اسلام خالق کائنات، مالک ارض و سماء کی طرف سے نازل کردہ ایک عالمگیر اور اعتدال پسند مذہب ہے جو انسانی فطرت کے عین مطابق ہے ظلم و زیادتی، فساد و تخریب، دہشت و تشدد، بے حیائی و بے پردگی جیسی مضرات و زیاں کار چیزوں سے اپنے متبعین کو دور رہنے کی تلقین کرتا ہے فرمان الہی ہے { وَلَا تُفْسِدُوْا فِي الأَرْضِ بَعْدَ إِصْلَاْحِهَا } [ الاعراف: ٥٦] ' درستگی کے بعد زمین میں فساد نہ پھیلاؤ' اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے { لا ضرر ولا ضرار} [ سنن ابن ماجہ: ٢٣٤٠] یعنی کسی کو کسی طرح کا نقصان پہنچانا روا نہیں ہے خواہ انفرادی ہو یا اجتماعی، اخلاقی ہو یا اقتصادی، جانی ہو یا مالی
سماج میں امن و عافیت، غمگساری و غم خواری، بھائی چارگی و ہمدردی کا جذبہ پیدا کرنے اور انارکی و بے چینی سے محفوظ رکھنے کے لئے جرائم پر سزا و حدود نافذ کیا ہے مثلاً زنا، قذف ( بہتان تراشی) سرقہ ( چوری ) شرب خمر ( شراب نوشی ) ارتداد یہ وہ جرائم ہیں جن پر قدغن اور قید و بند لگانا سماج کے صلاح وفلاح اور پاکیزگی کے لئے ناگریز ہے اسی لئے اسلام نے باقاعدہ ان جرائم کے ارتکاب کرنے والوں پر سزا متعین کی ہے
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان حدود کی وضاحت کردی جائے تاکہ قارئین کو اس حقیقت کا علم ہو جائے کہ یہی وہ حدود شرعیہ ہیں جن کی تنفیذ سے بہت ساری خرابیوں اور برائیوں کا سدباب کیا جاسکتا ہے اور ہر نفس خیر و عافیت کے ساتھ زندگی بسر کر سکتا ہے نیز ان نصوص کے نوک قلم پر آ جانے کے بعد یہ امر پوری طرح مترشح ہوجائے گا کہ یہ حدود سوسائٹی و سماج کے لئے مکمل طور پر رحمت کا باعث ہیں نہ کہ زحمت کا
حد زنا :
اسلام نے ان تمام راستوں کو مسدود کرنے کی کوشش کی ہے جو فتنہ و فساد کا پیش خیمہ و شاخسانہ ہو سکتے ہیں اللہ رب العالمین نے فرمایا { وَلَا تَقْرَبُوْا الزِّنَا إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِيْلَاً} [ الإسراء: ٣٢ ] یہ آیت کریمہ اس حقیقت پر واضح دلیل ہے، پھر بھی اگر کوئی اس جرم کا مرتکب ہوتا ہے تو شریعت اسلامیہ اس پر حد جاری کرتی ہے جیسا کہ اللہ رب العالمین کا ارشاد ہے { الزَّانِيَةُ وَالزَّانِيْ فَاجْلِدُوْا كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ ] [ النور: ٢] ' زنا کرنے والی عورت اور زنا کرنے والے مرد میں سے ہر ایک کو سو سو کوڑے لگاؤ '
عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ جب زانی پر مسلمانوں کی ایک جماعت کے سامنے حد جاری کیا جاتا ہے تو دوسرے لوگ اس سے عبرت حاصل کرتے ہیں اور اس جیسے گھناؤنے اور قبیح فعل سے اجتناب کرنے کی حتی الامکان کوشش کرتے ہیں اور اسلام جو کہ ایک آفاقی مذہب ہے اس کے ہر ہر حکم میں کچھ نہ کچھ راز پنہاں ہے، چونکہ زنا نسل انسانی کے اختلاط و اشتباہ کا ذریعہ بنتا ہے اور الفت و محبت، عزت و ناموس کو ختم کرنے کا باعث بھی ہے، جب کہ نسل انسانی کی حفاظت اور احترام انسانیت اسلام کا طرۂ امتیاز ہے اس لئے غیر شادی شدہ زنا کار کو کوڑے لگانے کے ساتھ ساتھ ایک سال کے لئے شہر بدر بھی کرنے کا حکم دیا گیا جیسا کہ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے( راوی حدیث زید بن خالد الجہنی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں) { سمعت النبي صلى الله عليه وسلم یأمر فيمن زني ولم يحصن جلد مائة وتغريب} [ صحيح البخاري: ٦٨٣١] ' کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ جو زنا کرے اور شادی شدہ نہ ہو تو سو کوڑے مارو اور ایک سال کیلئے شہر بدر کر دو'
حد قذف :
قذف کا مفہوم یہ ہے کہ ایک شخص دوسرے مرد یا عورت پر بغیر کسی دلیل کے زنا کی تہمت لگائے، بہتان تراشی ایسا قبیح عمل ہے کہ جس کے تین مفاسد بالخصوص سامنے آتے ہیں :
١ فواحش کا عام ہونا
٢ پاکیزہ شخص کو ناکردہ گناہ کی گندگی سے آلودہ کرنا
٣ یہ عمل عام حياداری کو مخدوش بنا دیتا ہے
اللہ سبحانہ و تعالی ارشاد فرماتا ہے { وَالَّذِيْنَ يَرْمُوْنَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَأْتُوْا بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَاجْلِدُوْهُمْ ثَمَانِيْنَ جَلْدَةً وَلَا تَقْبَلُوْا لَهُمْ شَهَادَةً أَبَدًا وَاُولٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُوْنَ} [ النور: ٤] ' جو لوگ پاک دامن عورتوں پر زنا کی تہمت لگائیں پھر چار گواہ پیش نہ کر سکیں تو انہیں ٨٠ کوڑے لگاؤ اور کبھی بھی ان کی گواہی قبول نہ کرو یہ فاسق لوگ ہیں
حد سرقہ :
چوری ایک ایسا جرم ہے جو انسان کو حرام خوری پر آمادہ کر دیتا ہے اور دل چوری کا عادی بن جاتا ہے اور دوسری طرف محنت کش صاحب مال کی بربادی بھی ہے اس لئے اگر مجرم کو سزا نہ دی جائے تو سماج پر ہلاکت خیز اثرات مرتب ہوں گے چنانچہ اسلام نے چوری کرنے والے شخص کا ہاتھ کاٹنے کی سزا متعین کی، ہشام بن عبدالملک نے ایک سال سرقہ کی حد کو معطل کر دیا تھا جس کا رزلٹ یہ نکلا تھا کہ چوری کے واقعات دوگنے ہوگئے چنانچہ اس نے پھر سے چوری کی سزا کو نافذ کیا اور اس کے جاری ہونے کا اعلان ہی جان و مال کی حفاظت کا ذریعہ بن گیا اور فرمان الہی کی حقیقت { وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوْا اَيْدِيَهُمَا جَزَاءَ بِمَا كَسَبَا نَكَالاً مِنَ اللّٰهِ وَاللّٰهُ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ} [ المائده: ٣٨] واضح اور روشن ہوگئی
حد شرب الخمر :
ہر طرح کے منشیات کے حرام ہونے میں علمائے امت کا اتفاق ہے کیونکہ فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے { كل مسکر خمر وكل خمر حرام} [ صحيح البخاري: ٢٠٠٣] ' ہر نشہ آور چیز شراب کی قسموں میں سے ہے اور شراب کی ہر ایک قسم حرام ہے ' چونکہ شراب خوری بذات خود گناہ ہونے کے ساتھ ساتھ بہت سے گھناؤنے گناہ کا ذریعہ بنتی ہے اس لئے شریعت اسلامیہ نے اس کی حد چالیس کوڑے متعین کی ہے تا آنکہ عہد فاروقی میں اس جرم پر مکمل بندش کے لئے ٨٠ کوڑے کر دی گئی
حد ارتداد :
چونکہ ارتداد دین و شریعت کے ساتھ کھلواڑ کرنے کے مترادف ہے اور معاشرے میں ذہنی و فکری فساد کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے اس لئے مرتد ہونے کی سزا قتل کر دینا ہے جیسا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا { لا يحل دم امرء مسلم يشهد أن لا إله إلا الله وإني رسول الله إلا بإحدى ثلث الثيب الزاني والنفس بالنفس والتارك لدينه المفارق للجماعة} [ صحيح ابي داود: ٤٣٥٢، مسلم: ١٦٧٤]
حد حرابہ :
ڈاکہ زنی کی حد تمام حدوں سے سخت ترین ہے کیونکہ ڈاکہ زنی قتل و خون کا ذریعہ ہوتی ہے اور انسان کے امن و سکون کو غارت کر دیتی ہے اللہ رب العالمین فرماتا ہے { اِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِيْنَ يُحَارِبُوْنَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهُ وَيَسْعَوْنَ فِيْ الْأَرْضِ فَسَادًا أَنْ يُّقَتَّلُوْا أَوْ يُصَلَّبُوْا أَوْ تُقَطَّعُ اَيْدِيَهُمْ وَاَرْجُلَهُمْ مِنْ خِلَافٍ أَوْ يُنْفَوْا مِنَ الْأَرْضِ ذٰلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِيْ الدُّنْيَا وَلَهُمْ فِيْ الْأٓخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيْمٌ } [ المائده: ٣٣] ' جو اللہ اور اس کے رسول سے لڑیں اور زمین میں فساد کرتے پھریں تو ان کی سزا یہی ہے کہ وہ قتل کر دیئے جائیں، یا سولی پر چڑھا دیئے جائیں یا مخالف جانب سے ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیے جائیں یا انہیں جلاوطن کر دیا جائے، یہ تو ہوئی ان کی دنیوی ذلت و خواری اور آخرت میں ان کے لئے بڑا بھاری عذاب ہے
حرف آخر :
ان حدود و سزا سے بظاہر تو جسم انسانی کو اذیت اور قطع و برید نمایاں ہوتی ہے لیکن درحقیقت سماج و معاشرہ میں طہارت و پاکیزگی، الفت و اخوت، امن و عافیت اور رحمت ہی رحمت ہے جس کا مشاہدہ ماضی سے حاضر تک کیا جا سکتا ہے آج بھی جن ممالک میں شرعی قوانین نافذ ہیں وہاں کے باشندے آرام و اطمینان کی زندگی گزار رہے ہیں.
اخیر میں اللہ رب العالمین سے دعا ہے کہ ہم باشندگان وطن کو حقیقی راحت نصیب فرمائے ( آمین )
🖊
راضی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں