جمعرات، 29 جولائی، 2021

اخلاق نبوی کے چند شہ پارے

 
شمع، روشن چراغ

اس روئے زمین پر اخلاق و آداب کے بہت سے معلمین پیدا ہوئے اور ہر ایک نے اپنے اپنے انداز میں اخلاق کا درس دیا اور ان سے  کئی گروہوں، جماعتوں اور قوموں نے اخلاق و آداب کی تعلیم حاصل کی
آج دنیا میں جہاں کہیں بھی حسن اخلاق کا کوئی نمونہ دکھائی دیتا ہے تو یہ انہیں لوگوں کی تعلیم کا اثر ہے لیکن ان تمام معلمین میں سب سے بڑے، سب سے بہتر، سب سے ممتاز اور آخری معلم ہمارے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس ہے جن کی پوری زندگی ہم تمام بنی نوع انسان و جن کیلئے آئیڈیل اور نمونہ ہے
لیکن افسوس صد افسوس آج کا مسلمان بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرز زندگی کو چھوڑ کر کسی فلمی اداکار اور سیاسی لیڈر کو اپنی زندگی کا آئیڈیل اور نمونہ مانتا ہے جبکہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف اعلان کر دیاکہ: { اكمل المؤمنين ايمانا احسنهم خلقا} [ صحيح ابن حبان ٤٧٩] مزید فرمایا : { اكثر مايدخل الناس الجنة تقوى الله وحسن الخلق}  { مسند أحمد ٩٦٩٦، شعیب الأرنؤوط ١٤٣٨] ' کہ لوگوں کو سب سے زیادہ جنت میں داخل کرنے والی چیز اللہ کا تقوی اور بہترین اخلاق ہے' اسی طرح اللہ رب العالمین نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں ارشاد فرمایا: { وَإِنَّ لَكَ لَأَجْرًا غَيْرَ مَمْنُوْنٍ وَإِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِيْمٍ} [ القلم ٣، ٤] ' اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم یقیناً آپ کیلئے نہ ختم ہونے والا اجر ہے اور آپ اخلاق کے اعلی مقام پر ہیں

محترم قارئین !  اس آیت کریمہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کو قرآن کریم نے سراہا اور سادہ سی بات ہے کہ سراہنے کے لائق وہی شخصیت ہوا کرتی ہے جس میں کامل اوصاف اور بہترین اخلاق پائے جائیں، اگر سیرت کی کتابوں کا مطالعہ کریں تو یہ بات واضح ہو جائے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زندگی کسی خاص قوم یا جماعت کے لئے نہیں بلکہ ساری دنیا کے انسانوں کے لئے ایک نمونہ اور آئیڈیل ہے ایسا کامل انسان نہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کوئی پیدا ہوا اور نہ ہی آپ کے بعد کوئی پیدا ہو گا

             قرآن مقدس کے علاوہ دنیا کے کسی بھی مذہبی اور دینی کتاب نے اپنے پیشوا اور رہبر کے بارے میں ایسی کھلی شہادت نہیں دی کہ جو عمل کے اعتبار سے اخلاق کے اعلیٰ مقام پر فائز ہو لیکن قرآن نے موافقین و مخالفین، دوست و دشمن اور پورے مجمع عام میں ببانگ دہل یہ اعلان کر دیا کہ اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آپ اخلاق کے اس بلند مقام پر فائز ہیں جس کے اجر کا سلسلہ کبھی ختم ہونے والا نہیں ہے، اس آیت کریمہ کے دو پہلو ہیں ایک میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اجر کے ختم نہ ہونے کا اعلان ہے اور دوسرے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کریمانہ کی شہادت ہے یعنی آپ کا اخلاق واعمال خود اس بات پر شاہد ہے کہ آپ کے اجر کا سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوگا اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زندگی کا ایک ایک لمحہ دنیا میں محفوظ ہے

             رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل میں یکسانیت تھی جو کہتے وہ کرتے اور جو کرنا رہتا وہی کہتے مطالعہ کیجیے سیرت کی کتابوں کا آپ پائینگے کہ جب جب آپ نے غریبوں اور مسکینوں کی مدد کرنے کا حکم دیا تو سب سے پہلے آپ خود بھوکے رہے اور اپنا کھانا دوسروں کو کھلا دیا، جب کبھی آپ نے لوگوں کو اپنے دشمنوں اور قاتلوں کو معاف کرنے کی نصیحت کی تو سب سے پہلے خود اپنے دشمنوں اور قاتلوں کو معاف کیا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس یہودیہ کو بھی معاف کر دیا جس نے آپ کے کھانے میں زہر ملائی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ذات کے لئے کسی سے کبھی بھی انتقام نہیں لیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ایسا بھی وقت آیا کہ آپ کو کپڑے کی سخت ضرورت تھی اور ایسی حالت میں اگر کسی نے آپ سے کپڑے کے لئے دست سوال دراز کر دیا تو اسی وقت اپنی چادر اتار کر اس کے سپرد کر دی، انہیں اخلاق کریمانہ کی وجہ سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا کے تمام معلمین اخلاق پر فوقیت حاصل ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا کے سب سے ممتاز معلم کے لقب سے سرفراز کیا گیا کیونکہ جب قول سے پہلے عمل ہوگا تبھی قول مؤثر ہوگا ورنہ رائیگاں اور برباد ہو جائے گا
بقول شاعر  
                  وغير  تقي  يأمر  الناس  باالتقى
                  طيب يعادي الناس و هو  سقيم
                  يا   أيها   الرجل   المعلم   غير ه
                  هلا   لنفسك   كان   ذا   التعليم
                  لا   تنه  أن  خلق  و  تاتي   مثله
                  عار   عليك   اذا   فعلت   عظيم
الله رب العالمین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا میں سب سے بہتر اور بلند اخلاق کے ساتھ اس لئے مبعوث کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم امت کو اعلیٰ اخلاق کی تعلیم دے سکیں اور ان کی تربیت کر سکیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بعثت کے مقصد کی وضاحت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:{ انما بعثت لأتمم مكارم الأخلاق} [ مجمع الزوائد ٩/ ١٨، الزرقاني ١١٢٢ ] ' میں خاص کر اس کام کے لئے بھیجا گیا ہوں کہ اپنی تعلیم و عمل سے اخلاق کریمانہ کی تکمیل کروں' اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی میں یہ صفت بدرجہ اتم موجود تھی جس کی وجہ سے ہر ہر قدم پر کامیابی آپ کے قدم چومتی رہی
سچ ہے " مواعظ الواعظ لن تقبلا حتى يعيها قبله اول"، 


                مکہ فتح ہو جاتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم حرم میں قیام فرما ہیں نگاہ اٹھا کر دیکھتے ہیں تو سرداران قریش کھڑے ہیں اس مجمع عام میں وہ بھی موجود تھا جو آپ کے جسم اطہر پر کوڑا کرکٹ پھینکا کرتے تھے، وہ بھی تھا جو آپ کو جھٹلایا کرتے تھے، وہ بھی موجود تھا جو اسلام اور اہل اسلام کی بیخ کنی کیلئے خفیہ سازشیں کیا کرتے تھے غرضیکہ اس دن تمام مجرمین سرنگوں ہوکر سامنے کھڑے تھے اور ان کے پیچھے دس ہزار تلواریں رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک اشارہ کی منتظر تھیں صرف ایک اشارہ کی دیری تھی کہ تمام مجرمین کا سر دھڑ سے الگ ہو جائے، لیکن اس قدر غلبہ کامل ہونے کے باوجود چہرہ انور اٹھا کر تمام مجرمین سے مخاطب ہوئے اور کہا : "اے قریش بتاؤ ! میں آج تمہارے ساتھ کیا سلوک کروں؟" قریش ندامت سے سرشار ہیں انہیں ایک ایک جرم یاد آ رہا ہے تاہم رحم و کرم کے ہی منتظر تھے چیخ کر بول اٹھتے ہیں' انت اخ کریم وابن کریم' آپ تو ہمارے شریف بھائی ہیں اور شریف کا بیٹا ہیں' تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت وہی کہا جو یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں سے کہا تھا :' لا تثريب عليكم اليوم يغفر الله لكم وهو ارحم الراحمين [يوسف:٩٢،أحكام الصغرى: ٥٥٨] 

             اور اس واقعہ کو بھی یاد کیجئے کہ جب قبیلہ بنی مخزوم کی ایک عورت سے چوری کا جرم سرزد ہوگیا تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلامی قانون کے تحت ہاتھ کاٹنے کا حکم صادر فرمایا چونکہ عورت شریف اور معزز خاندان کی تھی اسلئے قبیلہ کے سرداروں نے اسامہ بن زید کو سفارشی بنا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا تاکہ سزا معاف کر دی جائے یا پھر سزا میں ترمیم کرکے اس پر بھاری جرمانہ ادا کرنے کا حکم دیا جائے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غضبناک ہو گئے اور فرمایا: { يا اسامة اتشفع في حد من حدود الله تعالى والذي نفسي بيده لو أن فاطمة ابنة محمد  سرقت لقطعت يدها} [ شعيب الارنؤوط: ١٤٣٨،  اسناده صحيح على شرط الشيخين] اور جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن کا داعی و معلم بنا کر بھیجا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یہ وصیت فرمائی { يا معاذ ! احسن خلقك للناس} [ الترغيب والترهيب٣/ ٣٥٧] ' اے معاذ دیکھو !  تم لوگوں سے اچھے اخلاق سے پیش آنا '
             خادم رسول انس رضی اللہ عنہ جو دس سال تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت و صحبت میں رہے فرماتے ہیں کہ اس دس سال کے عرصہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی مجھے اف تک نہیں کہا، سوچئے جو اپنے کسی ماتحت کا اس درجہ خیال رکھتا ہو کہ دس سال کے لمبے عرصہ میں بھی کبھی اف تک نہ کہا ہو تو اس کے اخلاق کریمانہ کا کیا کہنا؟
سچ ہے :     "  بعد از خدا  بزرگ  توئی  قصہ مختصر"
  
              نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق و عادات کے بارے میں ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے پوچھا گیا تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: { کان خلقه القرآن} [ صحيح الجامع: ٤٨١١] ' آپ کا اخلاق سراپا قرآن تھا' یعنی قرآن مجید میں جو کچھ الفاظ کی صورت میں ہے ٹھیک وہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ میں بصورت عمل تھا، قرآن آپ کے اخلاق کریمانہ کا مکمل آئینہ ہے لہذا جس کو بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں واقفیت مقصود ہو وہ قرآن کا بغور مطالعہ کرے اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق معلوم ہو جائے گا

            نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ چند اعلیٰ اخلاق کے نمونہ ہیں جن کو میں نے پیش کیا اگر آج بھی ہم ایسے اخلاق کا مظاہرہ کرنے لگیں اور ان چیزوں پر خود عمل کرکے دوسروں کے ساتھ اس طرح کا سلوک کرنے لگیں تو آج بھی کوئی بعید نہیں کہ غیر مسلم ہمارے اخلاق دیکھ کر مشرف بہ اسلام نہ ہوں کاش ہم تمام مسلمان اس سچے مذہب کا عملی نمونہ اور تصویر بن جائیں! اور دنیا والوں کو دکھا دیں کہ دیکھو اسلام یہ ہے، اگر ایسا ہو جائے تو مخلوق الٰہی حلقہ بگوش اسلام ہونے میں ذرا بھی توقف نہ کرے گی. 




                   📝

                  راضی 

پیر، 19 جولائی، 2021

قرآن مجید کے متفرق طور پر نازل ہونے کی حکمتیں

 

قرآن، قرآن شریف، القرآن الكريم

قرآن مجید اللہ رب العالمین کا وہ کلام ہے جسے اللہ رب العالمین نے انسانوں کی رشد و ہدایت اور خیر و بھلائی کے لئے نازل کیا جو تمام انسانوں کے لئے ایک ایسا دستورِ عمل ہے کہ جس میں قیامت تک پیش آنے والے تمام مسائل کا حل اللہ عزوجل نے بیان کر دیا، یہی وجہ ہے کہ اس کا ایک ایک لفظ، ایک ایک حرف معجزہ ہے، بے پناہ خوبیوں، لاتعداد حکمتوں اور بے شمار فضیلتوں سے مزین یہ ایک ایسی کتاب ہے جس کی نظیر آج تک نہ کسی نے پیش کر سکا اور نہ قیامت تک کوئی پیش کر سکے گا ۔

             قرآن کریم سے پہلے تمام آسمانی کتابیں انبیاء علیہم السلام  پر بیک وقت نازل کی گئیں جبکہ قرآن کریم کا نزول مختلف اوقات میں ضرورت اور مواقع کے لحاظ سے اللہ عزوجل کی حکمت اور مصلحت کے مطابق تقریبا تئیس سال کی مدت میں پورا ہوا، لیکن قرآن کریم کو بتدریج ترتیب کے ساتھ نازل کرنے کی وجہ کیا ہے؟ تو اس کا جواب اللہ رب العالمین نے خود ہی دے دیا فرمایا: { وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَوْلَا نُزِّلَ عَلَيْهِ الْقُرْآنُ جُمْلَةً وَّاحِدَةً كَذَلِكَ لِنُثَبِّتَ بِهِ فُؤَادَكَ} [ الفرقان: ٣٢] ' کافروں نے کہا کہ اس (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) پر قرآن سارا کا سارا ایک ہی ساتھ کیوں نہیں نازل کیا گیا؟ ہم نے اسی طرح (تھوڑا تھوڑا کرکے) اتارا تاکہ اس کے ذریعہ ہم آپ کے دل کو ثابت قدم رکھيں' 

            یعنی اہل مکہ نے یہ اعتراض کیا تھا کہ اگر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں تو پچھلے انبیاء کی طرح کیوں نہیں آپ پر بھی قرآن پورا کا پورا ایک ہی مرتبہ میں نازل کر دیا گیا؟ چنانچہ اللہ رب العالمین نے ان کے اسی اعتراض کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ ہم نے ایسا صرف اس لئے نہیں کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ثابت قدم رکھیں اور انہیں اس سے تقویت حاصل ہو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے خوب اچھی طرح یاد کرلیں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم دوسرے انبیاء کی طرح لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے اسی لئے اس کو تدریجاً نازل کیا کہ یاد کرنے میں آسانی ہو۔
 قرآن مجید کے تدریجی نزول میں متعدد اسرار اور بہت ساری حکمتیں موجود ہیں جنہیں سہولیت کی خاطر چار بڑی حکمتوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے جو مختصراً درج ذیل ہیں :


پہلی حکمت: قلب نبوی صلى الله علیه وسلم کی تقویت

             وحی الہی کے بار بار آنے اور جبرائیل علیہ السلام سے بار بار ملنے کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دل مسرت و شادمانی سے معمور ہو جاتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل و دماغ میں ہر لمحہ یہ یقین موجزن رہتا کہ آپ پر اللہ کی عنایت کا سلسلہ جاری ہے اور آپ کو اللہ کی تائید و نصرت حاصل ہے، جبرائیل علیہ السلام کا بار بار مشاہدہ آپ کے دل کی تقویت کا سبب بنتا چلا گیا،
             
             اللہ رب العالمین کا اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے وعدہ تھا کہ دشمنوں کی ایذا رسانیوں اور مصائب و آلام کے وقت وہ آپ کے لئے صبر و ثبات کی قوت فراہم کرے گا، اور یہ بات بھی واضح ہے کہ مخالفین کی شرارتیں مختلف اوقات میں ہوتیں، لہٰذا ضروری تھا کہ قرآن مجید کا نزول تدریجی ہو تاکہ حسب ضرورت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تسلی و تشفی کی جا سکے،چنانچہ اسی طرح کبھی انبیائے سابقین کے قصص کے ذریعہ تسلی دی گئی جیسے : { وَكُلًا نَقُصُّ عَلَيْكَ مِنْ اَنْبَاءِ الرُّسُلِ مَا نُثَبِّتُ بِهِ فُؤَادَكَ} [ الهود: ١٢] ' اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! پیغمبروں کے وہ سب حالات جو ہم آپ سے بیان کرتے ہیں ان کے ذریعہ ہم آپ کے دل کو قائم رکھتے ہیں' اور کبھی وعدۂ نصرت کے ذریعہ تسلی دی گئی جیسا کہ ارشاد باری ہے: { وَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنَا} [ الطور: ٤٨] ' اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم! آپ اپنے پروردگار کے حکم کے انتظار میں صبر کرتے رہیں یقینا آپ ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں' اور اسی طرح دوسری جگہ ارشاد فرمایا: { وَاللّٰهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ} [ المائده: ٦٧] ' اللہ آپ کو لوگوں (کے شر ) سے محفوظ رکھے گا ۔


دوسری حکمت: امت مسلمہ کی تربیت

          
            قرآن کریم کے تدریجی نزول کی دوسری بڑی حکمت یہ تھی کہ دنیا میں جو امت مسلمہ ابھر رہی تھی اس کی علمی اور عملی تربیت میں تدریجی رفتار اختیار کیا جائے تاکہ اس امت کے لئے قرآن کا سمجھنا آسان ہو جائے، اس کا حفظ کرنا آسان ہو جائے کیونکہ یہ امت اُمی تھی بہت کم لوگ اس میں لکھنا پڑھنا جانتے تھے، اس صورتحال میں اگر قرآن پورا کا پورا یکبارگی نازل کر دیا جاتا تو وہ اس کی حفاظت سے قاصر رہتے، چنانچہ حکمت عالیہ کا تقاضا تھا کہ اللہ رب العالمین نے ان کے لئے قرآن کو تھوڑا تھوڑا کرکے نازل کیا تاکہ اس کا حفظ آسان ہو جائے اور پوری طرح تحفظ کے ساتھ ساتھ اس کا زبان سے ادا کرنا اور اس کا اظہار بھی ان کے لئے آسان ہو جائے  ۔

            اسی تدریجی نزول کے سبب وہ باطل عقائد اور فاسد عادتوں کو بخشی ترک کر رہے تھے، جاہلانہ عقائد و اخلاق اور اعمال کی ساری نجاستیں غیر محسوس طریقے پر ایسے دور ہوئیں کے پھر دوبارہ وہ لوگ اس میں مبتلا نہیں ہوئے اس کی واضح مثال شراب کی حرمت لے سکتے ہیں جسے تین مراحل میں حرام قرار دیا گیا، لوگوں کو عقائد حقہ و عبادات صحیحہ اور مکارم اخلاق سے کمال کی حد تک آراستہ کرنے کے لئے اس تدریجی نزول نے ارتقائی منازل کا کام کیا ہے، اللہ رب العالمین نے اسی چیز کی طرف اشارہ کیا ہے اس آیت کریمہ میں { وَقُرْآنًا فَرَقْنَاهُ لِتَقْرَأَهُ عَلَى النَّاسِ عَلَى مُكْثٍ وَّنَزَّلْنَاهُ تَنْزِيْلَا} [ الإسراء: ١٠٦] ' اور ہم نے قرآن کو جز جز کر کے نازل کیا تاکہ آپ لوگوں کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھ کر سناؤ اور خود ہم نے بھی اسے بتدریج نازل کیا ہے  ۔


تیسری حکمت: نئے مسائل میں رہنمائی


             جب بھی کوئی جدید مسئلہ درپیش ہوتا تو اس کی مناسبت سے قرآن مجید کا ایک حصہ نازل ہوتا اور اللہ رب العالمین اس مسئلہ کے متعلق احکام بتا دیتا جو اس کے مطابق ہوتے، مثلا بہت سارے لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مختلف اوقات میں مختلف ضرورتوں کے تحت بہت سارے سوالات کرتے تو اس موقع پر قرآن کی آیتیں نازل ہوتیں پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان آیتوں کی روشنی میں ان کا جواب دیتے، یا پھر کوئی واقعہ یا حادثہ درپیش ہوتا تو اس کی مناسبت سے آیتیں نازل ہوتیں اور ان واقعات و حادثات پر روشنی ڈالی جاتی اللہ عزوجل کا ارشاد ہے : { وَلَا يَأْتُوْنَكَ بِمَثَلٍ إِلَّا جِئْنَاكَ بِالْحَقِّ وَاَحْسَنَ تَفْسِيْرَا} [ الفرقان: ٣٣] ' یہ لوگ آپ کے پاس جو کوئی بھی مثال لائیں گے ہم اس کا صحیح جواب اور عمدہ توجیہ آپ کو بتا دیں گے'


چوتھی حکمت: کلام الہی ہونے کی دلیل


             یعنی اس حقیقت کو پوری طرح کھول کر رکھ دینا کہ قرآن کریم بلاشبہ اللہ رب العالمین ہی کا کلام ہے اور یہ ممکن ہی نہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا یا کسی اور مخلوق کا کلام ہو، شروع سے لے کر آخر تک پورا قرآن باریکی اور عمدگ پر مشتمل ہے، طرز بیان میں انتہائی جاذبیت اور استحکام موجود ہے اس کی سورتیں اور آیتیں آپس میں اس مضبوطی سے جڑی ہوئی ہیں کہ جیسے کاندھے سے کاندھا ملائے ہوئے لوگوں کی قطار ہو، سانچے میں ڈھلے ہوئے ڈلے کی طرح اس کے اجزاء آپس میں اس طرح پیوست ہیں کہ ان میں نہ علیحدگی محسوس ہوتی ہے اور نہ ہی اجنبیت گویا کہ موتیوں کی ایک نہایت دیدہ زیب لڑی ہو جس میں حروف، کلمات اور جملے منظم ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت مرتب اور ایک دوسرے سے پیوست ہیں
 
             لیکن سوال یہ ہے کہ قرآن مجید میں کلام کی یہ ترتیب کیسے پیدا ہو گئی؟ جب کہ وہ یکجا اور یکبارگی نازل نہیں ہوا بلکہ ایک طویل مدت میں نازل ہوا، جس کا فطری نتیجہ یہ ہونا چاہئے تھا کہ اس میں جابجا خلل اور رخنہ ہو اور اس میں تدریج کی وجہ سے کوئی ربط اور اتصال باقی نہ رہے جبکہ اس کا ہر جملہ، ہر آیت اور ہر سورت ایک دوسرے سے مربوط ہے اور گہرا تعلق رکھتی ہے

             اس کا صرف ایک ہی جواب ہے کہ اس سے ہمیں اعجاز قرآنی کا ایک نیا راز دکھائی دیتا ہے اور اس بات کا یقینی مشاہدہ ہو جاتا ہے کہ یہ کلام الہی ہی ہے : { وَلَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللّٰهِ لَوَجَدُوْا فِيْهِ اخْتِلَافًا كَثِيْرًا} [ النساء: ٨٢] ' اگر یہ (قرآن) اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو لوگ اس میں بہت اختلاف پاتے' 
      قرآن کریم کے متفرق طور پر نازل ہونے کی چند حکمتوں کا تذکرہ اس تحریر میں کیا گیا لیکن اس کے علاوہ اور بھی بہت ساری حکمتیں اور راز اس میں پائے جاتے ہیں ۔

رب ذوالجلال سے دعا ہے کہ ہمیں قرآن کو سمجھنے اور اس کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق دے ( آمین)



                📝

               راضی 

منگل، 13 جولائی، 2021

فلسفۂ حج

 

کعبہ شریف، کعبہ، بیت اللہ

محترم قارئین : فریضۂ حج اپنے اندر مقصدیت و معنویت، حکمت و مصلحت اور گوناگوں فلسفہ و افادیت رکھتا ہے، جسے راقم نے مختصراً پیش کرنے کی ادنیٰ کوشش کر رہا ہے۔

حج کی لغوی و اصطلاحی تعریف


حج لغت میں قصد و ارادہ کو کہتے ہیں. 
اصطلاح شرع میں متعینہ ایام میں مخصوص افعال و اعمال کی ادائیگی کیلئے بیت اللہ شریف کا قصد کرنا[ تحفۃ الاحوذی: ج ٣] 
حج اسلام کا پانچواں اور ایک بہت ہی اہم رکن ہے، اللہ رب العالمین نے حج بیت اللہ کو مستطیع لوگوں پر واجب اور فرض قرار دیا ہے فرمایا:{ وَلِلّٰهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيْلًا} [ اٰل عمران: ٩٧] اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان: { بني الإسلام على خمس شهادة أن لا إله إلا الله وأن محمداً رسول الله وإقام الصلاة وإيتاء الزكاة والحج و صوم رمضان } [ صحيح البخاري: ٨ ] حج بيت اللہ اسلام کا ایک ایسا فریضہ ہے جو مالی و بدنی عبادت پر مشتمل ہے، یہ دیگر ارکان اسلام سے منفرد ہونے کے باوجود ارکان اسلام کے تمام ارکان کا خلاصہ ہے، علامہ ماوردی رحمه الله ارکان اسلام کو ذکر کرتے ہوئے حج کو آخر میں ذکر کئے جانے کی وجہ پر زور دیتے ہوئے فرمایا : "حج بیت اللہ اور اس کی ادائیگی میں اسلام کی روحانی تربیت کا پورا نچوڑ اور خلاصہ کو جمع کر دیا گیا ہے" 


حج بیت اللہ کی ایک بڑی حکمت اور فلسفہ" اللہ کے حکم کی اطاعت" ہے 

           
           کوئی شخص جب اس فریضہ کی ادائیگی کا عزم کرتا ہے تو وہ پختہ عہد کرتا ہے احکام الہی کی بجا آوری اور فرمان خداوندی کے سامنے مکمل طور پر سر تسلیم خم کرنے کا اور اسی وجہ سے اس راہ کی ہر مشقت و پریشانی کو خندہ پیشانی سے گوارہ کر لیتا ہے اور مکمل طور پر صبر و استقامت کا مظاہرہ کرتا ہے، شعائر حج ابراہیم و اسماعیل علیهما السلام کی اطاعت گزاری اور وفا شعاری سے عبارت ہے، اس کے پیشتر ارکان ان کی قربانیوں و جانفشانیوں کی یادگار ہیں، چنانچہ یہی جذبۂ اطاعت ان کی دعا میں مذکور و مطلوب ہے { رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُسْلِمَةً لَكَ} [ البقره: ١٢٨] ' اے ہمارے رب ہمیں اپنا فرمانبردار بنا اور ہماری اولاد میں بھی ایک جماعت کو اپنی اطاعت گزار رکھ' اسی دعائے ابراہیمی کا مصداق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت  بھی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی اللہ رب العالمین کی اطاعت کی اور اپنے صحابہ کرام کو بھی اس کا پابند و عمل پیرا بنایا۔


ایک فلسفہ' توحید کو اپنی زندگی میں نافذ کرنا'

           
             یوں تو تمام شعائر اسلام میں وحدانیت کارفرما ہے لیکن حج توحید باری کے مظاہر کچھ زیادہ ہی دکھاتی ہے، اس کی کچھ جھلکیاں یوں ہیں

١ : اللہ عزوجل نے سورہ حج میں ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا کہ وہ بیت اللہ کو توحید کا مرکز بنائیں فرمایا:{ وَإِذْ بَوَّاْنَا لَإِبْرَاهِيْمَ مَكَانَ الْبَيْتِ أَنْ لَّا تُشْرِكْ بِيْ شَيْئًا} [ الحج: ٢٦] 

٢:  الله رب العالمين نے بتوں کی ہر طرح کی گندگی سے دور رہنے کا حکم دیا اس لئے کہ مشرک اور بت پرستی کا عقیدہ ایک کینسر ہے فرمایا: { فَاجْتَنِبُوْا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِ } [ الحج: ٣] 

٣:  تلبیہ پکارنا جو ہر حاجی کا ترانہ ہوتا ہے جب حاجی اس سے رطب اللسان ہوتا ہے تو وہ ہر طرح کے شرک سے برأت کا اظہار کرتا ہے اور اپنے عقیدے کو پختہ بناتا ہے 

٤:  طواف کی دونوں رکعتوں میں بالترتیب سورۃ الکافرون اور سورۃ الاخلاص پڑھ کر شرک سے براءت اور اللہ عزوجل کی وحدانیت کے عہد کی تجدید کرتا ہے

٥:  عرفہ کے دن پڑھی جانے والی دعا  { لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير} [ الترغيب والترهيب: ٣/ ٣٤٥] 

٦:  'میں بھی حاجی ہوں ' کھلم کھلا اللہ رب العالمین کی وحدانیت کا اعلان کرتا ہے 


ایک فلسفہ 'اللہ کے شعائر کا احترام اور اس کی تعظیم' ہے

          
          اللہ رب العالمین نے سورہ حج کے سیاق میں شعائر اللہ کی تعظیم کا حکم دیا فرمایا: { وَمَنْ يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللّٰهِ فَإِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوْبِ} [ الحج: ٣٢] ' سنو! جو اللہ کی نشانیوں کی عزت و حرمت کرتا ہے، تو یہ اس کے دل کی پرہیزگاری کی وجہ سے ہے' اس آیت کریمہ میں واضح و عیاں ہے کہ اللہ رب العالمین کے دین کے شعار کا احترام تقوی کی ایک علامت ہے


حج کا ایک فلسفہ'اتحاد و اتفاق کو فروغ دینا' ہے 

         
            دین اسلام کی روز اول سے ہی یہ کوشش رہی ہے کہ انسانی معاشرہ متحد و متفق ہوکر زندگی گزارے، اسلام ہمیشہ ان اسباب سے اجتناب کی تاکید کرتا ہے جو انسانوں کو متفرق کو منتشر کر دیتے ہیں، اتحاد و اتفاق شعائر اسلام کا اولین سبق ہے مناسک حج کی ادائیگی کے لئے عالمِ اسلام کے مسلمانوں کا ایک جم غفیر ہوتا ہے جس سے حجاج کرام کو متحد ہونے کا ایک درس ملتا ہے کہ جس طرح لباس میں وحدت نمایاں ہے تو رضائے الہی کے لیے ہمارے دل و دماغ اور فکر و نظر کیوں نہ ایک و نیک ہوں 


حج کا ایک فلسفہ 'اسلام کا درس مساوات' ہے

         
          اسلام سارے نسل انسانی کو آدم کی اولاد قرار دیتا ہے  { والناس بنو آدم و خلق الله آدم من تراب} [ جامع الترمذی: ٣٢٧٠] دین اسلام کی یہ تعلیم ہے کہ اللہ رب العالمین کے پاس معزز ہونے کے لئے صرف تقوی معیار ہے جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { لا فضل لعربي على عجمي ولا لعجمي على عربي ولا لأبيض على اسود ولا لأسود على ابيض إلا بالتقوى} [ شعيب الأرنؤوط: ١٤٣٨] حج کی ادائیگی میں بلا تفریق (رنگ و نسل) سارے مسلمان جمع ہوتے ہیں ایسے موقع پر ہمیں سبق ملتا ہے کہ خاندانی امتیازات اور قبائلی اختصاصات کو مٹا کر پوری دنیا کے تمام مسلمانوں کو ایک ہی لڑی میں پرو دیا جائے 


حج کا ایک بڑا فلسفہ 'انسانوں کے اندر تقوی پیدا کرنا' ہے

             قرآن کریم میں ارکان کے سیاق میں تقویٰ کا ذکر کیا گیا ہے، روزہ کی مشروعیت کے اختتام پر { لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ} [ البقره: ٨٣] مزید سورۃ البقرہ میں ہی حج کی افادیت اور اس کی مشروعیت کے تذکرے کے بعد فرمایا: { وَتَزَوَّدُوْا فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوٰى} [ البقره: ١٩٧] مناسک حج کی ادائیگی میں حجاج کرام کو تقوی پیدا کرنے کی تعلیم دی جاتی ہے، دوران حج ہر طرح کے فسق و فجور، جنگ و جدال اور جرم و گناہ سے پرہیز و گریز کی خصوصی تاکید کی گئی ہے اور اسی کو حج مبرور قرار دیا گیا ہے فرمایا:{ من حج لله فلم يرفث ولم يفسق رجع كيوم ولدته أمه} [ صحيح البخاري:١٥٢١ ]


حج بیت اللہ کا ایک فلسفہ 'فکر آخرت' بھی ہے

           
            مطلق طور پر حج دنیا کی سب سے بڑی کانفرنس ہے میدان عرفات، مزدلفہ، منی جدھر بھی نگاہ دوڑائی جائے  تاحدِنگاہ انسانوں کا ٹھاٹھے مارتا ہوا سمندر نظر آئے گا، کفن کی سی یہ دو چادریں میدان محشر کا سماں پیدا کر دیتی ہیں، دھول و غبار سے اٹے ہوئے انسانوں کو قبر کے مراحل اور میدان حشر کی ہولناکیوں کو تازہ کر دینے کی دعوت دیتے ہیں جو درحقیقت فکر آخرت کا تازیانہ ہے


حج کا ایک بہت بڑا فلسفہ 'شیطان سے دشمنی پر استقامت' ہے

           
              قربانی جو ابراہیم علیہ السلام کے اپنے بیٹے کو اللہ عزوجل کی راہ میں ذبح کرنے کی یادگار ہے، اس راہ میں شیطان نے بار بار ابراہیم علیہ السلام کو بہکانا چاہا لیکن انھوں نے شیطان کی جدوجہد پر سنگ باری کے، چنانچہ رمی جمرات کے ذریعہ شیطان سے دشمنی کی تجدید کرتا ہے شیطان اس دن بہت ہی غمگین اور ذلیل ہوتا ہے۔

       یہ ہیں حج بیت اللہ کی چند حکمتیں اور اس کا فلسفہ لہذا: اللہ تعالی ہم سب کو حج کی حکمتوں کو سمجھنے اور اپنے دل کے نہاں خانوں میں اتارنے کی توفیق دے.  (آمین) 


             📝
   
           راضی

پیر، 5 جولائی، 2021

سوشل میڈیا کے فوائد و نقصانات

 


اکیسویں صدی عیسوی کے ٹیکنالوجی انقلاب نے دنیا پر بہت سے اثرات مرتب کئے، ان مثبت و منفی اثرات سے روئے زمین کی آبادی کا ایک بہت بڑا طبقہ متاثر ہوا، سیاسی، سماجی، اصلاحی، اقتصادی اور معاشی سطح کے ہر ایک شعبہ پر یہ اثرات اس قدر ھمہ گیر ہیں کہ کوئی بھی شخص اس سے مستثنی و بے نیاز نہیں ہے، ٹیکنالوجی کے اس عظیم انقلاب کا ایک بڑا پہلو سوشل میڈیا ہے، راقم نے اسی موضوع پر چند سطور لکھنے کی ھمت کی ہے۔

سوشل میڈیا کیا ہے؟

                سوشل میڈیا انٹرنیٹ سے منسلک ایک ایسا نیٹ ورک ہے جو افراد کو اور ساتھ ہی اداروں کو ایک دوسرے کے ساتھ رابطہ کرنے، فکر و خیالات کا تبادلہ کرنے،اپنے پیغامات کی تبلیغ و ترسیل کرنے نیز اس کے علاوہ انٹرنیٹ کی اور بھی دیگر چیزیں ( جیسے گرافکس، ویڈیوز، آڈیوز، پوسٹرس، اور مختلف قسم کی چیزیں وغیرہ) کو ایک دوسرے کے ساتھ شئیر کرنے کا بہترین موقع فراہم کرتا ہے، سوشل میڈیا میں جس ویب سائٹ کا زیادہ تر لوگ استعمال کرتے ہیں وہ ٹیلی ویژن، یوٹیوب، فیس بک، ٹویٹر، گوگل پلس، واٹس ایپ، ٹیلی گرام،اور انسٹاگرام وغیرہ ہیں، ان سوشل ویب سائٹس کی بدولت  دور دور تک کا فاصلہ بالکل سمٹ کر رہ گیا، ہزاروں اور لاکھوں میل دور سے انسان اپنے عزیز و اقارب، دوست و احباب، رفقاء و رشتہ دار اور اسی طرح دیگر حضرات سے رابطہ قائم کر سکتا ہے، ٹیکنالوجی اور ذرائع ابلاغ کی اس ترقی کو دیکھ کر ہی دور جدید کے الیکٹرانک مسیحا  مارشل میکلوھان نے آج کی دنیا کو گلوبل ویلیج ( یعنی عالمی گاؤں) کے نام سے موسوم کیا ہے۔
             ٹیکنالوجی کے اس انقلاب نے ترقی کے راستے پر اتنی طویل اور اونچی چھلانگ لگائی ہے کہ انسانی جذبات و احساسات اور خیالات کو بھی اس نے متاثر کرنا شروع کر دیا ہے، اس صدی کے آغاز میں کتب و جرائد کی طباعت اور نشر واشاعت کی وجہ سے کتابوں اور مراجع و مصادر کی جو اہمیت تھی سوشل میڈیا کی وجہ سے انسانی زندگی سے وہ اہمیت ختم ہو کر رہ گئی، علمی اور تحقیقی معلومات کے قابل اعتماد سرچشموں کی طرف رجوع کرنے اور براہ راست ان سے استفادہ کرنے کے بجائے لوگ میڈیا کے ذریعہ پیش کی جانے والی معمولی اور ہلکی پھلکی معلومات پر زیادہ اعتماد اور بھروسہ کرنے لگے ہیں ۔

 سوشل میڈیا کی اہمیت و فوائد

                  موجودہ ترقی یافتہ دور میں سوشل میڈیا کی اہمیت مُسَلَّم ہے جس نے اس وسیع روئے زمین کو گلوبل ویلیج میں بدل کر رکھ دیا اور پوری دنیا کا فاصلہ صرف ایک کلک کے درمیان سمٹ کر رہ گیا، بس ایک کلک سے کسی بھی طرح کی علمی، دینی، ثقافتی، تہذیبی، تربیتی، سماجی، سیاسی اور اقتصادی معلومات حاصل کی جا سکتی ہے، سوشل میڈیا نے پوری دنیا کے انسانوں کے درمیان سے رنگ و نسل، دین و مذہب اور اونچ نیچ کے تفاوت کو نیست و نابود کرکے سب کو ایک ہی ڈرائنگ روم میں جمع کر دیا، اس کے ذریعہ ہر شخص ایک دوسرے سے متعارف ہو کر تبادلہ خیال اور تبلیغی کام انجام دے سکتا ہے نیز اس کے اور بھی بے شمار فوائد ہیں جن میں سب سے اہم اور عظیم فائدہ یہ ہے کہ اللہ عزوجل کا فرمان { أُدْعُ إِلٰى سَبِيْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِيْ هِيَ أَحْسَنْ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِيْلِه وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِيْنَ} [ النحل: ١٢٥]  اسی طرح  { وَلْتَكُنْ مِّنْكُمْ أُمَّةُ يَّدْعُوْنَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَاُولٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ} [ اٰل عمران: ١٠٤] کے مطابق دین اسلام کی تبلیغ وترسیل کا فریضہ ( جو کہ تمام مسلمانوں کے لئے ایک عظیم اور اہم فریضہ ہے) سوشل میڈیا کی مدد سے دنیا کے کسی بھی گوشے میں بیٹھ کر اور کسی بھی طرح کے بودوباش اختیار کئے ہوئے شخص تک اسلام کا پیغام پہنچا کر انتہائی آسانی کے ساتھ انجام دے سکتے ہیں، نیز جو لوگ مذہب اسلام سے اس قدر متنفر ہیں کہ اسلام کے متعلق کچھ سننا بھی گوارا نہیں کرتے اور نہ ہی کسی مسلمان کا سامنا کرنا پسند کرتے ہیں، انہیں بھی ان جدید ذرائع ابلاغ کے ذریعہ دین اسلام کی طرف دعوت دے کر دائرہ اسلام میں داخل کر سکتے ہیں۔
اسی طرح دشمنان اسلام کی جانب سے مذہب اسلام کے خلاف جو ریشہ دوانیاں اور زہرافشانیاں کی جا رہی ہیں، ان ذرائع ابلاغ کا استعمال کرکے مذہب اسلام کا دفاع کرتے ہوئے دشمنان اسلام کا منہ توڑ جواب دے سکتے ہیں اور عوامی اعداءِ اسلام کی جانب سے جو بد گمانیاں اور غلط فہمیاں پیدا ہوئی ہیں ان کو دور کر سکتے ہیں نیز اللہ رب العالمین کا فرمان { الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر} کے تحت نیکی کے فروغ اور معصیت پر روک کے لئے ان ذرائع کا استعمال کر کے ہم اللہ عزوجل کی قربت اور اجر عظیم کے حقدار بن سکتے ہیں،
           الحمدللہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ آج بہت سے لوگ فیس بک اور واٹس ایپ کے ذریعہ علمائے کرام اور داعیان اسلام کی تعلیمات کو بڑی تیز رفتاری کے ساتھ نشر و اشاعت کر رہے ہیں نیز لوگوں کی ذہن سازی اور معاشرہ میں پھیلی ہوئی بدعات و سیئات پر قدغن لگانے کا کام انجام دے رہے ہیں۔

سوشل میڈیا کے نقصانات

        سوشل میڈیا کے استعمال میں جہاں ہمارے لئے بے شمار فوائد  مضمر ہے وہیں اس کے نقصانات بھی کچھ کم نہیں، جہاں اس کا استعمال خیر و بھلائی کے لئے کیا جاتا ہے وہیں اس کا استعمال شر و برائی کے لئے بھی کیا جارہا ہے اور نوجوان نسل کی فکر و نظر، سوچ اور ذہن کو اس کے ذریعہ مغربی تہذیب و ثقافت میں مسخر کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے آج معاشرے میں فحاشی و عریانیت اور رقص و سرور بالکل عام ہو چکی ہے، ہمارا مسلم معاشرہ بے شمار ذنوب ومعصیت میں غرق ہوتا چلا جا رہا ہے اور ہماری تہذیبی و ثقافتی روایات دم توڑ چکی ہے ۔
آج بالخصوص ہماری نوجوان نسل کی ایک بڑی تعداد سوشل میڈیا کا استعمال غلط مقاصد کے لئےکر رہی ہے، ہمارے معاشرے کے وہ بچے جن کو کتب خانوں اور لائبریریوں میں ہونا چاہیے وہ موبائل فون ہاتھوں میں لئے گلی کوچوں کی زینت بنے پھر رہے ہیں، موبائل اور انٹرنیٹ کے زیادہ استعمال اور تعلیم پر کم توجہ نیز اسلامی تعلیمات سے کنارہ کشی کی وجہ سے ہمارے سوسائٹی میں مختلف قسم کے ناقابل ذکر اور حرام و ناجائز واقعات سامنے آتے رہتے ہیں اور روز بروز ان میں اضافہ بھی ہو رہا ہے ۔

خلاصۂ کلام

               آج کی ٹیکنالوجی انقلاب اور سوشل میڈیا نے انسان کی ترقی کے منازل کو تو آسان ضرور کر دیا اور انسانی زندگی میں اس کے فوائد بھی کچھ کم نہیں، مگر انسان کی منفی سوچ، انداز فکر اور ان ذرائع کا غلط استعمال کی وجہ سے سماج و معاشرہ بڑی تیزی کے ساتھ تباہی اور ہلاکت خیزی کی طرف بڑھ رہا ہے اور ہمارا سماجی، معاشرتی اور دینی اقتدار آہستہ آہستہ ختم ہوتا جا رہا ہے، اگر کہا جائے تو معاشرہ وسماج موت و حیات کی کشمکش سے دوچار ہے
اس بگاڑ کا سبب کوئی اور نہیں خود انسان ہی ہے اس لئے کہ سوشل میڈیا کے دو پہلو ہیں مثبت اور منفی جو شخص اس کا استعمال مثبت طریقے سے صرف اس کے فوائد کو مدنظر رکھتے ہوئے سیئات اور گناہوں سے بچتے ہوئے نیک اور بہترین مقصد کے لئے کرے گا تو اللہ رب العالمین اس کے اس عمل خیر کی بدولت اسے اجر عظیم سے نوازے گا، سوشل میڈیا کا استعمال مطلق طور پر برا اور نقصان دہ ہرگز نہیں اگر ہم اسے برے استعمال میں نہ لائیں .


               🖋
              
                راضی

کیا دیوالی کی مبارک باد دینا اور اس کی مٹھائیاں کھانا صحیح ہے

دیوالی کی مٹھائی سوال : کیا دیوالی کی مبارک باد دینا اور اس کی مٹھائیاں کھانا صحیح ہے ؟ جواب : اگر دیوالی منانا صحیح ہے تو اس کی مبارک باد ...