج :۴؍ ۴۰۴]

ولیمہ کے بارے میں وارداحادیث کا یہی تقاضا ہے ۔ انس رضی اللہ عنہ نے کہا :

’’اصبح رسول اللّٰه ﷺ عروسا بزينب بنت جحش وكان تزوجها بالمدينة فدعا الناس للطعام بعد ارتفاع النهار‘‘

’’نبی ﷺ نے زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کے دولہا کی حیثیت سے صبح کیا ، آپ نے ان سے مدینہ میںشادی کی تھی ، دن چڑھنے کے بعد آپ نے لوگوں کو کھانے کے لیے بلایا ‘‘

[بخاری:۴۷۹۳،مسلم :۱۴۲۸]

دوسرا لفظ اس طرح ہے :

’’اصبح النبى ﷺ بها عروسا فدعاالقوم فأصابوا من الطعام‘‘

’’کہ نبی ﷺ نے زفاف مناکر صبح کی اور لوگوں کو دعوت دی تو لوگوں نے کھانا کھایا‘‘

[بخاری:۵۱۶۶]

ایک حدیث میں ہے ۔انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا:

’’بني النبى ﷺ بامرأة فأرسلني فدعوت رجالاً على الطعام ‘‘

’’نبی ﷺ نے ایک عورت کے ساتھ زفاف منایا پھر آپ نے مجھے بھیجا تو میں نے لوگوں کو کھانے پر مدعو کیا‘‘

[بخاری:۵۱۷۰]

انہی کی ایک حدیث میں ہے :

’’مارأيت رسول اللّٰه ﷺ اولم علٰي امرأة من نسائه ما اولم على زينب‘‘

’’میں نے نہیں دیکھا کہ نبی ﷺ نے کسی بیوی کا ولیمہ کیا ہو جیساآپ نے زینب کاولیمہ کیا‘‘

[بخاری: ۵۱۶۸، مسلم:۱۴۲۸]

ہمارے زمانہ کے بعض علماء کا کہنا ہے کہ عقد کے بعد ملاقات سے پہلے ولیمہ کیوں غلط ہے؟ شریعت نے کہاں منع کیا ہے کہ ملاقات سے قبل ولیمہ نہ کرو؟

یہ حیرت ناک استدلال ہے کیونکہ ولیمہ ایک عبادت اور ایک شرعی حکم ہے اس کی ادائیگی شریعت کے مطابق ہی ہونا چاہیے ، چونکہ ولیمہ زوجین کی ملاقات کے بعد ہی ثابت ہے لہٰذا ہمیں بھی اس کے بعد ہی کرنا چاہیے اور اگر عقد کے معاً بعد ولیمہ کرنے کی کوئی دلیل مل جائے تب تو ٹھیک ہے ورنہ یہ کہنا بہت غلط ہے کہ منع کی دلیل لاؤ!!!

اس کو اس طرح بھی کہا جاسکتاہے کہ ممانعت کی دلیل تو نہیں ہے آپ جواز کی دلیل کی پیش کریں!! کیونکہ عبادت کے ثبوت کے لیے دلیل چاہیے نفی کے لیے نہیں ۔

بعض لوگوں کا اس استدلال پر یہ اعتراض بڑا وزن رکھتا ہے کہ عقد سے قبل ولیمہ کرنا کیوں ممنوع ہے ؟ عقد سے پہلے ولیمہ غلط ہے اس کی کیا دلیل ہے ؟ نبیﷺ نے کہاں فرمایا ہے کہ عقد سے قبل ولیمہ مت کرو!!اگر حدیث میں یہ ممانعت وارد نہیں ہے کہ عقد سے پہلے ولیمہ نہ کرو تو کیا یہ جائز ہوگا؟

ہر گز نہیں ۔ بلکہ ممانعت کی دلیل یہ ہوگی کہ ایسا کرنا نبی ﷺ اور صحابۂ کرام سے ثابت نہیں ہے ، اسی طرح ملاقات سے قبل ولیمہ کے ممنوع ہونے کی دلیل یہ ہوگی کہ یہ ثابت نہیں ہے ۔

منبر پر خطبہ دینا نبیﷺ کا طریقہ رہا ہے اور منبر بن جانے کے بعد آپ اسی پر خطبہ دیتے تھے، لہٰذا بلا عذر بغیر منبر خطبہ دینا غلط ہوگا۔

اب اگر کوئی بلا منبر خطبہ دے اور کہے کہ یہ تو ممنوع نہیں ہے ، ممانعت کی دلیل لاؤ اور ایسی کوئی حدیث پیش کرو کہ نبی ﷺ نے بلا منبر خطبہ جمعہ دینے سے منع کیا ہو؟ پھر ہم کیا کریں گے اس دلیل کو تسلیم کرلیں گے ؟ ہر گز نہیں ۔بلکہ کہیں گے کہ خطبۂ جمعہ منبر سے ثابت ہے لہٰذا منبر سے ہی مسنون ہے اور چونکہ منبر کی موجودگی میں بلا منبر خطبۂ جمعہ ثابت نہیں ہے اس لیے وہ غلط ہے ۔

یہی معاملہ یہاں بھی ہے کہ ولیمہ زوجین کی ملاقات کے بعد ثابت ہے لہٰذا اسی وقت مسنون ہے اور ملاقات سے قبل ثابت نہیں ہے اس لیے مسنون نہیں ہے ، اس کے ممنوع ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ ثابت نہیں ہے ۔

اس پوری گفتگو سے بات واضح ہوتی ہے کہ ولیمہ چونکہ ایک عباد ت ہے اس لیے جس طرح ثابت ہے اسی پر اکتفا کیا جائے اور غیر ثابت طریقے پر انجام دینے سے بچا جائے ۔







                                         📝

                       محمد جعفر انوار الحق الہندی

منگل، 14 مئی، 2024

غیر مسلموں کے برتن میں کھانے پینے کا حکم




بر صغیر کے بہت سارے مسلمان غیر مسلموں کے ساتھ تعامل میں افراط وتفریط کے شکار ہیں۔ بعض رواداری میں اتنے آگے بڑھے ہوئے ہیں کہ ان کے مذہبی تہواروں مثلا ہولی، دیوالی، کرسمس وغیرہ پر انھیں مبارکباد دینے، بلکہ ان میں شرکت کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں، اور اسے اپنی روشن خیالی تصور کرتے ہیں۔ جب کہ بعض ان کے ساتھ تعامل میں اتنی شدت برتتے ہیں کہ ان کے برتنوں میں کھانے پینے سے پرہیز تو کرتے ہی ہیں، اپنے برتنوں کو بھی انھیں استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ اگر کسی کے گھر میں کوئی غیر مسلم مزدور ہے اور اسے کھانا پیش کرنا اس کی مجبوری ہے تو اس کا برتن اور مجلس الگ کر دیتے ہیں۔

یقینا یہ تعامل شرعی تعلیمات سے دور اور افراط وتفریط پر مبنی ہے۔ اس میں راہ اعتدال وہی ہے جس کی شریعت نے ہمیں تعلیم دی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام نے اپنی پوری زندگی غیر مسلموں کے درمیان رہتے ہوئے گزاری ہے۔ اور ان سے بڑھ کر نہ کوئی روادار اور روشن خیال ہوسکتا ہے، اور نہ شعائر اسلام پر غیرت مند۔ بلا شبہ ان کا طریقہ سب سے بہتر طریقہ ہے، اور لائق اتباع وذریعہ نجات بھی۔

اسلام ہمیں ہر ایک کے ساتھ حسن سلوک کی تعلیم دیتا ہے۔ چاہے وہ مسلم ہو یا غیر مسلم۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

وَإِنْ جَاهَدَاكَ عَلَى أَنْ تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلا تُطِعْهُمَا وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا۔ [سورہ لقمان: 15]

(اگر وہ دونوں تمھیں میرے ساتھ شرک کرنے کا حکم دیں جس کا تمھیں علم نہیں تو ان کی اطاعت نہ کرو، اور دنیاوی معاملات میں ان دونوں کے ساتھ حسن سلوک کرو)

یہاں اللہ رب العزت نے والدین کے غیر مسلم ہونے کے باوجود ان کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہے۔

ایک دوسری آیت میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

لا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ أَن تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ۔ [سورہ الممتحنہ:8]

(جو لوگ تم سے دین کے معاملے میں جنگ نہیں کرتے، اور نہ تمھیں گھروں سے باہر نکالتے ہیں اللہ تعالی تمھیں ان کے ساتھ حسن سلوک اور عدل وانصاف کرنے سے منع نہیں کرتا۔ اللہ تعالی انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے)

امام المفسرین امام طبری رحمہ اللہ اس آیت میں مفسرین کے مختلف اقوال ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:

“أَوْلَى الْأَقْوَالِ فِي ذَلِكَ بِالصَّوَابِ قَوْلُ مَنْ قَالَ: عُنِيَ بِذَلِكَ {لَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ} مِنْ جَمِيعِ أَصْنَافِ الْمِلَلِ وَالْأَدْيَانِ أَنْ تَبَرُّوهُمْ وَتَصِلُوهُمْ، وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ، إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ عَمَّ بِقَوْلِهِ: الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ جَمِيعَ مَنْ كَانَ ذَلِكَ صِفَتَهُ، فَلَمْ يُخَصِّصْ بِهِ بَعْضًا دُونَ بَعْضٍ، وَلَا مَعْنَى لِقَوْلِ مَنْ قَالَ: ذَلِكَ مَنْسُوخٌ، لِأَنَّ بِرَّ الْمُؤْمِنِ مِنْ أَهْلِ الْحَرْبِ مِمَّنْ بَيْنَهُ وَبَيْنَهُ قَرَابَةُ نَسَبٍ، أَوْ مِمَّنْ لَا قَرَابَةَ بَيْنَهُ وَبَيْنَهُ وَلَا نَسَبٌ غَيْرُ مُحَرَّمٍ وَلَا مَنْهِيٌّ عَنْهُ إِذَا لَمْ يَكُنْ فِي ذَلِكَ دَلَالَةٌ لَهُ، أَوْ لِأَهْلِ الْحَرْبِ عَلَى عَوْرَةٍ لِأَهْلِ الْإِسْلَامِ، أَوْ تَقْوِيَةٌ لَهُمْ بِكُرَاعٍ أَوْ سِلَاحٍ”. [تفسیر طبری: 22/574]

(اس میں تمام اقوال میں سے سب سے زیادہ صحیح قول یہ ہے کہ تمام ادیان وملل میں سے جو بھی تمھارے ساتھ دین کو لے کر جنگ نہیں کرتے بلکہ اللہ تعالی ان کے ساتھ حسن سلوک، صلہ رحمی اور عدل وانصاف کرنے سے تمھیں منع نہیں کرتا۔ اللہ تعالی کا یہ قول ”جو لوگ تم سے دین کے معاملے میں جنگ نہیں کرتے، اور نہ تمھیں گھروں سے باہر نکالتے ہیں“ ہر اس شخص کو عام ہے جن کی بھی یہ صفت ہو۔ ان میں سے بعض کو چھوڑ کر بعض کو اللہ نے خاص نہیں کیا ہے۔ اسی طرح اس قول کی بھی کوئی اہمیت نہیں جو کہتے ہیں کہ ” یہ منسوخ ہے“، کیونکہ کسی مؤمن کا کسی حربی خاندانی رشتے دار کے ساتھ حسن سلوک کرنا، یا کسی اجنبی حربی کے ساتھ حسن سلوک کرنا نہ حرام ہے اور نہ ممنوع، اگر وہ کسی حربی کو اسلام کےخفیہ امور کا انفارمیشن نہ دے، یا ہتھیار کے ذریعہ تقویت نہ پہنچائے)

ان کے ساتھ حسن سلوک کا تقاضا یہ ہے کہ ان کے ساتھ ایسا تعامل نہ کیا جائے جس سے اسلام اور مسلمانوں کے تئیں ان کے دلوں میں نفرت وعداوت پیدا ہو۔ بلکہ ہمارا تعامل ایسا ہو جس سے وہ اسلام کے قریب آئیں۔ اسی کا ایک مظہر یہ ہے کہ ان کے برتنوں میں نجاست نہ لگی ہو تو استعمال کرنے سے گریز نہ کیا جائے۔ اور اگر انھیں کھانا پیش کرنا ہو تو ان کا برتن الگ نہ کیا جائے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت میں ہمیں کہیں یہ نہیں ملتا کہ آپ نے برتنوں کے معاملہ میں کبھی مسلم وغیر مسلم کے درمیان کوئی تفریق کی ہو۔ جو صحابہ کرام اسلام قبول کرتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم انھیں ہر طرح کی تعلیم دیتے۔ اگر ان نو مسلم صحابہ کرام کے لیے کفار ومشرکین کے برتنوں کا استعمال کرنا نا جائز ہوتا تو ضرور آپ انھیں اس کی تعلیم دیتے، کیونکہ اس کا تعلق عموم بلوی سے تھا۔ تقریبا ہر گھر کا یہ معاملہ تھا کہ صحابہ کرام کے بعض رشتے دار غیر مسلم تھے۔ لیکن ایک بھی ایسا واقعہ نہیں ملتا کہ کسی صحابی نے برتنوں کے معاملے میں اس طرح کی کوئی تفریق کی ہو۔

اس کے بر عکس اس بات کے متعدد شواہد ملتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے غیر مسلموں کا برتن استعمال کیا ہے۔ ذیل میں اس کے چند نمونے پیش کیے جا رہے ہیں:

(1) آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ ایک سفر میں تھے۔ راستے میں پانی ختم ہوگیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دو ساتھیوں کو کہا کہ جاؤ پانی تلاش کرو، ان میں سے ایک علی رضی اللہ عنہ تھے۔ یہ دونوں نکلے۔ راستہ میں ایک عورت ملی جو پانی کے دو مشکیزے اپنے اونٹ پر لٹکائے ہوئے بیچ میں سوار ہو کر جا رہی تھی۔ انھوں نے اس سے پوچھا کہ پانی کہاں ملتا ہے؟ اس نے جواب دیا کہ کل اسی وقت میں پانی پر موجود تھی۔ (یعنی پانی اتنی دور ہے کہ کل میں اسی وقت وہاں سے پانی لے کر چلی تھی، آج یہاں پہنچی ہوں) اور ہمارے قبیلہ کے مرد لوگ پیچھے رہ گئے ہیں۔ انھوں نے اس سے کہا: اچھا ہمارے ساتھ چلو۔ اس نے پوچھا: کہاں؟ انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں۔ اس نے کہا: اچھا وہی جن کو لوگ صابی کہتے ہیں۔ انھوں نے کہا: ہاں یہ وہی ہیں، جو تم کہہ رہی ہو، اچھا اب چلو۔ آخر یہ دونوں حضرات اس عورت کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے کر حاضر ہوئے، اور سارا واقعہ بیان کیا۔ لوگوں نے اسے اونٹ سے اتارا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک برتن طلب فرمایا۔ اور دونوں مشکیزوں کے منہ اس برتن میں کھول دیے۔ پھر ان کا اوپر کا منہ بند کر دیا۔ اس کے بعد نیچے کا منہ کھول دیا اور تمام لشکریوں میں منادی کر دی گئی کہ خود بھی سیر ہو کر پانی پئیں اور دوسروں کو بھی پلائیں۔ پس جس نے چاہا پانی پیا اور پلایا، یہاں تک کہ سب سیر ہوگئے۔ آخر میں اس شخص کو بھی ایک برتن میں پانی دیا جسے غسل کی ضرورت تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لے جا اور غسل کر لے۔ وہ عورت کھڑی دیکھ رہی تھی کہ اس کے پانی سے کیا کیا کام لیے جا رہے ہیں۔ اللہ کی قسم! جب ان مشکیزوں سے پانی لیا جانا بند ہوا، تو ہمیں لگ رہا تھا کہ اب مشکیزوں میں پانی پہلے سے بھی زیادہ موجود ہے۔

یہ روایت بہت طویل ہے۔ آگے اس روایت میں ہے کہ وہ عورت اور اس کا قبیلہ بعد میں مسلمان ہو گیا تھا۔ (متفق علیہ: صحیح بخاری، حدیث نمبر 344، وصحیح مسلم، حدیث نمبر 682)

(2) جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

“كُنَّا نَغْزُو مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَنُصِيبُ مِنْ آنِيَةِ الْمُشْرِكِينَ وَأَسْقِيَتِهِمْ، فَنَسْتَمْتِعُ بِهَا، فَلَا يُعَابُ عَلَيْنَا”۔ [مسند احمد: 23/292، حدیث نمبر 15053]

(ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ میں شریک ہوتے، جہاں مال غنیمت کے طور پر مشرکین کے برتن اور مشکیزے پاتے، تو ان سے ہم فائدہ اٹھاتے، اور ہم پر کوئی نکیر نہیں کی جاتی)

علامہ البانی رحمہ اللہ نے ”ارواء الغلیل“ (1/76) میں اس کی سند کو حسن کہا ہے۔

(3) عبد اللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

“أَصَبْتُ جِرَابًا مِنْ شَحْمٍ يَوْمَ خَيْبَرَ، قَالَ: فَالْتَزَمْتُهُ، فَقُلْتُ: لَا أُعْطِي الْيَوْمَ أَحَدًا مِنْ هَذَا شَيْئًا، قَالَ: فَالْتَفَتُّ، فَإِذَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَبَسِّمًا”۔ [صحيح مسلم: 3/1393، حدیث نمبر 1772]

(میں نے خیبر کے دن چمڑے کی ایک تھیلی میں چربی پایا، تو اسے اپنے پاس رکھ لیا، اور کہا کہ آج کسی کو اس سے حصہ نہیں دوں گا، جب میں پیچھے مڑا تو دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا رہے تھے)

اس میں محل شاہد چمڑے کی تھیلی جس میں چربی تھی اسے عبد اللہ بن مغفل کا لینا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انھیں منع نہ کرنا ہے۔ اگر یہود کے برتنوں کا استعمال ناجائز ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم انھیں منع فرماتے، یا کم از کم چربی پھینک دینے اور تھیلی کو دھو کر استعمال کرنے کے لیے کہتے۔ لیکن آپ نے ایسا کچھ نہیں فرمایا جو اس بات کی دلیل ہے کہ یہود کے برتنوں کو استعمال کرنا جائز ہے۔

(4) صحیح بخاری (حدیث نمبر3169) میں ہے:

جب خیبر فتح ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کھانے کے لیے ایک بکری پیش کی گئی جو زہر آلود تھی۔

دیگر کتب حدیث میں اس کی مزید تفصیلات وارد ہیں لیکن اسنادی اعتبار سے ان میں سے بعض پر کلام ہے۔ سنن ابی داود(حدیث نمبر 4511) میں ہے کہ آپ کے ساتھی بشر بن براء بن معرور رضی اللہ عنہ کی اس زہر آلود بکری کو کھانے کی وجہ سے وفات بھی ہو گئی تھی۔ شیخ شعیب ارنؤوط نے اس روایت کو ثابت مانا ہے، اور اسے صحیح لغیرہ قرار دیا ہے۔ [سنن ابی داود، بتحقیق الشیخ شعیب ارنؤوط: 6/565-568]

اس میں محل شاہد آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں کا یہود کے برتنوں کو استعمال کرنے سے پرہیز نہ کرنا ہے۔ ظاہر سی بات ہے ایک بکری کو کھانے کے لائق تیار کرنے، اور اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کرنے کے لیے برتن کا استعمال کرنا ناگزیر ہے۔ اگر یہود کے برتنوں کو استعمال کرنا نا جائز ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے بشر بن براء رضی اللہ عنہ کو ضرور روکتے۔ اور اس مسئلہ کی ضرور وضاحت فرماتے۔

کتب الفقہ میں علما نے اس مسئلہ کو بیان کیا ہے، اور اس میں علما کا اختلاف بھی نقل کیا ہے۔ بعض علما نے جہاں کفار ومشرکین کے برتنوں کے استعمال کو جائز کہا ہے، وہیں بعض نے مکروہ تو بعض نے حرام بھی کہا ہے۔ [دیکھیں: البحر الرائق لابن نجیم(8/232)، والمبسوط للسرخسی (1/97)، والکافی فی فقہ اہل المدینہ لابن عبد البر (ص187)، والتاج والاکلیل للمواق المالکی(1/121)، والمجموع للنووی (1/319)، والمغنی لابن قدامہ (1/62)، والانصاف للمرداوی (1/85)]

جنھوں نے بھی حرام یا مکروہ کہا ہے ان کی سب سے بڑی دو دلیلیں نظر آتی ہیں:

پہلی دلیل:

صحیح بخاری (حدیث نمبر 5478) میں ابو ثعلبہ الخشنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں: میں نے کہا: اے اللہ کے نبی ہم اہل کتاب کے ساتھ رہتے ہیں، کیا ہم ان کے برتنوں میں کھا سکتے ہیں؟ آپ نے اس سوال کے جواب میں انھیں فرمایا: اگر تم ان کے برتنوں کے علاوہ کوئی دوسرا برتن پا لو تو ان کے برتنوں میں نہ کھاؤ، لیکن اگر کوئی دوسرا برتن نہ ملے تو انھیں دُھل لو، پھر ان میں کھاؤ۔

اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے بعض علما فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل کتاب کے برتنوں میں کھانے سے منع فرمایا ہے۔ صرف مجبوری کی صورت میں دھو کر کھانے کی اجازت دی ہے۔ اس لیے ان کے برتنوں میں کھانا پینا جائز نہیں۔

لیکن ان کا یہ استدلال صحیح نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ صحیحین میں یہ حدیث مختصرا مروی ہے، جب کہ سنن ابی داود (حدیث نمبر3839)، مسند الشامیین للطبرانی (حدیث نمبر 783)، المعجم الکبیر للطبرانی (22/223)، السنن الکبری للبیہقی (حدیث نمبر 134) وغیرہ میں یہی حدیث صحیح سند سے تفصیل کے ساتھ وارد ہے۔ ان میں اس کے الفاظ اس طرح ہیں: “إنا نُجَاوِرُ أهْلَ الكتابِ وهم يَطبُخُونَ في قُدورهم الخنزير ويَشرَبونَ في آنيتِهم الخمرَ”۔ (ہم اہل کتاب کے ساتھ رہتے ہیں، وہ اپنی ہانڈیوں میں سور کا گوشت پکاتے ہیں، اور اپنے برتنوں میں شراب پیتے ہیں)

جس کے جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم ان کے برتنوں کے علاوہ کوئی دوسرا برتن پا لو تو ان برتنوں میں کھاؤ پیو، لیکن اگر کوئی دوسرا برتن نہ ملے تو انھیں پانی سے دھل لو، پھر ان میں کھاؤ پیو“۔

یعنی یہاں ان کے برتنوں سے منع کرنے کی اصل وجہ ان کا اہل کتاب ہونا نہیں تھا، بلکہ ان برتنوں میں سور کا گوشت پکانے، اور شراب پینے کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان برتنوں سے دور رہنے کا حکم دیا۔ اس لیے یہ علت اگر –نعوذ باللہ- کسی مسلمان کے برتن میں بھی پائی جائے تو اس کا یہی حکم ہے۔ اور اگر غیر مسلموں کے برتن میں نہ پائی جائے تو اس کا یہ حکم نہیں ہے۔

دوسری دلیل:

غیر مسلمین حرام اور نجس چیزوں کے استعمال سے پرہیز نہیں کرتے۔ وہ اپنے برتنوں میں سور، کتے اور دیگر حرام جانوروں کا گوشت پکاتے ہیں، اسی طرح شراب اور دیگر نجس چیزیں کھاتے پیتے ہیں۔ لہذا ان کے برتنوں کا استعمال کرنا حرام یا علی الاقل مکروہ ہے۔

حرام اور مکروہ کہنے والوں کی یہ بات کچھ حد تک قابل قبول ہے کہ وہ ان برتنوں کا استعمال نجس یا حرام چیزوں میں کرتے ہیں۔ لیکن اگر غور کریں تو واضح ہوگا کہ یہاں حرام یا مکروہ کہنے کی وجہ ان کا غیر مسلم ہونا نہیں، بلکہ ان برتنوں کو حرام اور نجس چیزوں میں استعمال کرنا ہے۔ لہذا اگر یہ علت کہیں پائی جائے تو ضرور ان کی بات قابل قبول ہے۔ لیکن اگر یہ علت موجود نہ ہو تو محض ان کے غیر مسلم ہونے کی وجہ سے ان کے برتنوں کے استعمال کو حرام یا نا جائز نہیں کہا جا سکتا۔

بلکہ اگر یہ علت کسی مسلمان کے یہاں بھی پائی جائے تو اس کا بھی عین یہی حکم ہے۔

پس پتہ چلا کہ یہاں پر برتنوں کے استعمال میں تفریق کی وجہ استعمال کرنے والے کا مسلمان اور غیر مسلم ہونا نہیں، بلکہ ان برتنوں میں حرام اور نجس چیزوں کا استعمال کرنا اور نہ کرنا ہے۔

برتنوں کا “اصل حکم” ان کا مباح ہونا ہے، چاہے ان کا مالک مسلمان ہو یا غیر مسلم۔ اس لیے جب تک ان کے نجس ہونے کا علم نہ ہو، یا قرائن ان کے نجس ہونے کی طرف اشارہ نہ کرتے ہوں ان کے استعمال میں کوئی حرج نہیں۔ نیز ہمیں اس بات کا بھی مکلف نہیں بنایا گیا ہے کہ ہم پہلے جانچ پڑتال کریں کہ وہ نجس ہے یا نہیں، اس میں شراب یا کوئی دوسری حرام چیز پی گئی ہے یا نہیں۔ بلکہ اصل ان کا مباح اور طاہر ہونا ہی ہے، جب تک نجس ہونے کا علم نہ ہو یا قرائن اس بات کی طرف غماز نہ ہوں کہ وہ نجس ہیں۔ استاد محترم شیخ سلیمان الرحیلی حفظہ اللہ نے مسجد نبوی میں ”دلیل لطالب“ کی شرح میں اس چیز کو خوب اچھی طرح واضح کرکے بیان کیا ہے جسے اس لنک سے سنا جا سکتا ہے:


ہندوستان جیسے کثیر المذاہب ملک میں جہاں کی اکثریت غیر مسلموں کی ہے وہاں چائے کی دکانوں یا دیگر کھانے پینے کے ہوٹلوں میں غیر مسلموں کے برتنوں کا استعمال کرنا، یا غیر مسلموں کی فیکٹریوں میں ان کے برتنوں سے تیار شدہ مختلف طرح کے کھانے کے پیکٹوں کا بازار سے خریدنا روز مرہ کا مسئلہ ہے۔ اگر اسے مسلمانوں کے لیے ناجائز کہا جائے تو جہاں انھیں انتہائی حرج میں مبتلا کرنا ہوگا، وہیں غیر مسلموں کو اپنے اخلاق وکردار سے اسلام اور مسلمانوں سے متنفر کرنا بھی ہوگا۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہم انھیں اسلام سے دور نہ کریں۔ ان کے صاف ستھرے برتنوں کو خود استعمال کریں، اور جب وہ ہمارے درمیان ہوں تو کھانے پینے کے لیے انھیں بھی اپنا برتن پیش کریں۔

اللہ ہمیں اسلام کی صحیح سمجھ عطا فرمائے، اور اس پر عمل کرنے کی بھی توفیق عطا فرمائے۔




              ✍⁩ فاروق عبداللہ نراین پوری

جمعہ، 3 مئی، 2024

عقیقہ میں بڑا جانور یا چھوٹا

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!


 کتب احادیث میں مروی جن روایات میں عقیقہ کا ذکر آیا ہے ، ان میں صرف بکری یا دنبہ ذبح کرنے کا بیان ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’ لڑکے کی طرف سے دو مساوی بکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری بطور عقیقہ ذبح کی جائے۔ ‘‘[1]


حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما عقیقہ کے سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی طرف سے دو دو دنبے ذبح کئے۔ [2]


ان روایات کا تقاضا ہے کہ عقیقہ میں چھوٹے جانور ذبح کئے جائیں،ا گرچہ علامہ شوکانی رحمہ اللہ نے لکھا ہے: ’’ جمہور گائے اور بکری کو عقیقہ کےلئے کافی قرار دیتےہیں۔‘‘[3]


لیکن ہمارے رجحان کے مطابق جمہور کا مذکورہ موقف محل نظر ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ کرام سے عقیقہ میں بڑا جانور ذبح کرنا ثابت نہیں بلکہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس سلسلہ میں شدید نفرت کا اظہار مروی ہے۔ چنانچہ ابن ابی ملیکہ کہتےہیں کہ حضرت عبد الرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کے ہاں جب بچہ پیدا ہوا تو انہوں نے عقیقہ میں اونٹ ذبح کیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پا س اس بات کا تذکرہ کیا گیا تو آپ نے بایں الفاظ 22 اپنے جذبات کا اظہار کیا: ’’ معاذ اللہ ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی تو یہ ہے کہ عقیقہ میں دو مساوی بکریاں ذبح کی جائیں۔‘‘[4]


لہٰذا عقیقہ میں گائے بھینس یا اونٹ ذبح کرنے سے گریز کیا جائے۔ اس سلسلہ میں جو روایت پیش کی جاتی ہے اس کے الفاظ یہ ہیں: ’’ بچے کی طرف سے اونٹ ، گائے اور بکری سے عقیقہ کیا جا سکتا ہے۔[5]


محدثین کے ہاں یہ روایت صحیح نہیں کیونکہ اس میں سعد بن یسع راوی کذاب ہے، چنانچہ علامہ ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ اس روایت کو بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں : اس کی سند میں سعد بن یسع راوی کذاب ہے۔ [6]


لہٰذا عقیقہ میں بکری، بھیڑ اور دنبہ ذبح کیا جائے کیونکہ احادیث میں ان جانوروں کو ذبح کرنے کا ذکر ملتا ہے اور گائے، بھینس یا اونٹ کو بطور عقیقہ ذبح کرنے سے اجتناب کیا جائے۔ ہاں اگر کسی کے دوست و احباب او دیگر رشتہ دار زیادہ ہیں اور عقیقہ کے جانور دعوت طعام کے لئے کافی نہیں تو وہ عقیقہ کے جانور کے ساتھ اضافی طور پر دوسرے جانور ذبح کر کے دعوت کا اہتمام کر سکتا ہے لیکن اضافی جانور بطور عقیقہ نہ ذبح کئے جائیں۔ ( واللہ اعلم)


[1] سنن أبي داؤد : ۲۸۳۴۔


[2] سنن النسائي ، العقیقة : ۴۲۲۴۔


[3] نیل الأوطار ص ۵۰۶ج۳۔


[4] سنن البیھقي ص ۳۰۱ ج۹۔


[5] طبراني.... ص ۸۴ج۱۔


[6] مجمع الزوائد ص ۵۸ ج۴۔ 

پیر، 29 اپریل، 2024

امہات المؤمنین کے گھروں کی عظمت



الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده، وبعد! 


 ازواجِ مطہرات - رضی اللہ عنھن اجمعین - کو اللہ تعالیٰ نے جن فضیلتوں، مقام عالی اور رتبۂ بلند سے نوازا ہے ان تک کوئی دوسری عورت نہیں پہنچ سکتی ہے۔ 


مولانا سید سلیمان سلمان منصور پوری (ت 1930م) رحمہ اللہ نے ( رحمۃ للعالمین: 2/164 ) میں اس بارے میں گفتگو فرمائی ہے جسے میں قدرے تصرف سے نقل کر رہا ہوں، فرماتے ہیں: 

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿يَانِسَاءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِنَ النِّسَاءِ﴾ (الأحزاب: 32).

آیت میں ﴿ٱلنِّسَاءِ﴾ یعنی جنسِ انوثیت کا ہر ایک فرد شامل ہے، کوئی عورت اس سے باہر نہیں ہے۔ مزید دلچسپ بات یہ ہے کہ آیت میں لفظِ ( أحد ) نفی کے سیاق میں نکرہ واقع ہوا ہے، جس سے نفی بدرجۂ اتم ہوتی ہے، جیساکہ رب العالمین نے اپنے تعارف میں کہا: ﴿وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ﴾ ( الإخلاص: 4).


 ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنھن اجمعین علم وعمل میں، ایمان میں، عبادات میں، حسنِ سلوک ومعاملات میں، دیگر سبھی ایمان کے شعبوں میں خصوصًا خواتینِ اسلام کے لیے نمونہ ہیں۔


 امھات المؤمنین کی سادگی، قناعت اور کفایت شعاری بھی خواتینِ اسلام کے لیے ایک مثالی نمونہ ہے۔ 


ازواجِ مطہرات کے لیے عمومی شرف یہ تھا کہ وہ مسلم خاتون ہیں، وہ صحابیہ ہیں، اور ایک خصوصی شرف یہ بھی کہ وہ زوجۂ رسول ﷺ ہیں، یوں وہ ام المؤمنین ہیں، یہی ان کے لیے سب کچھ تھا۔


ازواجِ مطہرات کے پاس سید ولد آدم کی بیوی بننے کا معنی ومطلب؛ بنگلہ، ایک سے زائد گھر، نوکر چاکر، دنیاوی چمک دمک، مال ومتاع کی کثرت، گھر میں ہمہ وقت انواع واقسام کی مطعومات کا ہونا؛ نہیں تھا۔ 


 قابلِ غور پہلو : 


ازواجِ مطہرات گھریلو اور خاندانی اعتبار سے غریب، نادار ومفلس، یا یتیمی کی منزل طے کرکے نہیں آئی تھیں، بلکہ یہ سب اونچے گھرانوں، معزز خاندانوں، اور رؤساءِ قوم کی بیٹیاں تھیں۔ 


ام المؤمنین خدیجہ فی نفسہ مال دار عورت۔

عائشہ؛ رسول اللہ ﷺ کے بعد قریشِ مکہ کے سب سے عظیم، نجیب ونبیل اور نہایت مالدار انسان صدیق اکبر کی دختر تھیں۔ 

صفیہ اور جویریہ اپنے اپنے رئیسِ قبیلہ کی دختران تھیں۔ 

سودہ، ام سلمہ حفصہ، میمونہ، زینب وغیرہ کے نکاح میں متنوع فوائد بیان کی جاتی ہیں، ان سب فوائد کے علاوہ یہ سب محترم، باعزت، اور معاشرے کے سرکردہ شخصیات کے گھرانوں سے آپ ﷺ کی زوجیت میں آئی تھیں۔


خلاصۂ کلام یہ ہے کہ ازواجِ مطہرات نے باوجود مال ودولت، رئاست، سماجی اثر ورسوخ، اور زندگی میں درجۂ تحسینات پاکر بھی اللہ تعالیٰ پر ایمان کے بعد رسول اللہ ﷺ کی زوجیت ہی کو مقامِ رفیع جانا تھا۔ رضي الله عنهن أجمعين.


الجزاء من جنس العمل : 


ازواجِ مطہرات نے رسول ﷺ کی طرف سے ملے معمولی ( گھر ) میں رہنے کو شرف سمجھا، کبھی زبان پر حرفِ شکایت نہیں لائیں، دل بھی صاف تھے، اللہ تعالیٰ نے جہاں ان ازواجِ مطہرات کو عزت دی، شرف بخشا، وہیں ان کے گھروں کو اپنے عظیم آخری کلام قرآن میں بار بار ذکر فرماکر نمایاں کیا، فضیلت بخشی۔ 


اللہ تعالیٰ نے ازواجِ مطہرات کے مساکن سے موسوم ( سورۃ الحجرات ) ایک سورت ہی نازل فرمادی۔ 


اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿إِنَّ الَّذِينَ يُنَادُونَكَ مِنْ وَرَاءِ الْحُجُرَاتِ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ﴾ ( الحجرات: 4).


آیتِ بالا میں بھلے ہی لفظ ( الحجرات ) کو بغیر اضافت کے ذکر کیا گیا ہے، مگر باتفاق اہلِ علم یہ رسول اللہ ﷺ کے گھر ہیں۔ 


امام ابو جعفر الطبری (ت 310ھ) رحمہ اللہ آیت کی تفسیر میں ( جامع البيان عن تأويل آي القرآن: ٢٤/٣٦٢ ) کہتے ہیں: 

 إِنَّ الذين ينادونكَ يا محمدُ مِنْ وراءِ حُجُراتكَ.


 ایک وضاحت: 


ان با برکت گھرانوں کی نسبت کبھی رسول ﷺ کی طرف کی گئی تو کبھی ازواجِ مطہرات کی طرف ہوئی ہے۔ 


اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ﴾ (الأحزاب: 33)، اس کے بعد والی آیتِ کریمہ میں فرمایا: ﴿وَاذْكُرْنَ مَا يُتْلَى فِي بُيُوتِكُنَّ مِنْ آيَاتِ اللهِ وَالْحِكْمَةِ﴾ (الأحزاب: 34)


اسی ( سورۂ احزاب ) میں چند آیات بعد اللہ تعالٰی نے ان گھروں کی اضافت بطورِ شرف وتکریم رسول اللہ ﷺ کی طرف فرمائی، کہا: ﴿يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ﴾ (الأحزاب: 53).


ان گھرانوں کی نسبت ایک مرتبہ ازواجِ مطہرات کی طرف، اور ایک بار رسول اللہ ﷺ کی طرف مضاف فرمایا گیا، اس میں ایک خوبصورت راز ہے۔ 


مولانا سید سلیمان سلمان منصور پوری رحمہ اللہ ( رحمۃ للعالمین: 2/169 ) کے الفاظ میں: 

 یہ امر اتحادِ زوجین طیبین پر دلیلِ صریح ہے .


 فائدہ :


ازواجِ مطہرات کی زندگی نہایت سادگی سے گذری ہے، یہ عالی مقام اور محترم ( حجرات ) بھی دلیل ہیں کہ کس درجہ کی کفایت شعاری ان ازواجِ مطہرات کا شعار رہا ہے۔ 


علامہ ابو الحسن علی بن عبد اللہ (ت 911ھ) رحمہ اللہ جو علمی دنیا میں ( السَّمهودي ) سے معروف ہیں، آپ ( سمھود، مصر ) سے تعلق رکھتے ہیں، 873ھ میں مدینہ نبویہ تشریف لائے، وہیں وفات پائی۔


مدینہ نبویہ میں رہ کر رسول اللہ ﷺ کے شہر کی تاریخ ( وفاء الوفاء بأخبار دار المصطفى ) مرتب فرمائی۔ 

کتابِ ہٰذا میں چوتھے باب کی ( نوویں فصل ) رسول اللہ ﷺ کے حجرے سے متعلق عقد کی گئی ہے۔ جس کا خلاصہ درجِ ذیل سطور میں ذکر کیا جا رہا ہے۔


ازواجِ مطہرات کی وفات کے بعد تقریبًا ابو العباس ولید بن عبد الملک (ت 96ھ) رحمہ اللہ کے زمانے میں مسجدِ نبوی کی توسیع کی غرض سے مہبطِ وحی الٰہی سے متصف ان گھرانوں کو منہدم کر دیا گیا۔ 


اس انہدامی کارروائی سے بعض سلفِ صالحین نے اس پہلو سے دکھ کا اظہار فرمایا کہ اگر ان گھروں کو یوں ہی رہنے دیا جائے تو امتِ مسلمہ کے لیے یہ ( گھر ) وعظ ونصیحت کا کام کرتے، لوگ دیکھتے کہ رسول اللہ ﷺ اور آپ کی ازواجِ مطہرات کس قدر قناعت پسند تھے۔ 


امام عطاء بن ابو مسلم خراسانی  (ت 135ھ) رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے امام  سعید بن مسیب مخزومی  (ت بعد 90ھ) سے یہ کہتے ہوئے سنا؛ آپ فرما رہے تھے: واللّٰه لو وددت أنهم تركوها على حالها ينشأ ناشئٌ من المدينة، ويقدم قادم من الآفاق فيرى ما اكتفى به رسولُ اللّٰه ﷺ في حياته، فيكون ذلك مما يزهد الناس في التكاثر والتفاخر فيها.

(  وفاء الوفاء بأخبار دار المصطفى : ٢/٢٢٧ )


رات کی ان آخری ساعتوں میں ربِ ذو الجلال سے دعاء ہے کہ ہماری موت تک ہمیں اپنے گھر والوں کے ساتھ اپنا پسندیدہ دین ( اسلام ) پر قائم رکھے، اپنا مطیع بنائے، اور اسی اطاعت کے سبب اپنے فضل وکرم سے اپنی ابدی جنت میں ایک ساتھ رکھے۔ 



کیا دیوالی کی مبارک باد دینا اور اس کی مٹھائیاں کھانا صحیح ہے

دیوالی کی مٹھائی سوال : کیا دیوالی کی مبارک باد دینا اور اس کی مٹھائیاں کھانا صحیح ہے ؟ جواب : اگر دیوالی منانا صحیح ہے تو اس کی مبارک باد ...