محترم قارئین : فریضۂ حج اپنے اندر مقصدیت و معنویت، حکمت و مصلحت اور گوناگوں فلسفہ و افادیت رکھتا ہے، جسے راقم نے مختصراً پیش کرنے کی ادنیٰ کوشش کر رہا ہے۔
حج کی لغوی و اصطلاحی تعریف
حج لغت میں قصد و ارادہ کو کہتے ہیں.
اصطلاح شرع میں متعینہ ایام میں مخصوص افعال و اعمال کی ادائیگی کیلئے بیت اللہ شریف کا قصد کرنا[ تحفۃ الاحوذی: ج ٣]
حج اسلام کا پانچواں اور ایک بہت ہی اہم رکن ہے، اللہ رب العالمین نے حج بیت اللہ کو مستطیع لوگوں پر واجب اور فرض قرار دیا ہے فرمایا:{ وَلِلّٰهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيْلًا} [ اٰل عمران: ٩٧] اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان: { بني الإسلام على خمس شهادة أن لا إله إلا الله وأن محمداً رسول الله وإقام الصلاة وإيتاء الزكاة والحج و صوم رمضان } [ صحيح البخاري: ٨ ] حج بيت اللہ اسلام کا ایک ایسا فریضہ ہے جو مالی و بدنی عبادت پر مشتمل ہے، یہ دیگر ارکان اسلام سے منفرد ہونے کے باوجود ارکان اسلام کے تمام ارکان کا خلاصہ ہے، علامہ ماوردی رحمه الله ارکان اسلام کو ذکر کرتے ہوئے حج کو آخر میں ذکر کئے جانے کی وجہ پر زور دیتے ہوئے فرمایا : "حج بیت اللہ اور اس کی ادائیگی میں اسلام کی روحانی تربیت کا پورا نچوڑ اور خلاصہ کو جمع کر دیا گیا ہے"
حج بیت اللہ کی ایک بڑی حکمت اور فلسفہ" اللہ کے حکم کی اطاعت" ہے
کوئی شخص جب اس فریضہ کی ادائیگی کا عزم کرتا ہے تو وہ پختہ عہد کرتا ہے احکام الہی کی بجا آوری اور فرمان خداوندی کے سامنے مکمل طور پر سر تسلیم خم کرنے کا اور اسی وجہ سے اس راہ کی ہر مشقت و پریشانی کو خندہ پیشانی سے گوارہ کر لیتا ہے اور مکمل طور پر صبر و استقامت کا مظاہرہ کرتا ہے، شعائر حج ابراہیم و اسماعیل علیهما السلام کی اطاعت گزاری اور وفا شعاری سے عبارت ہے، اس کے پیشتر ارکان ان کی قربانیوں و جانفشانیوں کی یادگار ہیں، چنانچہ یہی جذبۂ اطاعت ان کی دعا میں مذکور و مطلوب ہے { رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُسْلِمَةً لَكَ} [ البقره: ١٢٨] ' اے ہمارے رب ہمیں اپنا فرمانبردار بنا اور ہماری اولاد میں بھی ایک جماعت کو اپنی اطاعت گزار رکھ' اسی دعائے ابراہیمی کا مصداق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت بھی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی اللہ رب العالمین کی اطاعت کی اور اپنے صحابہ کرام کو بھی اس کا پابند و عمل پیرا بنایا۔
ایک فلسفہ' توحید کو اپنی زندگی میں نافذ کرنا'
یوں تو تمام شعائر اسلام میں وحدانیت کارفرما ہے لیکن حج توحید باری کے مظاہر کچھ زیادہ ہی دکھاتی ہے، اس کی کچھ جھلکیاں یوں ہیں
١ : اللہ عزوجل نے سورہ حج میں ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا کہ وہ بیت اللہ کو توحید کا مرکز بنائیں فرمایا:{ وَإِذْ بَوَّاْنَا لَإِبْرَاهِيْمَ مَكَانَ الْبَيْتِ أَنْ لَّا تُشْرِكْ بِيْ شَيْئًا} [ الحج: ٢٦]
٢: الله رب العالمين نے بتوں کی ہر طرح کی گندگی سے دور رہنے کا حکم دیا اس لئے کہ مشرک اور بت پرستی کا عقیدہ ایک کینسر ہے فرمایا: { فَاجْتَنِبُوْا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِ } [ الحج: ٣]
٣: تلبیہ پکارنا جو ہر حاجی کا ترانہ ہوتا ہے جب حاجی اس سے رطب اللسان ہوتا ہے تو وہ ہر طرح کے شرک سے برأت کا اظہار کرتا ہے اور اپنے عقیدے کو پختہ بناتا ہے
٤: طواف کی دونوں رکعتوں میں بالترتیب سورۃ الکافرون اور سورۃ الاخلاص پڑھ کر شرک سے براءت اور اللہ عزوجل کی وحدانیت کے عہد کی تجدید کرتا ہے
٥: عرفہ کے دن پڑھی جانے والی دعا { لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير} [ الترغيب والترهيب: ٣/ ٣٤٥]
٦: 'میں بھی حاجی ہوں ' کھلم کھلا اللہ رب العالمین کی وحدانیت کا اعلان کرتا ہے
ایک فلسفہ 'اللہ کے شعائر کا احترام اور اس کی تعظیم' ہے
اللہ رب العالمین نے سورہ حج کے سیاق میں شعائر اللہ کی تعظیم کا حکم دیا فرمایا: { وَمَنْ يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللّٰهِ فَإِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوْبِ} [ الحج: ٣٢] ' سنو! جو اللہ کی نشانیوں کی عزت و حرمت کرتا ہے، تو یہ اس کے دل کی پرہیزگاری کی وجہ سے ہے' اس آیت کریمہ میں واضح و عیاں ہے کہ اللہ رب العالمین کے دین کے شعار کا احترام تقوی کی ایک علامت ہے
حج کا ایک فلسفہ'اتحاد و اتفاق کو فروغ دینا' ہے
دین اسلام کی روز اول سے ہی یہ کوشش رہی ہے کہ انسانی معاشرہ متحد و متفق ہوکر زندگی گزارے، اسلام ہمیشہ ان اسباب سے اجتناب کی تاکید کرتا ہے جو انسانوں کو متفرق کو منتشر کر دیتے ہیں، اتحاد و اتفاق شعائر اسلام کا اولین سبق ہے مناسک حج کی ادائیگی کے لئے عالمِ اسلام کے مسلمانوں کا ایک جم غفیر ہوتا ہے جس سے حجاج کرام کو متحد ہونے کا ایک درس ملتا ہے کہ جس طرح لباس میں وحدت نمایاں ہے تو رضائے الہی کے لیے ہمارے دل و دماغ اور فکر و نظر کیوں نہ ایک و نیک ہوں
حج کا ایک فلسفہ 'اسلام کا درس مساوات' ہے
اسلام سارے نسل انسانی کو آدم کی اولاد قرار دیتا ہے { والناس بنو آدم و خلق الله آدم من تراب} [ جامع الترمذی: ٣٢٧٠] دین اسلام کی یہ تعلیم ہے کہ اللہ رب العالمین کے پاس معزز ہونے کے لئے صرف تقوی معیار ہے جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { لا فضل لعربي على عجمي ولا لعجمي على عربي ولا لأبيض على اسود ولا لأسود على ابيض إلا بالتقوى} [ شعيب الأرنؤوط: ١٤٣٨] حج کی ادائیگی میں بلا تفریق (رنگ و نسل) سارے مسلمان جمع ہوتے ہیں ایسے موقع پر ہمیں سبق ملتا ہے کہ خاندانی امتیازات اور قبائلی اختصاصات کو مٹا کر پوری دنیا کے تمام مسلمانوں کو ایک ہی لڑی میں پرو دیا جائے
حج کا ایک بڑا فلسفہ 'انسانوں کے اندر تقوی پیدا کرنا' ہے
قرآن کریم میں ارکان کے سیاق میں تقویٰ کا ذکر کیا گیا ہے، روزہ کی مشروعیت کے اختتام پر { لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ} [ البقره: ٨٣] مزید سورۃ البقرہ میں ہی حج کی افادیت اور اس کی مشروعیت کے تذکرے کے بعد فرمایا: { وَتَزَوَّدُوْا فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوٰى} [ البقره: ١٩٧] مناسک حج کی ادائیگی میں حجاج کرام کو تقوی پیدا کرنے کی تعلیم دی جاتی ہے، دوران حج ہر طرح کے فسق و فجور، جنگ و جدال اور جرم و گناہ سے پرہیز و گریز کی خصوصی تاکید کی گئی ہے اور اسی کو حج مبرور قرار دیا گیا ہے فرمایا:{ من حج لله فلم يرفث ولم يفسق رجع كيوم ولدته أمه} [ صحيح البخاري:١٥٢١ ]
حج بیت اللہ کا ایک فلسفہ 'فکر آخرت' بھی ہے
مطلق طور پر حج دنیا کی سب سے بڑی کانفرنس ہے میدان عرفات، مزدلفہ، منی جدھر بھی نگاہ دوڑائی جائے تاحدِنگاہ انسانوں کا ٹھاٹھے مارتا ہوا سمندر نظر آئے گا، کفن کی سی یہ دو چادریں میدان محشر کا سماں پیدا کر دیتی ہیں، دھول و غبار سے اٹے ہوئے انسانوں کو قبر کے مراحل اور میدان حشر کی ہولناکیوں کو تازہ کر دینے کی دعوت دیتے ہیں جو درحقیقت فکر آخرت کا تازیانہ ہے
حج کا ایک بہت بڑا فلسفہ 'شیطان سے دشمنی پر استقامت' ہے
قربانی جو ابراہیم علیہ السلام کے اپنے بیٹے کو اللہ عزوجل کی راہ میں ذبح کرنے کی یادگار ہے، اس راہ میں شیطان نے بار بار ابراہیم علیہ السلام کو بہکانا چاہا لیکن انھوں نے شیطان کی جدوجہد پر سنگ باری کے، چنانچہ رمی جمرات کے ذریعہ شیطان سے دشمنی کی تجدید کرتا ہے شیطان اس دن بہت ہی غمگین اور ذلیل ہوتا ہے۔
یہ ہیں حج بیت اللہ کی چند حکمتیں اور اس کا فلسفہ لہذا: اللہ تعالی ہم سب کو حج کی حکمتوں کو سمجھنے اور اپنے دل کے نہاں خانوں میں اتارنے کی توفیق دے. (آمین)
📝
راضی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں